Saturday 27 June 2020

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ قسط 43 ⏪ علماء کی قدر اور تبلیغی جماعت


تبلیغی جماعت کیا ہے ؟- مفتی عبد المعز - سنگین فتنہ sangeen Fitna


تبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 43

⏪ علماء کی قدر اور تبلیغی جماعت  ⏩


سب سے پہلی بات یہ ہے کہ انہوں نے علماء کو دو طبقوں میں تقسیم کیا .. وقت

 لگائے ہوئے علماء ، اور وہ جن پر وقت لگانے کا قرض باقی ہے .. پہلے طبقے کی کافی پذیرائی ہے جبکہ دوسرے طبقے کی طرف کوئی خاص التفات نہیں .. اگر کہیں کچھ ہے تو مؤلفة القلوب کی طرح کہ وقت لگانے کی طرف راغب ہو جائیں ... اس تقسیم کی بنیاد وقت لگانا ہے نہ کہ علم و تقویٰ .. چاہے کوئی کتنا ہی متقی عالم کیوں نہ ہو لیکن اگر وقت نہیں لگا تو اس کی احباب کے ہاں وہ قدر نہیں جو سال لگائے ہوئے برائے نام مولوی کی ہوتی ہے .. یہ طرزِ عمل ، علم اور علماء کی توہین نہیں تو کیا ہے ؟ .. یہ تو علم کی نہیں اپنے خودساختہ طریقے کی قدر ہوئی ... رسول الله صلى الله عليه وسلم نے لوگوں میں سے ہر ایک کو اس کا وہ درجہ دینے کا حکم دیا ہے جس کا شریعت کے مطابق وہ حق دار ہے 

عن عائشة رضي الله عنها قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ 

أبوداود في الأدب .. باب في تنزيل الناس منازلهم


      حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں سے ہر ایک کو وہ اہمیت دو جس کا مستحق ہے 

اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو میں سے ہر ایک کو قرار شرعی مقام دو .. یعنی وہ مقام جس کا وہ شرعاً مستحق ہے ..


اب وہ مقام کیا ہے جس کی وجہ سے کوئی شخص شریعت میں معزز بنتا ہے اور وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے شریعت عزت دیتی ہے ؟ تو اس کے اسباب تو کئی ہیں .. ایمان .. جہاد .. ہجرت .. بڑی عمر .. علم .. تقویٰ .. لیکن خاص اسی مقام کی مناسبت سے ہم صرف آخری دو یعنی علم اور تقویٰ کی بات کرتے ہیں


         🟢 علم 🟢 

علم کی شریعت میں بہت بڑی فضیلت ہے .. جس کے پاس علم جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی وہ زیادہ فضیلت والا ہوگا اور اتنا ہی وہ زیادہ عزت کا حقدار ہوگا .. اس پر دلائل بہت زیادہ ہیں ہم یہاں کچھ پر اکتفا کرتے ہیں


قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ 

سورة الزمر الاية رقم 9

ترجمہ

کہہ دو کہ کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے برابر ہو سکتے ہیں ؟ صرف عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں 


شَهِدَ اللّهُ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِكَةُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ قَآئِمَاً بِالْقِسْطِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ 

سورة آل عمران الاية رقم 18

ترجمہ

ﷲ گواہ ہیں کہ ان کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور فرشتے اور اہل علم بھی اس پر گواہ ہیں ، وہ ﷲ جو انصاف کے ساتھ (کائنات کی ) تدبیر کررہے ہیں ، ان کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی غالب اور حکمت والے ہیں ۔


       اللہ تعالی نے اپنی اور فرشتوں کی شہادت کے ساتھ اہلِ علم کی شہادت کا ذکر کیا  ۔۔۔ اس اعزاز کی وجہ علم ہے 


يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ 

سورة المجادلة الاية رقم 11

ترجمہ

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا کیا گیا ، اللہ ان کے درجے بلند کردیں گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے واقف ہیں ۔۔۔ 

     یعنی ایمان والوں کے درجات کافرین سے زیادہ ہیں اور پھر ایمان والوں میں سے اہل علم کے درجات دیگر  لوگوں سے زیادہ ہیں 

 

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالْآخَرُ عَالِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرَضِينَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ

الترمذي في العلم .. باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة

ترجمہ

     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ایک عابد اور دوسرا عالم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ پر ۔۔۔  پھر فرمایا کہ جو لوگ دیگر لوگوں کو خیر سکھاتے ہیں  اللہ تعالی ان پر رحمت نازل فرماتا ہے اور ملائکہ ، آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں ان لوگوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں 


        🟢 تقویٰ 🟢


یہ بھی بندے کو عزت بخشتی ہے .. الله تعالى فرماتے ہیں


يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ        سورة الحجرات الاية رقم 13

ترجمہ

اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور مختلف خاندان اور کنبے بنا دئے ہیں ؛ تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو ، یقیناً اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے ، جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہو ، یقیناً اللہ بہت جاننے والے اور بہت باخبر ہیں ۔۔۔ 


أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ 

سورة ص الاية رقم 28

ترجمہ

کیا ہم ایمان اور اعمال صالحہ والوں کو مفسدین فی الارض کی طرح کر دیں ؟ یا متقین کو فاجرین کی طرح کر دیں ؟


ان نصوص سے روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ جس کے اندر یہ دو صفتیں ہوں گی یعنی علم اور تقویٰ وہی دوسروں کے مقابلے میں زیادہ معزز ہوگا .. لیکن اس کے خلاف آپ احبابِ کرام کا عمل ملاحظہ فرمائیں کہ جس نے سال لگایا ہے وہ اس کے مقابلے میں زیادہ معزز ہے جس نے سال نہیں لگایا چاہے سال نہ لگانے والا علم تقوی اور عمر میں اس سے بڑھ کر ہو جس نے سال لگایا ہے اور چاہے سال لگائے ہوئے حضرت کو عبارت پڑهنا بھی نہ آتا ہو ... تو یہ طرزِ عمل جو احباب کا اختیار کیا ہوا ہے دسیوں شرعی نصوص کے خلاف ہے ..

صرف یہی نہیں بلکہ احبابِ کرام تو باعمل اور متقی علماء کرام پر ان گویوں گلوکاروں اداکاروں اور کھلاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں جن کا "وقت لگا" ہے چنانچہ ان میں سے کسی کا بیان ہو تو جوق در جوق جائیں گے گشتیں کریں گے .. بیان میں سینکڑوں بلکہ بعض دفعہ ہزاروں کا مجمع ہو جائے گا لیکن اسی شہر یا محلے میں کسی بڑے عالم دین کا بیان ہوگا تو وہاں گنتی کے چند لوگ ہوں گے بہر حال احبابِ کرام نظر نہیں آئیں گے دو چار ہوں تو ہوں لیکن نہ وہ بھیڑ ہوگی نہ وہ گشتیں نہ وہ جوش و خروش ...

یہ اپنے تبلیغی مدارس میں ایسے کسی شخص کو مدرس نہیں رکھتے جس کا سال نہ لگا ہوا ہو .. اپنے کسی مرکز میں کسی ایسے عالم کا بیان نہیں رکھتے جس کا سال نہ لگا ہو بلکہ بہت سے ان کا بھی نہیں رکھتے جن کا سال لگا ہوا ہے اور جاہلوں کو ان پر ترجیح دے دیتے ہیں اور وہ منبروں پر بیٹھ کر بیان کرتے ہیں .. یہ ہے ان کے ہاں علماء کرام کی عزت .. جنہوں نے وقت نہیں لگایا وہ مکمّل آؤٹ .. اور بہت سے وہ جنہوں نے وقت لگایا ہے ان پر چند جاہلوں کو ترجیح ..

بہت سے تبلیغی حضرات کو دیکھا ہے کہ اپنے بیٹوں اور بھتیجوں سے اس لئے قطع تعلق کر لیتے ہیں کہ وہ ان کی منشا کے مطابق تبلیغی عمل میں نہیں جڑتے .. بول چال تک بند کر دیتے ہیں .. یعنی قطع رحمی کے حرام میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ ان کی یہ خود ساختہ ترتيب ان کے ہاں فرض ہے اور اسی کو غلو کہتے ہیں جو ناجائز ہے .. یہی ہے تعدی حدود .. 


قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعُواْ أَهْوَاء قَوْمٍ قَدْ ضَلُّواْ مِن قَبْلُ وَأَضَلُّواْ كَثِيرًا وَضَلُّواْ عَن سَوَاء السَّبِيلِ

سورة المائدة الاية رقم 77

ترجمہ

 کہہ دیجئے : اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو ،  اور ان لوگوں کے خیالات پر نہ چلو جو پہلے خود گمراہ ہوچکے ہیں اور بہتوں کو گمراہ کرچکے ہیں اور وہ سیدھے راستہ سے بھٹکے ہوئے تھے


اب جب حالت یہ ہے جو اوپر مذکور ہوئی تو ان علماء کرام کی عزت کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں جا سکتا جو تبلیغی جماعت کی غلطیوں پر تنقید کرتے ہوں حالانکہ شرعاً ایسے علماء کرام کی عزت بنسبت دیگر کے زیادہ ہونی چاہئے کیونکہ تبلیغی جماعت جیسی بڑی جماعت پر تنقید وہ علماء کرام کر سکتے ہیں جو دنیوی اغراض و مقاصد کے لالچی نہ ہوں .. جن کو اس بات کی پرواہ نہ ہو کہ اس سے مجھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے .. اس سے محبین و معتقدین میں کمی آ سکتی ہے .. اپنے ہی مکتبِ فکر کی اتنی بڑی جماعت کی مخالفت کون کرے گا کیوں کرے گا ؟ اس بات پر اگر سنجیدگی سے سوچا جائے تو بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ جائے گی ان شاء الله کہ یہ تنقید محض الله کے لئے ہے .. لیکن احبابِ کرام کی طرف سے ایسے علماء کرام کی عزت تقریباً محال ہے .. وہ اگر مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ جیسی شخصیت سے اس لئے بغض رکھتے ہوں کہ وہ " تبلیغ کا مخالف " ہے تو پھر کسی اور کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے ؟

بہرحال ان کے ہاں جو تهوڑا بہت اکرام علماء کا پایا جانا ہے وہ جماعت پرستی یعنی تعصب ہے .. یعنی جن کا سال لگا ہوا ہے ان کو محدود دائرے میں کچھ عزت دیتے ہیں اپنے جاہل " بڑوں " سے آگے نہیں بڑھاتے .. یا ان کا اکرام کرتے ہیں جن کو وہ مؤلفة القلوب کے درجے میں رکھتے ہیں یعنی جن کے بارے میں ان کو توقع ہوتی ہے کہ سال میں نکل جائے گا .. ان کے ہاں علماء کی بحیثیت علماء کوئی قدر و عزت نہیں .. کچھ افراد ایسے ہو سکتے ہیں جو بلا تفریق علماء کی قدر کرتے ہوں گے یہاں بات ان کی نہیں عمومی رویے کی ہو رہی ہے ..


💠 علماء کے لئے سال کیوں ؟ 💠


سوال پیدا ہوتا ہے کہ عام لوگوں کے لئے چار مہینے ہیں علماء کے لئے سال کیوں ہے ؟ اس کا ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ کام علماء کا ہے اس لئے ان کے لئے ایک سال رکھا گیا ہے .. لیکن یہ کوئی خاص جواب نہیں .. تین مہینوں یا کچھ کم و بیش کا وقفہ رکھا جاتا تو زیادہ سے زیادہ علماء شرکت کر سکتے اور بار بار کرتے یوں کام زیادہ ہوتا .. 

ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ علماء کے وقت میں برکت زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ بھی کوئی جواب نہیں کیونکہ پهر تو علماء کا وقفہ سب سے کم رکهنا چاہئے تھا کیونکہ قیمتی اور برکتی چیز کم مقدار میں بھی کافی ہو جاتی ہے نیز کم دورانیے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ علماء کرام شرکت کرتے زیادہ برکت ہوتی


اگر اس پر کوئی سوال کرے کہ اب بھی علماء کے چلے اور چار مہینوں پر پابندی تھوڑی ہے .. وہ تو اب بھی لگا سکتے ہیں .. تو اس کا جواب یہ ہے کہ لگا تو سکتے ہیں لیکن یہ چونکہ ان کے حق میں ناقص کورس ہے اور عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ لوگ ناقص کورس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ..


ایک جواب یہ بھی سنا گیا ہے کہ چونکہ علماء میں علم کا غرور بہت ہوتا ہے اس لئے کم وقت میں ان کی اصلاح نہیں ہوتی اس لئے زیادہ وقت رکھا گیا ہے .. اگر ایسا ہی ہے تو یہ مروجہ تبلیغی سوچ اور ذہن کے عین مطابق ہے اور اس پر کسی تبصرے کی کوئی ضرورت نہیں ..


یہ تو تھے تبلیغی حضرات کی طرف سے جوابات لیکن ان سے ہٹ کر ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ یہ باصلاحیت علماء کو یہاں کم سے کم رکھنے کی ایک تدبیر ہے تاکہ علماء کرام کم سے کم ہوں اور تبلیغی جماعت کا پول نہ کھلے .. وہ تدبیر اس طرح کہ لمبا عرصہ مقرر کرنے کی وجہ سے علماء کرام کی آمد کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے اور باصلاحیت اور دینی خدمت میں مصروف علماء کی آمد کا راستہ تقریباً بند کیا جا سکتا ہے جس سے میدان جاہلوں کے لئے خالی ہوگا اور کم استعداد و صلاحیت والے مولوی اگر آئیں گے بھی تو ان کو بآسانی اپنی مرضی کے مطابق چلایا جا سکتا ہے .. اور اگر تهوڑے بہت ذی استعداد علماء آ بھی گئے تو وہ تعداد میں اتنے کم ہوں گے کہ ان سے کچھ بن نہ پائے گا یا ان کو کوئی "ذمہ داری " ( جو تبلیغی جماعت میں کسی عہدے سے کم نہیں ) دیکر قابو کیا جا سکتا ہے .. خلاصہ یہ ہے کہ اگر علماء کا کورس بھی کم رکھ دیا جائے تو اس سے علماء کی کثرت ہو سکتی ہے اور اس سے جماعت ان کے کنٹرول میں جا سکتی ہے جو " خطرناک " ہے .. اگر جماعت کے موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ رائے بعید از قیاس نہیں ..


💠 علماء کرام سے بحث مباحثہ 💠

ایک طرف یہ حضرات علماء کے اکرام کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف علماء کرام سے سب سے زیادہ بحث کرنے والے بھی یہی ہوتے ہیں .. جیسے ہی کوئی عالم کسی غلطی پر تنبیہ کرتا ہے تو یہ شکریے کے ساتھ قبول کرنے کی بجائے بحث پر اتر آتے ہیں .. 

اللهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه

اپنے اور اپنے متعلقین کے ایمان کا خیال رکھئے


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔