Thursday 15 October 2015

’’بھی‘‘ والی آیات کے ساتھ ’’ہی ‘‘لگا کرکس طرح مسلمانو ں کو قرآ نی احکا مات کا منکربنایا جاتا ہے ۔

’’بھی‘‘ والی آیات کے ساتھ ’’ہی ‘‘لگا کرکس طرح مسلمانو ں کو قرآ نی احکا مات کا
منکربنایا جاتا ہے ۔ وہ الفاظ جاننے کیلئے پہلے (’’ہی ‘‘اور’’ بھی‘‘) میں فرق ضرور سمجھ لیں۔ 
(ا)نماز میں ہم پڑھتے ہیں کہ اے اﷲ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مددمانگتے ہیں۔ اگر بھی پڑھتے تواسکا مطلب ہوتا کہ اور بھی خدا ہیں مگر ہی نے بھی کی خود بخود جڑکاٹ دی ۔مشرکین مکہ کے ساتھ جھگڑا بھی اور ہی کا تھاان کا عقیدہ تھا کہ تین سوساٹھ بھی خدا ہیں اور اسلام کی دعوت تھی اور ہے کہ خدا ایک ہی ہے (ہی اور بھی )میں دوسرا فرق)اسی طرح بیوی اگر خاوند سے کہے کہ تو بھی میرا خاوند ہے تو ایک کی نفی خود بخودہوجائے گی کہ کچھ اور بھی خاوند بنا رکھے ہیں جو یہ کہتی ہے کہ تو بھی میرا خاوند ہے۔ بیوی کا ’’بھی ‘‘کہنا بہتر ہے یا’’ہی ‘‘کہنابہتر ہے ؟
اس طرح کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کی خود بخود نفی کردیتے ہیں۔ مثال: ایک آدمی کے 10بیٹے ہوں اسے کوئی کہے کہ تیرے 5 بیٹے ہی حلالی ہیں بس آگے اس نے کچھ نہیں کہا لیکن 5 کی خود بخود نفی ہوجائے گی کہ یہ حلالی نہیں۔
محترم برادران اسلام: اسی طرح اﷲ کے راستے میں فی سبیل ا للہ کا لفظ قرآن کریم میں تقریباً67 مرتبہ آیا ہے ۔ جس میں جہاد فی سبیل اﷲ ،قتال فی سبیل للہ ، مجاہدین فی سبیل اﷲ ،ہجرت فی سبیل اﷲ اوربھی بہت سے کام بتائے ہیں فی سبیل للہ کے ۔اگر کوئی مسلمان یہ دعوت دے کہ اﷲ کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ یہ ہی ہے ۔ اور کوئی نہیں تو باقی تمام آیا ت کی خود بخودنفی ہوجائے گی اور قرآنی آیات کے انکار کرنے والے کو کیا کہا جائے گا۔منکرِ قرآن اور ،منکرِ قرآن کو کیا کہا جاتا ہے ۔ (کافر) تو آج کے داعی ’’بھی‘‘ کی جگہ ’’ہی ‘‘لگانے والے کافروں کو مسلمان کر رہے ہیں یا مسلمانوں کو غیر اعلانیہ کافر بنارہے ہیں۔اور جن کے ذہن میں ہی بیٹھ جاتا ہے پھر وہ تمام اللہ کے راستوں کا خودبخود انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کا راستہ صرف یہ ہی ہے اور کوئی نہیں اس طرح خود بخود جہادوقتال اور مقصد آمد نبی ﷺ اور دوسرے تمام احکامات کا انکار ہوجاتاہے ۔ پھر کہتے ہیں ہم جہاد کے منکر تو نہیں اس طرح نبیﷺکے آنے کے مقاصد قرآن کریم نے بے شماربتائے ہیں جن میں۔غلبہ اسلام بھی ، بشارت سنانا بھی ،ڈرانا بھی ، دین پہنچانابھی ...اور بہت سے کام بھی اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں ... اب اگر کوئی داعی یہ دعوت دے کہ نبی ﷺ کے آنے کا مقصد دین پھیلانا ہی ہے اور کوئی کام نہیں ہے تو اس طرح غلبہ اسلام اور باقی تمام آیا ت کی خود بخود نفی ہوجائے گی ۔اور یہ دعوت... انکارِ قرآن کی دعوت ہوگی یا نہیں ؟اسی طرح قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافر تمہارے دشمن ہیں اور ایک داعی کہتا ہے کہ صرف اور صرف نفس اور شیطان ہی ہمارے دشمن ہیں اور کوئی دشمن نہیں تو قرآن کے بتائے ہوئے دشمن ’کافر‘ کا خود بخود انکار ہوجائے گا۔ اسی طرح بے شمار آیات کا جگہ جگہ انکار اس انداز میں کرنے سے ہم کافروں کو مسلمان بنارہے ہیں یا مسلمانوں کو منکر قرآن بنا کر کافر بنارہے ہیں جسکی وجہ سے ایسے لوگوں کوامریکہ بھی پسند کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسرائیلی یہودی بھی انکو دعوتی کام کیلئے اپنے ملک میں مرکز بنا کر دیتے ہیں ۔
اسی طرح ایک غلط نمبر ملانے سے کال کہاں سے کہاں چلی جاتی ہے اور قرآن کے بارے میں غلط بیانی سے اُمت جنت کی طرف جائیگی یا جہنم کی طرف؟
ہم دعالکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے ... ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنادیا 
حجاج بن یوسف سے یہودیوں کے عالموں نے آکر کہ آکہ جنہوں نے حضرت موسی ؑ اور خضر ؑ کو کھانا نہیں کھلایا تھا۔کہ آپ نے قرآن کریم پراعراب لگائے ہیں۔ لہذا ..اَبَوْ۔۔۔ کو... اَتَوْ ...کر دیں۔
حجاج بن یوسف نے جواب دیا کہ آپ لوگ اندر تشریف لائیں میں ابھی تھوڑی دیربعد تمہیں بلاتا ہوں پھر اس نے جلاد کو بلایا اور کہا کہ ان کو بلا بلا کر ایک ایک کی گردن اُڑادو کہ اﷲتعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کھانا انہوں نے نہیں کھلایا اور یہ مجھ سے قرآن کریم میں تبدیلی کرواکے کہلواناچاہتے ہیں کہ کھانا کھلایا تھا ۔ لہٰذا یہ لوگ میرا مقابلہ اﷲ تعالیٰ سے کروانا چاہتے ہیں۔افسوس کہ اُمت کا ظالم حجاج بن یوسف تو قرآن کریم میں ''ب'' کی جگہ ''ت''کرنے کو تیار نہیں کہ اس سے انکارِ قرآن ہوجائے گااور آج کے بزرگ قرآن کریم کی ہر ہر آیا ت کا ترجمہ ہی بدل دیتے ہیں تو اُمت کا انجام کیا ہوگا؟ اس طرح یہ امت عامل قرآن بنے گی یا تارک قرآن بنے گی ؟
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر۔۔۔۔۔۔۔ ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
فاتح بیت المقدس حضرت صلاح الدین ایوبی کی جہادی یلغار کے سامنے جب دنیا بھرکی کفریہ طاقتیں اتحادی بن کر بھی بند نہ باندھ سکیں تو انکے ایک کمانڈر نے کہا کہ ہم نے یہ مہم اس روز شروع کردی تھی کہ جس روز صلاح الدین ایوبی نے ہمیں بحر روم میں شکست دی تھی کہ
ہم کھلی تخریب کاری کے قائل نہیں ہم ذہنوں میں تخریب کاری کیا کرتے ہیں۔
ہمارے پاس دولت ہے جس کے زور پر ہم مسلمان مولوی تیار کر کے مصر کی مسجدوں میں بیٹھا سکتے ہیں ہمارے پاس ایسے عیسائی عالم بھی موجود ہیں جو اسلام اور قرآن سے بڑی اچھی طرح واقف ہیں انہیں ہم مسلمان اماموں کے روپ میں استعما ل کریں گے (داستان ایمان فروشوں کی۔ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر162/163) 
اسی طرح ایک عیسائی عالم امام مسجد بن کر مسلمانوں کے روپ میں اپنے ہم رازداروں سے کہہ رہا تھا کہ ہاتھوں میں قرآن رکھ کر بات کروگے تو یہ لوگ احمقانہ باتوں کے بھی قائل ہوجاتے ہیں اور جھوٹ کو بھی سچ مان لیتے ہیں میرا تجربہ کامیاب ہے۔ میں یہاں اپنے جیسا ایک گروہ پیدا کرلوں گاجو ممبروں پر بیٹھ کر قرآن ہاتھوں میں لیکر ان لوگوں کے جذبہ جہاد اور کردارکو قتل کردیگا (داستان ایمان فروشوں کی ۔جلد نمبر 1صفحہ نمبر 191 ) 
نوٹ :کل تک جو کام کافر مسلمانوں کے روپ میں کیا کرتے تھے یعنی جہادی احکامات سے مسلمانوں کو متنفر کرناآج وہی کام بڑے بڑے مدرسوں کی مسجدوں میں بیٹھ کر اکابر علماء اکرام کی سر پرستی میں بڑے ہی اجر و ثواب کا کام بتا کر جہادی احکامات کے خلاف پروپیگنڈہ کون لوگ کر رہے ہیں؟ 
یہ راز بھی اب کوئی راز نہیں ....سب اہل گلستاں جان گئے 
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے.... انجام گلستاں کیا ہوگا
ایک ہی شکاری بزرگ کافی تھا ایماں کی تباہی کیلئے 
ہر مسجد میں بزرگ بیٹھے ہیں انجام مسلماں کیا ہوگا
کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں جان لو یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں ....(البقرۃ11-12)
اقتباس : سنگین فتنہ صفحہ نمبر 46

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔