Saturday 27 June 2020

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ قسط 40 🔯 کیا جاہل بیان کر سکتا ہے ؟


تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ مفتی عبد المعز - سنگین فتنہ -sangeenfitna


تبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 40

🔯 کیا جاہل بیان کر سکتا ہے ؟ 🔯

      احباب کرام کا سب سے بڑا کارنامہ جو چودہ صدیوں میں قدریہ ، جبریہ ، خوارج ، روافض ، نواصب ، جہمیہ ، مرجیہ ، معتزلہ سمیت کوئی نہ کرسکا یہی ہے کہ جاہلوں سے بیان کرواتے ہیں صرف چھوٹی چھوٹی مساجد میں دس بیس آدمیوں کے سامنے نہیں ، منبروں پر مراکز میں ہزاروں افراد کے سامنے جس میں بعض اوقات سینکڑوں علماء بھی ہوتے ہیں ، بلکہ اجتماعات میں لاکھوں افراد کے سامنے جس میں ہزاروں علماء بھی ہوتے ہیں - جی ہاں ! یہ ہے تبلیغی جماعت کا وہ کارنامہ جسے آج تک کوئی گمراہ فرقہ بھی نہ کرسکا - خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے - تبلیغی جماعت کی دیکھا دیکھی اب کچھ سیاسی پارٹیوں نے بھی یہی شروع کر دیا ہے بلکہ وہ تو دو چار قدم آگے بڑھ گئی ہیں انہوں نے کافرین تک کو سٹیجوں پر بلانا شروع کر دیا ہے لیکن خالص دینی اجتماعات میں اس سنت سیئہ کے بانی احباب کرام ہی ہیں 

🛑 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ ••

صحيح مسلم | كِتَابٌ : الزَّكَاةُ.  | بَابٌ : الْحَثُّ عَلَى الصَّدَقَةِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ.  


      رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا تو اسے اس کا اجر ملے گا اور جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے ان کا اجر بھی ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی بھی نہیں آئے گی ، اور جو اسلام میں برا طریقہ جاری کرے گا تو اسے اس کا گناہ ملے گا اور ان لوگوں کا گناہ بھی ، جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔۔۔ 


     جو لوگ تھوڑی بہت سمجھ اور سلیم فطرت رکھتے ہیں وہ بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ دین میں اس کی اجازت نہیں ہو سکتی کہ جاہل بیان کرتا پھرے - لیکن اس کے باوجود ہم کچھ دلائل عرض کر دیتے ہیں - 


♦️قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ 

سورة يوسف الاية رقم 108

ترجمہ

   کہہ دو : یہی میرا راستہ ہے ﷲ کی طرف بلاتا ہوں ، میں بھی بصیرت ( علم ) پر ہوں اورمیری پیروی کرنے والے بھی ، اور ﷲ کی ذات پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ 

♦️ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ 

سورة النحل الاية رقم 125

ترجمہ

( اے رسول ! ) اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعہ بلائیے اور ان سے بہتر طریقہ پر بحث کیجئے ، یقیناً تیرا پروردگار اس شخص سے بھی واقف ہے ، جو اس کے راستے سے بھٹک گیا اور راہ راست پر لگنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے  


      ان دونوں آیات میں دعوت کو علم کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے - لیکن احباب کرام ہیں جو اس شرط کو نظر انداز کر کے جہالت سمیت منبر پر تشریف فرما ہو جاتے ہیں اور مولویوں کو نیچے بھٹا دیتے ہیں - 

مذکورہ دو آیتوں میں پہلی آیت کی تفسیر میں کچھ اہل علم مفسرین کی عبارتیں پیش کی جارہی ہیں تاکہ اہل علم استفادہ کرسکیں - کنز الدقائق اور منار کے مصنف ابو البرکات حافظ الدین النسفی رحمہ اللّٰہ اپنی مختصر اور مفید تفسیر مدارک میں ارشاد فرماتے ہیں


﴿قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي﴾ هَذِهِ السَبِيلُ الَّتِي هي الدَعْوَةُ إلى الإيمانِ والتَوْحِيدِ سَبِيلِي، والسَبِيلُ والطَرِيقُ: يُذَكَّرانِ ويُؤَنَّثانِ ثُمَّ فَسَّرَ سَبِيلَهُ بِقَوْلِهِ ﴿أدْعُو إلى اللهِ عَلى بَصِيرَةٍ﴾ أيْ: أدْعُو إلى دِينِهِ مَعَ حُجَّةٍ واضِحَةٍ غَيْرِ عَمْياءَ ﴿أنا﴾ تَأْكِيدٌ لِلْمُسْتَتِرِ في أدْعُو ﴿وَمَنِ اتَّبَعَنِي﴾ عَطْفٌ عَلَيْهِ أيْ: أدْعُو إلى سَبِيلِ اللهِ أنا ويَدْعُو إلَيْهِ مَنِ اتَّبَعَنِي أوْ أنا مُبْتَدَأٌ و"عَلى بَصِيرَةٍ" خَبَرٌ مُقَدَّمٌ "وَمَنِ اتَّبَعَنِي" عَطْفٌ عَلى "أنا" يُخْبِرُ ابْتِداءً بِأنَّهُ ومَنِ اتَّبَعَهُ عَلى حُجَّةٍ وبُرْهانٍ لا عَلى هَوًى ﴿وَسُبْحانَ اللهِ﴾ وأُنَزِّهُهُ عَنِ الشُرَكاءِ ﴿وَما أنا مِنَ المُشْرِكِينَ﴾ مَعَ اللهِ غَيْرَهُ.


اس میں بصیرة کے معنی پر غور فرمائیں حجة  واضحة غير عمياء -

اسی طرح " علی حجة و برھان لا علی ھوی " پر بھی غور فرمائیں - اس کے لئے علم کی نہیں ، مضبوط علم کی ضرورت ہے - 

امام فخرالدین رازی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں - 

قالَ المُفَسِّرُونَ: قُلْ يا مُحَمَّدُ لَهم: هَذِهِ الدَّعْوَةُ الَّتِي أدْعُو إلَيْها، والطَّرِيقَةُ الَّتِي أنا عَلَيْها سَبِيلِي وسُنَّتِي ومِنهاجِي، وسُمِّيَ الدِّينُ سَبِيلًا لِأنَّهُ الطَّرِيقُ الَّذِي يُؤَدِّي إلى الثَّوابِ، ومِثْلُهُ قَوْلُهُ تَعالى: ﴿ادْعُ إلى سَبِيلِ رَبِّكَ﴾ (النَّحْلِ: ١٢٥) .

واعْلَمْ أنَّ السَّبِيلَ في أصْلِ اللُّغَةِ الطَّرِيقُ، وشَبَّهُوا المُعْتَقَداتِ بِها لَمّا أنَّ الإنْسانَ يَمُرُّ عَلَيْها إلى الجَنَّةِ. ﴿أدْعُو إلى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ﴾ وحُجَّةٍ وبُرْهانٍ، أنا ومَنِ اتَّبَعَنِي إلى سِيرَتِي وطَرِيقَتِي وسِيرَةِ أتْباعِي الدَّعْوَةِ إلى اللَّهِ؛ لِأنَّ كُلَّ مَن ذَكَرَ الحُجَّةَ وأجابَ عَنِ الشُّبْهَةِ؛ فَقَدْ دَعا بِمِقْدارِ وُسْعِهِ إلى اللَّهِ.

وهَذا يَدُلُّ عَلى أنَّ الدُّعاءَ إلى اللَّهِ تَعالى إنَّما يَحْسُنُ ويَجُوزُ مَعَ هَذا الشَّرْطِ وهو أنْ يَكُونَ عَلى بَصِيرَةٍ مِمّا يَقُولُ وعَلى هُدًى ويَقِينٍ، فَإنْ لَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ فَهو مَحْضُ الغُرُورِ ...  

علامہ رازی رحمہ اللّٰہ نے بھی بصیرت کے معنی عطف تفسیری کے ذریعے حجت اور برہان کے کئے ہیں آخر میں امام رحمہ اللّٰہ نے ایک ضروری تنبیہ فرمائی ہے -

           فرماتے ہیں یہ آیت بتا رہی ہے کہ دعوت الی اللہ صرف اسی شرط کے ساتھ اچھی اور جائز ہے کہ اپنی بات کے بارے میں بصیرت حجت برہان اور ہدایت یعنی شریعت کے مطابق _ نہ کہ خواہش و بدعت__  اور یقین پر ہو اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ محض دھوکہ ہی ہے - 

           ملاحظ فرمایا آپ نے ؟ امام رازی رحمہ اللّٰہ علم کو دعوت کے لئے شرط ٹھہراتے ہیں اور جو دعوت علم کے بغیر ہو اسے دعوت تسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ محض دھوکہ کہتے ہیں تو موجودہ چلت پھرت کے بارے میں امام رازی رحمہ اللّٰہ کا فتویٰ یہ ہے کہ: یہ دعوت نہیں  محض دھوکہ ہے - 

           علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں 

     " یعنی میرا راستہ یہ ہی خالص توحید کا راستہ ہے میں تمام دنیا کو دعوت دیتا ہوں کہ سب خیالات و اوہام کو چھوڑ کر ایک خدا کی طرف آئیں، اس کی توحید، اس کی صفات و کمالات اور اس کے احکام وغیرہ کی صحیح معرفت صحیح راستہ سے حاصل کریں۔ میں اور میرے ساتھی اس سیدھے راستہ پر، حجت وبرہان اور بصیرت و وجدان کی روشنی میں چل رہے ہیں۔ خدا نے مجھ کو ایک نور دیا جس سے سب ہمراہیوں کے دماغ روشن ہوگئے۔ یہاں کسی کی اندھی تقلید نہیں۔ خالص توحید کا راہرو ہر قدم پر اپنے باطن میں معرفت و بصیرت کی خاص روشنی اور عبودیت محضہ کی خاص لذت محسوس کر کے بےساختہ پکار اٹھتا ہے۔ (وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 

   اہل علم حضرات کے فائدے کے لئے علامہ ابن عاشور رحمہ اللّٰہ کی عبارت بھی پیش خدمت ہے: 

      وفی الآية دلالة على أن أصحاب النبىٔ صلى الله عليه وسلم والمؤمنين الذين آمنوا به مأمورون بأن يدعوا إلى الايمان بما يستطيعون •وقد قاموا بذالك بوساىٔل بثّ القرآن وأركان الاسلام والجهاد في سبيل الله • وقد كانت الدعوة إلى الاسلام في صدر زمان البعثة المحمدية واجبا على الأعيان لقول النبىٔ صلى الله عليه وسلم [ بَلِّغُوْا عَنّى و لوْآيةً ] أى بقدر الاستطاعة • ثم لمّا ظهر الاسلام وبلغت دعوته الأسماع صارت الدعوة إليه واجبا على الكفاية كما دلّ عليه قوله تعالى  ولْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ •


     مذکورہ آیات کی تفسیر میں بہت سے مفسرین رحمہم اللّٰہ نے صحابہ کے جہاد کا بھی ذکر کیا ہے جیسے علامہ بغوی علامہ ثعلبی وغیرہ - 


       جتنے بھی علماء کرام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرائط کو بیان کیا ہے سب نے علم کو شرط لازم کے طور پر ذکر کیا ہے - 


        🔷کیا جاہل کا بیان سننا جائز ہے ؟ 🔷

        جب یہ معلوم ہو گیا کہ جاہل کے لئے بیان کرنا جائز نہیں تو یہ خود بخود معلوم ہو گیا کہ جاہل کے بیان کو سننا جائز نہیں ہے-  حضرت تھانوی صاحب رحمہ اللّٰہ ولتکن من کم أمة کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ " آج کل جاہل یا کالجاہل وعظ کہتے ہیں اور بلا تحقیق روایات نقل کرتے ہیں وہ سخت گناہگار ہوتے ہیں اور سامعین کو بھی ان کا وعظ سننا جائز نہیں " - یہی ایک نکتہ ہے اگر اسے عام کیا گیا کہ جاہل کا بیان سننا جائز نہیں تو احبابِ کی دوکان ٹھپ ہو جائے گی-


           ♦ سوال ♦

 آپ کی بات درست ہے لیکن احباب کو تو صرف چند باتیں رٹا دی جاتی ہیں اور انہیں ان ہی باتوں کا پابند بنایا جاتا ہے ان سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی - 


         ♦ جواب ♦


        یہ ایک ایسا دعویٰ ہے واقع الامر جس کی تکذیب کر رہا ہے - چھ نمبر کیا دو نمبروں میں پابند کروگے تو بھی یہی کارنامے انجام پاتے رہیں گے - آخر احباب نے جو کچھ کیا ہے چھ نمبروں ہی کے اندر تو کیا ہے - ایمانیات سے متعلق موضوع احادیث من گھڑت مسائل اور خود ساختہ فلسفے پہلے نمبر میں ایجاد ہوئے نماز سے متعلق من گھڑت احادیث دوسرے نمبر میں ایجاد ہوئیں - وھلم جرا - 

       یہ علامات قیامت میں سے ہے - جب کام نا اہلوں کے سپرد ہو تو قیامت کا انتظار کر 

           🛑 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إذا وُسّد الأمرُ إلى غيْرِ أهلهٖ فانْتَظِرْالسّاعةَ------البخارى في العلم -

     یعنی جب معاملہ نااہلوں کے سپرد ہو جائے تو قیامت کا انتظار کر ۔۔۔         

        جب دین نا اہلوں کے سپرد ہو جائے تو یہ رونے کا مقام ہے - 

  🛑رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : " لَا تَبْكُوا عَلَى الدِّينِ إِذَا وَلِيَهُ أَهْلُهُ، وَلَكِنِ ابْكُوا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ ".----- مسند احد من حديث أبى أيوب الأنصارى رضى الله عنه - 

      جب تک دین کو چلانے والوں میں اہلیت ہو تو ( دین پر ) رونے کی ضرورت نہیں ہاں اگر نااہل لوگ دین کو چلانے والے بن جائیں تو دین پر رونے کا مقام ہے 

      آج کی اس بحث سے درجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں -

   🖍️ علم دعوت کے لئے شرط ہے اس کے بغیر شرعی دعوت کا وجود نہیں - امام رازی رحمہ اللّٰہ کے نزدیک بغیر علم کے دعوت محض دھوکہ ہے - 

🖍️ جاہل کا بیان کرنا اور اس کا سننا نا جائز ہے -

🖍️ نا اہلوں کو جب ذمہ داریاں سپرد کر دی جائیں تو قیامت کا انتظار کرنا چاہئے -

🖍️ جب دین نا اہلوں کے سپرد ہوجائے تو اس وقت دین پر رونا چاہئے - 


        نوٹ: جاہل کو کسی غیر علمی کام کی ذمہ داری سپرد کرنا ایک الگ مسئلہ ہے جو یہاں نہیں چھیڑا گیا - یہاں دین کو بیان کرنے کی بحث کی گئی ہے جاہلوں کو منبروں پر بٹھانے کی بات کی گئی ہے - لہذا حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر مثالیں پیش نہ کی جائیں

نہ تو حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جاہل تھے اور نہ ہی انہیں ، حضرات اکابر کو دین سکھانے پر مامور کیا گیا تھا بلکہ وہ ایک جنگی مہم تھی جس کے لئے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بعض وجوہات کی بنا پر موزوں سمجھا گیا  ۔۔۔۔ 

الحمدللہ رب العالمین ۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔