Saturday, 27 June 2020

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ قسط 34 کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کو سو دفعہ دعوت دی تھی ؟



تبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 34

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کو سو دفعہ دعوت دی تھی ؟


        احباب خوب زور و شور سے یہ بیان کرتے رہتے ہیں .. بلکہ اب تو سو سے تین ہزار تک پہنچ گئے ہیں .. الله خير کرے .. پتا نہیں آگے کہاں تک جانے کا ارادہ ہے .. اور اسی سلسلے میں ایک کہانی بھی گهڑ رکهی ہے .. کہ سخت سردی کی ایک رات میں جبکہ سخت اندھیرا تھا اور بارش بھی ہو رہی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل کو دعوت دینے تشریف لے گئے .. دروازہ کھٹکھٹایا .. ابوجہل نے قسم کھا کر کہا کہ جو شخص اس وقت میرے دروازے پر آیا ہے میں اس کی ہر ضرورت پوری کروں گا .. .. لیکن ایمان پھر بھی نہ لایا ... الخ ... یہ سب کچھ میڈ ان رائیونڈ ہے .. حدیث اور سیرت کی مستند کتابوں میں اس کا کہیں اتا پتا نہیں ... قاتل اللہ واضعه ..


یہ بات قرآن ، انصاف اور عقل کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ نقصان دہ بھی ہے ..


قرآن کے خلاف


إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ

سورة البقرة الاية رقم 6

ترجمہ

بے شک جو لوگ کفر پر بہ ضد ہیں  ان کے حق میں آپ کا ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔


إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ وَ لَوْ جَآءَتْہُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ  الْاَلِیْمَ 

سورة يونس الاية رقم 97/96

ترجمہ 

بے شک جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا ( ایمان نہ لانے کا ) فیصلہ ہوچکا ہے ؛ اگرچہ ان کے سامنے ساری نشانیاں آجائیں ، وہ ایمان نہیں لائیں گے ، جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں ۔۔۔ 

یہ اور ان جیسی دیگر آیات مفسرین کی ایک جماعت کے مطابق کچھ متعین کفار جیسے ابوجہل ابولہب ولید وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں .. ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ بھی ہو یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ..


عقل کے خلاف

کوئی نرم سے نرم انسان بھی اپنے دین کے خلاف تیسری دفعہ بات نہیں سن سکتا .. پھر ابوجہل جیسا متکبر فرعون سویں دفعہ یا تین ہزارویں دفعہ سنے گا ؟؟؟؟؟؟ .. کچھ ٹھکانہ ہے اس جھوٹ اور بیوقوفی کا .. ؟؟؟ .. جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کام نہیں تھا سوائے ابوجہل کو دعوت دینے کے .. اور ابوجہل کا کوئی کام نہیں تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سننے کے ...


انصاف کے خلاف

یہ تو تھا نہیں کہ ابوجہل نے خود کو اس کام کے لئے فارغ کیا تھا کہ محمد ( صلى الله عليه وسلم ) آئے گا مجھے دعوت دے گا میں سنوں گا اس لئے مجھے تیار بیٹهنا چاہئے ... بلکہ ظاہر ہے کہ ... ابوجہل کبھی گهر پر ہوگا کبھی نہیں .. کبھی سو رہا ہوگا کبھی قضاء حاجت میں مشغول .. کبھی نہانے میں تو کبھی کسی اور کام میں مشغول ... کتنی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتظار کرنا پڑا ہوگا ... اب آپ غور کریں کہ ان سو دفعہ یا تین ہزار دفعہ میں کتنا وقت خرچ ہوا ہوگا .. اس وقت کو کہیں اور لگا لیتے تو کیا دس بارہ آدمی مسلمان نہ ہو جاتے ؟؟؟


نقصان دہ

ایک تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء ہے جو کہ کبیرہ گناہ ہے .. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ..

مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ .. متفق عليه

ترجمہ 

جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے  ۔۔۔ 

دوسرے ابوجہل کو بہت وسیع الصدر اور حلیم و بردبار انسان کے طور پر پیش کرنا ہے جس نے اپنے دین ( شرک ) کے خلاف سو یا تین ہزار دفعہ دعوت کو سننے کا ریکارڈ قائم کیا

تیسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک فاقد الحواس اور معاملے کو نہ سمجهنے والے انسان کے طور پر پیش کرنا ہے .. اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات شریف کے ساتھ ساتھ دین کی توہین کا پہلو بھی واضح ہے ..

چوتھے اس سے کفار کے لئے حد سے زیادہ ہمدردی پیدا ہوتی ہے کہ جب ابوجہل جیسے شخص کو سو یا تین ہزار دفعہ دعوت دی گئی تو آج کے کافر تو اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہر ایک کو الگ الگ سینکڑوں دفعہ دعوت دی جائے .. جس کا نتیجہ مجاہدین کے ساتھ بغض کی صورت میں نکلتا ہے .. اور شاید اس بات کو ان عوام میں چلتا کرنے کا مقصد یہی ہو ..


سوال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

جواب : اکیلے ابوجہل کو ایک دفعہ بھی نہیں .. ہاں جب قریش کو دعوت دی تو اس مجمع میں یہ ملعون بھی تھا .. ابوطالب کو بستر مرگ بر جب دعوت دی تو اس وقت سرہانے یہ فرعون بھی بیٹھا تھا .. دعوت بہرحال ابوطالب کو دی جا رہی تھی .. سن یہ ملعون بھی رہا تھا .. بہرحال الگ اس فرعون کو دعوت دینا ثابت نہیں ..

البتہ ابوجہل کو ڈانٹ پلانا ثابت ہے

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَجَاءَ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَبَرَهُ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا بِهَا نَادٍ أَكْثَرُ مِنِّي فَأَنْزَلَ اللَّهُ ( فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ) فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللَّهِ لَوْ دَعَا نَادِيَهُ لَأَخَذَتْهُ زَبَانِيَةُ اللَّهِ .. الترمذي في تفسير قول الله عز وجل ... فليدع ناديه


       یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ و السلام نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں  ابو جہل آیا اور کہا کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ ۔۔۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو  ابو جہل کو سخت ڈانٹ پلا دی جس پر ابو جہل نے کہا کہ تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ مکہ میں جتنی بڑی مجلس میری ہے کسی کی نہیں جس پر اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری ( فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ) یعنی وہ اپنی مجلس والوں کو بلائے  ہم بھی زبانیہ ( سخت پکڑ والے ملائکہ ) کو بلائیں گے  ۔۔۔۔ 


       یہ تو تھا انفرادی طور پر اس فرعون کو ڈانٹا .. رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اجتماعی طور پر بھی قریش کے پورے پارلیمنٹ کو ڈانٹا ہے نہ صرف ڈانٹا ہے بلکہ قتل بلکہ ذبح کی دھمکی بهی دی ہے .. غالب گمان یہ ہے کہ اس گمراہ پارلیمنٹ میں اس واقعے کے دوران ابوجہل بھی تھا .. کیونکہ کفر کی اس مجلس کی سربراہی عام طور پر یہی کیا کرتا تھا .. لیجۓ حدیث


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ قُلْتُ لَهُ مَا أَكْثَرَ مَا رَأَيْتَ قُرَيْشًا أَصَابَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ فِيمَا كَانَتْ تُظْهِرُ مِنْ عَدَاوَتِهِ قَالَ حَضَرْتُهُمْ وَقَدْ اجْتَمَعَ أَشْرَافُهُمْ يَوْمًا فِي الْحِجْرِ فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا مَا رَأَيْنَا مِثْلَ مَا صَبَرْنَا عَلَيْهِ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ قَطُّ سَفَّهَ أَحْلَامَنَا وَشَتَمَ آبَاءَنَا وَعَابَ دِينَنَا وَفَرَّقَ جَمَاعَتَنَا وَسَبَّ آلِهَتَنَا لَقَدْ صَبَرْنَا مِنْهُ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ أَوْ كَمَا قَالُوا قَالَ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ يَمْشِي حَتَّى اسْتَلَمَ الرُّكْنَ ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ طَائِفًا بِالْبَيْتِ فَلَمَّا أَنْ مَرَّ بِهِمْ غَمَزُوهُ بِبَعْضِ مَا يَقُولُ قَالَ فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ مَضَى فَلَمَّا مَرَّ بِهِمْ الثَّانِيَةَ غَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ مَضَى ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ الثَّالِثَةَ فَغَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا فَقَالَ تَسْمَعُونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِالذَّبْحِ فَأَخَذَتْ الْقَوْمَ كَلِمَتُهُ حَتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا كَأَنَّمَا عَلَى رَأْسِهِ طَائِرٌ وَاقِعٌ حَتَّى إِنَّ أَشَدَّهُمْ فِيهِ وَصَاةً قَبْلَ ذَلِكَ لَيَرْفَؤُهُ بِأَحْسَنِ مَا يَجِدُ مِنْ الْقَوْلِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَقُولُ انْصَرِفْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ انْصَرِفْ رَاشِدًا فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ جَهُولًا قَالَ فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ اجْتَمَعُوا فِي الْحِجْرِ وَأَنَا مَعَهُمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ذَكَرْتُمْ مَا بَلَغَ مِنْكُمْ وَمَا بَلَغَكُمْ عَنْهُ حَتَّى إِذَا بَادَأَكُمْ بِمَا تَكْرَهُونَ تَرَكْتُمُوهُ فَبَيْنَمَا هُمْ فِي ذَلِكَ إِذْ طَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَثَبُوا إِلَيْهِ وَثْبَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ فَأَحَاطُوا بِهِ يَقُولُونَ لَهُ أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ كَذَا وَكَذَا لِمَا كَانَ يَبْلُغُهُمْ عَنْهُ مِنْ عَيْبِ آلِهَتِهِمْ وَدِينِهِمْ قَالَ فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ أَنَا الَّذِي أَقُولُ ذَلِكَ قَالَ فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ أَخَذَ بِمَجْمَعِ رِدَائِهِ قَالَ وَقَامَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ دُونَهُ يَقُولُ وَهُوَ يَبْكِي ( أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ ) ثُمَّ انْصَرَفُوا عَنْهُ فَإِنَّ ذَلِكَ لَأَشَدُّ مَا رَأَيْتُ قُرَيْشًا بَلَغَتْ مِنْهُ قَطُّ .. أخرجه أحمد من حديث عبد الله بن عمرو وأخرجه البخاري باختصار في تفسير قول الله تعالى أتقتلون رجلا أن يقول ربي الله ، وفي فضائل الصحابة باب لو كنت متخذا خليلا ..

ترجمہ : 

" عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عمرو ؓ سے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ سخت واقعے کے متعلق بتائیں جو مشرکین نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ روا رکھا ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن اشراف قریش حطیم میں جمع تھے میں بھی وہاں موجود تھا وہ لوگ نبی کریم ﷺ کا تذکرہ کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے اس آدمی کو جیسا برداشت کیا ہے کسی کو نہیں کیا ہے  اس نے ہمارے عقلمندوں کو بیوقوف کہا، ہمارے آباؤ اجداد کو برا بھلا کہا ہمارے دین میں عیوب نکالے ہماری جماعت کو منتشر کیا اور ہمارے معبودوں کو برابھلا کہا ہم نے اس کے معاملے میں بہت صبر کرلیا اسی اثناء میں نبی کریم ﷺ بھی تشریف لے آئے نبی کریم ﷺ چلتے ہوئے آگے بڑھے اور حجر اسود کا استلام کیا اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے اس دوران وہ نبی کریم ﷺ کی بعض باتوں میں عیب نکالتے ہوئے ایک دوسرے کو اشارے کرنے لگے مجھے نبی کریم ﷺ کے چہرے مبارک پر اس کے اثرات محسوس ہوئے جب دوسری دفعہ ان کے پاس سے گزرے انہوں نے پھر وہی باتیں کیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے گروہ قریش تم سنتے ہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے میں تمہیں ذبح کرنے آیا ہوں لوگوں کو نبی کریم ﷺ کے اس جملے نے جکڑ کر رکھ لیا ۔۔۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہر ایک کے سر پر پرندہ بیٹھا ہو  یہاں تک کہ ان میں سخت موقف رکھنے والے یہ کہتے پائے گئے کہ ابوالقاسم  آپ خیر و عافیت کے ساتھ تشریف لے جائیں واللہ آپ جاہل نہیں ہیں چناچہ نبی کریم ﷺ واپس چلے گئے۔  اگلے دن وہ لوگ پھر حطیم میں جمع ہوئے میں بھی ان کے ساتھ تھا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم تو ان حالات کا تذکرہ کر رہے تھے جو تمہیں اس کی وجہ سے اور اسے تمہاری وجہ سے درپیش تھے یہاں تک کہ اس نے جب تمہیں وہ سنائیں جو تمہیں ناپسند ہیں تو تم نے اسے چھوڑ دیا ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نمودار ہوئے وہ سب اکٹھے ہو کر ان کی طرف اٹھے اور انہیں گھیرے میں لے کر کہنے لگے کیا تم ہی ہو جو یوں کہتا ہے اور یوں کہتا ہے یعنی وہ اپنے دین اور اپنے خداؤں کی برائی کے بارے میں کہہ رہے تھے  آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں بالکل ! میں ایسا کہتا ہوں ۔۔۔  راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے نبی کریم ﷺ کی چادر کو گریبان کی جگہ سے پکڑ لیا  ۔۔۔ یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر ؓ نبی کریم ﷺ کو بچانے کے لئے کھڑے ہوئے وہ روتے ہوئے کہتے جا رہے تھے کیا تم ایک آدمی کو صرف اس وجہ سے قتل کردو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اس پر وہ لوگ واپس چلے گئے یہ سب سے سخت اذیت تھی جو کفار قریش کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو پہنچی تھی۔ " 


       واضح رہے کہ ذبح کرنے کی یہ دھمکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں دی جسے چند سالوں بعد سچ کر دکھایا ..


ابو جہل کو دعوت دینے کا ثبوت تو نہیں ہاں ! ابوجہل کو بددعا دینا ثابت ہے

عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ إِذْ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْض أَيُّكُمْ يَجِيءُ بِسَلَى جَزُورِ بَنِي فُلَانٍ فَيَضَعُهُ عَلَى ظَهْرِ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ فَجَاءَ بِهِ فَنَظَرَ حَتَّى سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ عَلَى ظَهْرِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَأَنَا أَنْظُرُ لَا أُغْنِي شَيْئًا لَوْ كَانَ لِي مَنَعَةٌ قَالَ فَجَعَلُوا يَضْحَكُونَ وَيُحِيلُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى جَاءَتْهُ فَاطِمَةُ فَطَرَحَتْ عَنْ ظَهْرِهِ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَشَقَّ عَلَيْهِمْ إِذْ دَعَا عَلَيْهِمْ قَالَ وَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الدَّعْوَةَ فِي ذَلِكَ الْبَلَدِ مُسْتَجَابَةٌ ثُمَّ سَمَّى اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ وَعَلَيْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَعَدَّ السَّابِعَ فَلَمْ يَحْفَظْ قَالَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ عَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَرْعَى فِي الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ

.. البخاري في الوضوء. . باب إذا ألقي على ظهر المصلى قذر أو جيفة لم تفسد عليه صلاته


       " حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ  ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی ( بھی وہیں ) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو بنو فلاں قبیلے کی ( جو ) اونٹنی ذبح ہوئی ہے ( اس کی ) اوجھڑی اٹھا لائے اور ( لا کر ) جب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے  سب سے زیادہ بدبخت ( آدمی ) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا پھر انتظار کیا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا ( عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں ) میں یہ ( سب کچھ ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! ( اس وقت ) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور ایک دوسرے پر ( یہ جرم ) ڈالنے لگے ۔۔۔   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے ( بوجھ کی وجہ سے ) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ ( بات ) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر ( مکہ ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے ( ان میں سے ) ہر ایک کا ( جدا جدا ) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں ( آدمی ) کا نام ( بھی ) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے ( بددعا کرتے وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لئے تھے، میں نے ان کی ( لاشوں ) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا " 


        نیز بحث مذکور کے دوران یہ سوالات بھی تو ہونے چاہئیں

عتبہ کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

ولید کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

ابی بن خلف کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

کعب بن اشرف کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

اگر ابوجہل قوم کا بڑا تھا تو یہ لوگ بھی ایسے ہی تھے .. بلکہ بعض لوگ تو ابوجہل سے بھی زیادہ بڑے تھے .. چلیں کم از کم ڈیڑھ ہزار دفعہ تو ان کا بھی حق بنتا تھا ..

الله تعالی ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائےتبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 34

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کو سو دفعہ دعوت دی تھی ؟


        احباب خوب زور و شور سے یہ بیان کرتے رہتے ہیں .. بلکہ اب تو سو سے تین ہزار تک پہنچ گئے ہیں .. الله خير کرے .. پتا نہیں آگے کہاں تک جانے کا ارادہ ہے .. اور اسی سلسلے میں ایک کہانی بھی گهڑ رکهی ہے .. کہ سخت سردی کی ایک رات میں جبکہ سخت اندھیرا تھا اور بارش بھی ہو رہی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل کو دعوت دینے تشریف لے گئے .. دروازہ کھٹکھٹایا .. ابوجہل نے قسم کھا کر کہا کہ جو شخص اس وقت میرے دروازے پر آیا ہے میں اس کی ہر ضرورت پوری کروں گا .. .. لیکن ایمان پھر بھی نہ لایا ... الخ ... یہ سب کچھ میڈ ان رائیونڈ ہے .. حدیث اور سیرت کی مستند کتابوں میں اس کا کہیں اتا پتا نہیں ... قاتل اللہ واضعه ..


یہ بات قرآن ، انصاف اور عقل کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ نقصان دہ بھی ہے ..


قرآن کے خلاف


إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ

سورة البقرة الاية رقم 6

ترجمہ

بے شک جو لوگ کفر پر بہ ضد ہیں  ان کے حق میں آپ کا ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔


إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ وَ لَوْ جَآءَتْہُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ  الْاَلِیْمَ 

سورة يونس الاية رقم 97/96

ترجمہ 

بے شک جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا ( ایمان نہ لانے کا ) فیصلہ ہوچکا ہے ؛ اگرچہ ان کے سامنے ساری نشانیاں آجائیں ، وہ ایمان نہیں لائیں گے ، جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں ۔۔۔ 

یہ اور ان جیسی دیگر آیات مفسرین کی ایک جماعت کے مطابق کچھ متعین کفار جیسے ابوجہل ابولہب ولید وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں .. ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ بھی ہو یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ..


عقل کے خلاف

کوئی نرم سے نرم انسان بھی اپنے دین کے خلاف تیسری دفعہ بات نہیں سن سکتا .. پھر ابوجہل جیسا متکبر فرعون سویں دفعہ یا تین ہزارویں دفعہ سنے گا ؟؟؟؟؟؟ .. کچھ ٹھکانہ ہے اس جھوٹ اور بیوقوفی کا .. ؟؟؟ .. جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کام نہیں تھا سوائے ابوجہل کو دعوت دینے کے .. اور ابوجہل کا کوئی کام نہیں تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سننے کے ...


انصاف کے خلاف

یہ تو تھا نہیں کہ ابوجہل نے خود کو اس کام کے لئے فارغ کیا تھا کہ محمد ( صلى الله عليه وسلم ) آئے گا مجھے دعوت دے گا میں سنوں گا اس لئے مجھے تیار بیٹهنا چاہئے ... بلکہ ظاہر ہے کہ ... ابوجہل کبھی گهر پر ہوگا کبھی نہیں .. کبھی سو رہا ہوگا کبھی قضاء حاجت میں مشغول .. کبھی نہانے میں تو کبھی کسی اور کام میں مشغول ... کتنی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتظار کرنا پڑا ہوگا ... اب آپ غور کریں کہ ان سو دفعہ یا تین ہزار دفعہ میں کتنا وقت خرچ ہوا ہوگا .. اس وقت کو کہیں اور لگا لیتے تو کیا دس بارہ آدمی مسلمان نہ ہو جاتے ؟؟؟


نقصان دہ

ایک تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء ہے جو کہ کبیرہ گناہ ہے .. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ..

مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ .. متفق عليه

ترجمہ 

جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے  ۔۔۔ 

دوسرے ابوجہل کو بہت وسیع الصدر اور حلیم و بردبار انسان کے طور پر پیش کرنا ہے جس نے اپنے دین ( شرک ) کے خلاف سو یا تین ہزار دفعہ دعوت کو سننے کا ریکارڈ قائم کیا

تیسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک فاقد الحواس اور معاملے کو نہ سمجهنے والے انسان کے طور پر پیش کرنا ہے .. اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات شریف کے ساتھ ساتھ دین کی توہین کا پہلو بھی واضح ہے ..

چوتھے اس سے کفار کے لئے حد سے زیادہ ہمدردی پیدا ہوتی ہے کہ جب ابوجہل جیسے شخص کو سو یا تین ہزار دفعہ دعوت دی گئی تو آج کے کافر تو اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہر ایک کو الگ الگ سینکڑوں دفعہ دعوت دی جائے .. جس کا نتیجہ مجاہدین کے ساتھ بغض کی صورت میں نکلتا ہے .. اور شاید اس بات کو ان عوام میں چلتا کرنے کا مقصد یہی ہو ..


سوال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

جواب : اکیلے ابوجہل کو ایک دفعہ بھی نہیں .. ہاں جب قریش کو دعوت دی تو اس مجمع میں یہ ملعون بھی تھا .. ابوطالب کو بستر مرگ بر جب دعوت دی تو اس وقت سرہانے یہ فرعون بھی بیٹھا تھا .. دعوت بہرحال ابوطالب کو دی جا رہی تھی .. سن یہ ملعون بھی رہا تھا .. بہرحال الگ اس فرعون کو دعوت دینا ثابت نہیں ..

البتہ ابوجہل کو ڈانٹ پلانا ثابت ہے

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَجَاءَ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَبَرَهُ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا بِهَا نَادٍ أَكْثَرُ مِنِّي فَأَنْزَلَ اللَّهُ ( فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ) فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللَّهِ لَوْ دَعَا نَادِيَهُ لَأَخَذَتْهُ زَبَانِيَةُ اللَّهِ .. الترمذي في تفسير قول الله عز وجل ... فليدع ناديه


       یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ و السلام نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں  ابو جہل آیا اور کہا کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ ۔۔۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو  ابو جہل کو سخت ڈانٹ پلا دی جس پر ابو جہل نے کہا کہ تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ مکہ میں جتنی بڑی مجلس میری ہے کسی کی نہیں جس پر اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری ( فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ) یعنی وہ اپنی مجلس والوں کو بلائے  ہم بھی زبانیہ ( سخت پکڑ والے ملائکہ ) کو بلائیں گے  ۔۔۔۔ 


       یہ تو تھا انفرادی طور پر اس فرعون کو ڈانٹا .. رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اجتماعی طور پر بھی قریش کے پورے پارلیمنٹ کو ڈانٹا ہے نہ صرف ڈانٹا ہے بلکہ قتل بلکہ ذبح کی دھمکی بهی دی ہے .. غالب گمان یہ ہے کہ اس گمراہ پارلیمنٹ میں اس واقعے کے دوران ابوجہل بھی تھا .. کیونکہ کفر کی اس مجلس کی سربراہی عام طور پر یہی کیا کرتا تھا .. لیجۓ حدیث


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ قُلْتُ لَهُ مَا أَكْثَرَ مَا رَأَيْتَ قُرَيْشًا أَصَابَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ فِيمَا كَانَتْ تُظْهِرُ مِنْ عَدَاوَتِهِ قَالَ حَضَرْتُهُمْ وَقَدْ اجْتَمَعَ أَشْرَافُهُمْ يَوْمًا فِي الْحِجْرِ فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا مَا رَأَيْنَا مِثْلَ مَا صَبَرْنَا عَلَيْهِ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ قَطُّ سَفَّهَ أَحْلَامَنَا وَشَتَمَ آبَاءَنَا وَعَابَ دِينَنَا وَفَرَّقَ جَمَاعَتَنَا وَسَبَّ آلِهَتَنَا لَقَدْ صَبَرْنَا مِنْهُ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ أَوْ كَمَا قَالُوا قَالَ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ يَمْشِي حَتَّى اسْتَلَمَ الرُّكْنَ ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ طَائِفًا بِالْبَيْتِ فَلَمَّا أَنْ مَرَّ بِهِمْ غَمَزُوهُ بِبَعْضِ مَا يَقُولُ قَالَ فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ مَضَى فَلَمَّا مَرَّ بِهِمْ الثَّانِيَةَ غَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ مَضَى ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ الثَّالِثَةَ فَغَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا فَقَالَ تَسْمَعُونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِالذَّبْحِ فَأَخَذَتْ الْقَوْمَ كَلِمَتُهُ حَتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا كَأَنَّمَا عَلَى رَأْسِهِ طَائِرٌ وَاقِعٌ حَتَّى إِنَّ أَشَدَّهُمْ فِيهِ وَصَاةً قَبْلَ ذَلِكَ لَيَرْفَؤُهُ بِأَحْسَنِ مَا يَجِدُ مِنْ الْقَوْلِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَقُولُ انْصَرِفْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ انْصَرِفْ رَاشِدًا فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ جَهُولًا قَالَ فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ اجْتَمَعُوا فِي الْحِجْرِ وَأَنَا مَعَهُمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ذَكَرْتُمْ مَا بَلَغَ مِنْكُمْ وَمَا بَلَغَكُمْ عَنْهُ حَتَّى إِذَا بَادَأَكُمْ بِمَا تَكْرَهُونَ تَرَكْتُمُوهُ فَبَيْنَمَا هُمْ فِي ذَلِكَ إِذْ طَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَثَبُوا إِلَيْهِ وَثْبَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ فَأَحَاطُوا بِهِ يَقُولُونَ لَهُ أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ كَذَا وَكَذَا لِمَا كَانَ يَبْلُغُهُمْ عَنْهُ مِنْ عَيْبِ آلِهَتِهِمْ وَدِينِهِمْ قَالَ فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ أَنَا الَّذِي أَقُولُ ذَلِكَ قَالَ فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ أَخَذَ بِمَجْمَعِ رِدَائِهِ قَالَ وَقَامَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ دُونَهُ يَقُولُ وَهُوَ يَبْكِي ( أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ ) ثُمَّ انْصَرَفُوا عَنْهُ فَإِنَّ ذَلِكَ لَأَشَدُّ مَا رَأَيْتُ قُرَيْشًا بَلَغَتْ مِنْهُ قَطُّ .. أخرجه أحمد من حديث عبد الله بن عمرو وأخرجه البخاري باختصار في تفسير قول الله تعالى أتقتلون رجلا أن يقول ربي الله ، وفي فضائل الصحابة باب لو كنت متخذا خليلا ..

ترجمہ : 

" عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عمرو ؓ سے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ سخت واقعے کے متعلق بتائیں جو مشرکین نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ روا رکھا ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن اشراف قریش حطیم میں جمع تھے میں بھی وہاں موجود تھا وہ لوگ نبی کریم ﷺ کا تذکرہ کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے اس آدمی کو جیسا برداشت کیا ہے کسی کو نہیں کیا ہے  اس نے ہمارے عقلمندوں کو بیوقوف کہا، ہمارے آباؤ اجداد کو برا بھلا کہا ہمارے دین میں عیوب نکالے ہماری جماعت کو منتشر کیا اور ہمارے معبودوں کو برابھلا کہا ہم نے اس کے معاملے میں بہت صبر کرلیا اسی اثناء میں نبی کریم ﷺ بھی تشریف لے آئے نبی کریم ﷺ چلتے ہوئے آگے بڑھے اور حجر اسود کا استلام کیا اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے اس دوران وہ نبی کریم ﷺ کی بعض باتوں میں عیب نکالتے ہوئے ایک دوسرے کو اشارے کرنے لگے مجھے نبی کریم ﷺ کے چہرے مبارک پر اس کے اثرات محسوس ہوئے جب دوسری دفعہ ان کے پاس سے گزرے انہوں نے پھر وہی باتیں کیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے گروہ قریش تم سنتے ہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے میں تمہیں ذبح کرنے آیا ہوں لوگوں کو نبی کریم ﷺ کے اس جملے نے جکڑ کر رکھ لیا ۔۔۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہر ایک کے سر پر پرندہ بیٹھا ہو  یہاں تک کہ ان میں سخت موقف رکھنے والے یہ کہتے پائے گئے کہ ابوالقاسم  آپ خیر و عافیت کے ساتھ تشریف لے جائیں واللہ آپ جاہل نہیں ہیں چناچہ نبی کریم ﷺ واپس چلے گئے۔  اگلے دن وہ لوگ پھر حطیم میں جمع ہوئے میں بھی ان کے ساتھ تھا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم تو ان حالات کا تذکرہ کر رہے تھے جو تمہیں اس کی وجہ سے اور اسے تمہاری وجہ سے درپیش تھے یہاں تک کہ اس نے جب تمہیں وہ سنائیں جو تمہیں ناپسند ہیں تو تم نے اسے چھوڑ دیا ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نمودار ہوئے وہ سب اکٹھے ہو کر ان کی طرف اٹھے اور انہیں گھیرے میں لے کر کہنے لگے کیا تم ہی ہو جو یوں کہتا ہے اور یوں کہتا ہے یعنی وہ اپنے دین اور اپنے خداؤں کی برائی کے بارے میں کہہ رہے تھے  آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں بالکل ! میں ایسا کہتا ہوں ۔۔۔  راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے نبی کریم ﷺ کی چادر کو گریبان کی جگہ سے پکڑ لیا  ۔۔۔ یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر ؓ نبی کریم ﷺ کو بچانے کے لئے کھڑے ہوئے وہ روتے ہوئے کہتے جا رہے تھے کیا تم ایک آدمی کو صرف اس وجہ سے قتل کردو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اس پر وہ لوگ واپس چلے گئے یہ سب سے سخت اذیت تھی جو کفار قریش کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو پہنچی تھی۔ " 


       واضح رہے کہ ذبح کرنے کی یہ دھمکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں دی جسے چند سالوں بعد سچ کر دکھایا ..


ابو جہل کو دعوت دینے کا ثبوت تو نہیں ہاں ! ابوجہل کو بددعا دینا ثابت ہے

عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ إِذْ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْض أَيُّكُمْ يَجِيءُ بِسَلَى جَزُورِ بَنِي فُلَانٍ فَيَضَعُهُ عَلَى ظَهْرِ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ فَجَاءَ بِهِ فَنَظَرَ حَتَّى سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ عَلَى ظَهْرِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَأَنَا أَنْظُرُ لَا أُغْنِي شَيْئًا لَوْ كَانَ لِي مَنَعَةٌ قَالَ فَجَعَلُوا يَضْحَكُونَ وَيُحِيلُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى جَاءَتْهُ فَاطِمَةُ فَطَرَحَتْ عَنْ ظَهْرِهِ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَشَقَّ عَلَيْهِمْ إِذْ دَعَا عَلَيْهِمْ قَالَ وَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الدَّعْوَةَ فِي ذَلِكَ الْبَلَدِ مُسْتَجَابَةٌ ثُمَّ سَمَّى اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ وَعَلَيْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَعَدَّ السَّابِعَ فَلَمْ يَحْفَظْ قَالَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ عَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَرْعَى فِي الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ

.. البخاري في الوضوء. . باب إذا ألقي على ظهر المصلى قذر أو جيفة لم تفسد عليه صلاته


       " حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ  ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی ( بھی وہیں ) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو بنو فلاں قبیلے کی ( جو ) اونٹنی ذبح ہوئی ہے ( اس کی ) اوجھڑی اٹھا لائے اور ( لا کر ) جب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے  سب سے زیادہ بدبخت ( آدمی ) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا پھر انتظار کیا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا ( عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں ) میں یہ ( سب کچھ ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! ( اس وقت ) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور ایک دوسرے پر ( یہ جرم ) ڈالنے لگے ۔۔۔   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے ( بوجھ کی وجہ سے ) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ ( بات ) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر ( مکہ ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے ( ان میں سے ) ہر ایک کا ( جدا جدا ) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں ( آدمی ) کا نام ( بھی ) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے ( بددعا کرتے وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لئے تھے، میں نے ان کی ( لاشوں ) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا " 


        نیز بحث مذکور کے دوران یہ سوالات بھی تو ہونے چاہئیں

عتبہ کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

ولید کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

ابی بن خلف کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

کعب بن اشرف کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

اگر ابوجہل قوم کا بڑا تھا تو یہ لوگ بھی ایسے ہی تھے .. بلکہ بعض لوگ تو ابوجہل سے بھی زیادہ بڑے تھے .. چلیں کم از کم ڈیڑھ ہزار دفعہ تو ان کا بھی حق بنتا تھا ..

الله تعالی ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائےتبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 34

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کو سو دفعہ دعوت دی تھی ؟


        احباب خوب زور و شور سے یہ بیان کرتے رہتے ہیں .. بلکہ اب تو سو سے تین ہزار تک پہنچ گئے ہیں .. الله خير کرے .. پتا نہیں آگے کہاں تک جانے کا ارادہ ہے .. اور اسی سلسلے میں ایک کہانی بھی گهڑ رکهی ہے .. کہ سخت سردی کی ایک رات میں جبکہ سخت اندھیرا تھا اور بارش بھی ہو رہی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل کو دعوت دینے تشریف لے گئے .. دروازہ کھٹکھٹایا .. ابوجہل نے قسم کھا کر کہا کہ جو شخص اس وقت میرے دروازے پر آیا ہے میں اس کی ہر ضرورت پوری کروں گا .. .. لیکن ایمان پھر بھی نہ لایا ... الخ ... یہ سب کچھ میڈ ان رائیونڈ ہے .. حدیث اور سیرت کی مستند کتابوں میں اس کا کہیں اتا پتا نہیں ... قاتل اللہ واضعه ..


یہ بات قرآن ، انصاف اور عقل کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ نقصان دہ بھی ہے ..


قرآن کے خلاف


إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ

سورة البقرة الاية رقم 6

ترجمہ

بے شک جو لوگ کفر پر بہ ضد ہیں  ان کے حق میں آپ کا ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔


إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ وَ لَوْ جَآءَتْہُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ  الْاَلِیْمَ 

سورة يونس الاية رقم 97/96

ترجمہ 

بے شک جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا ( ایمان نہ لانے کا ) فیصلہ ہوچکا ہے ؛ اگرچہ ان کے سامنے ساری نشانیاں آجائیں ، وہ ایمان نہیں لائیں گے ، جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں ۔۔۔ 

یہ اور ان جیسی دیگر آیات مفسرین کی ایک جماعت کے مطابق کچھ متعین کفار جیسے ابوجہل ابولہب ولید وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں .. ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ بھی ہو یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ..


عقل کے خلاف

کوئی نرم سے نرم انسان بھی اپنے دین کے خلاف تیسری دفعہ بات نہیں سن سکتا .. پھر ابوجہل جیسا متکبر فرعون سویں دفعہ یا تین ہزارویں دفعہ سنے گا ؟؟؟؟؟؟ .. کچھ ٹھکانہ ہے اس جھوٹ اور بیوقوفی کا .. ؟؟؟ .. جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کام نہیں تھا سوائے ابوجہل کو دعوت دینے کے .. اور ابوجہل کا کوئی کام نہیں تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سننے کے ...


انصاف کے خلاف

یہ تو تھا نہیں کہ ابوجہل نے خود کو اس کام کے لئے فارغ کیا تھا کہ محمد ( صلى الله عليه وسلم ) آئے گا مجھے دعوت دے گا میں سنوں گا اس لئے مجھے تیار بیٹهنا چاہئے ... بلکہ ظاہر ہے کہ ... ابوجہل کبھی گهر پر ہوگا کبھی نہیں .. کبھی سو رہا ہوگا کبھی قضاء حاجت میں مشغول .. کبھی نہانے میں تو کبھی کسی اور کام میں مشغول ... کتنی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتظار کرنا پڑا ہوگا ... اب آپ غور کریں کہ ان سو دفعہ یا تین ہزار دفعہ میں کتنا وقت خرچ ہوا ہوگا .. اس وقت کو کہیں اور لگا لیتے تو کیا دس بارہ آدمی مسلمان نہ ہو جاتے ؟؟؟


نقصان دہ

ایک تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء ہے جو کہ کبیرہ گناہ ہے .. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ..

مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ .. متفق عليه

ترجمہ 

جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے  ۔۔۔ 

دوسرے ابوجہل کو بہت وسیع الصدر اور حلیم و بردبار انسان کے طور پر پیش کرنا ہے جس نے اپنے دین ( شرک ) کے خلاف سو یا تین ہزار دفعہ دعوت کو سننے کا ریکارڈ قائم کیا

تیسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک فاقد الحواس اور معاملے کو نہ سمجهنے والے انسان کے طور پر پیش کرنا ہے .. اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات شریف کے ساتھ ساتھ دین کی توہین کا پہلو بھی واضح ہے ..

چوتھے اس سے کفار کے لئے حد سے زیادہ ہمدردی پیدا ہوتی ہے کہ جب ابوجہل جیسے شخص کو سو یا تین ہزار دفعہ دعوت دی گئی تو آج کے کافر تو اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہر ایک کو الگ الگ سینکڑوں دفعہ دعوت دی جائے .. جس کا نتیجہ مجاہدین کے ساتھ بغض کی صورت میں نکلتا ہے .. اور شاید اس بات کو ان عوام میں چلتا کرنے کا مقصد یہی ہو ..


سوال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

جواب : اکیلے ابوجہل کو ایک دفعہ بھی نہیں .. ہاں جب قریش کو دعوت دی تو اس مجمع میں یہ ملعون بھی تھا .. ابوطالب کو بستر مرگ بر جب دعوت دی تو اس وقت سرہانے یہ فرعون بھی بیٹھا تھا .. دعوت بہرحال ابوطالب کو دی جا رہی تھی .. سن یہ ملعون بھی رہا تھا .. بہرحال الگ اس فرعون کو دعوت دینا ثابت نہیں ..

البتہ ابوجہل کو ڈانٹ پلانا ثابت ہے

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَجَاءَ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَبَرَهُ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا بِهَا نَادٍ أَكْثَرُ مِنِّي فَأَنْزَلَ اللَّهُ ( فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ) فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللَّهِ لَوْ دَعَا نَادِيَهُ لَأَخَذَتْهُ زَبَانِيَةُ اللَّهِ .. الترمذي في تفسير قول الله عز وجل ... فليدع ناديه


       یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ و السلام نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں  ابو جہل آیا اور کہا کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ ۔۔۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو  ابو جہل کو سخت ڈانٹ پلا دی جس پر ابو جہل نے کہا کہ تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ مکہ میں جتنی بڑی مجلس میری ہے کسی کی نہیں جس پر اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری ( فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ) یعنی وہ اپنی مجلس والوں کو بلائے  ہم بھی زبانیہ ( سخت پکڑ والے ملائکہ ) کو بلائیں گے  ۔۔۔۔ 


       یہ تو تھا انفرادی طور پر اس فرعون کو ڈانٹا .. رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اجتماعی طور پر بھی قریش کے پورے پارلیمنٹ کو ڈانٹا ہے نہ صرف ڈانٹا ہے بلکہ قتل بلکہ ذبح کی دھمکی بهی دی ہے .. غالب گمان یہ ہے کہ اس گمراہ پارلیمنٹ میں اس واقعے کے دوران ابوجہل بھی تھا .. کیونکہ کفر کی اس مجلس کی سربراہی عام طور پر یہی کیا کرتا تھا .. لیجۓ حدیث


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ قُلْتُ لَهُ مَا أَكْثَرَ مَا رَأَيْتَ قُرَيْشًا أَصَابَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ فِيمَا كَانَتْ تُظْهِرُ مِنْ عَدَاوَتِهِ قَالَ حَضَرْتُهُمْ وَقَدْ اجْتَمَعَ أَشْرَافُهُمْ يَوْمًا فِي الْحِجْرِ فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا مَا رَأَيْنَا مِثْلَ مَا صَبَرْنَا عَلَيْهِ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ قَطُّ سَفَّهَ أَحْلَامَنَا وَشَتَمَ آبَاءَنَا وَعَابَ دِينَنَا وَفَرَّقَ جَمَاعَتَنَا وَسَبَّ آلِهَتَنَا لَقَدْ صَبَرْنَا مِنْهُ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ أَوْ كَمَا قَالُوا قَالَ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ يَمْشِي حَتَّى اسْتَلَمَ الرُّكْنَ ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ طَائِفًا بِالْبَيْتِ فَلَمَّا أَنْ مَرَّ بِهِمْ غَمَزُوهُ بِبَعْضِ مَا يَقُولُ قَالَ فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ مَضَى فَلَمَّا مَرَّ بِهِمْ الثَّانِيَةَ غَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ مَضَى ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ الثَّالِثَةَ فَغَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا فَقَالَ تَسْمَعُونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِالذَّبْحِ فَأَخَذَتْ الْقَوْمَ كَلِمَتُهُ حَتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا كَأَنَّمَا عَلَى رَأْسِهِ طَائِرٌ وَاقِعٌ حَتَّى إِنَّ أَشَدَّهُمْ فِيهِ وَصَاةً قَبْلَ ذَلِكَ لَيَرْفَؤُهُ بِأَحْسَنِ مَا يَجِدُ مِنْ الْقَوْلِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَقُولُ انْصَرِفْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ انْصَرِفْ رَاشِدًا فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ جَهُولًا قَالَ فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ اجْتَمَعُوا فِي الْحِجْرِ وَأَنَا مَعَهُمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ذَكَرْتُمْ مَا بَلَغَ مِنْكُمْ وَمَا بَلَغَكُمْ عَنْهُ حَتَّى إِذَا بَادَأَكُمْ بِمَا تَكْرَهُونَ تَرَكْتُمُوهُ فَبَيْنَمَا هُمْ فِي ذَلِكَ إِذْ طَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَثَبُوا إِلَيْهِ وَثْبَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ فَأَحَاطُوا بِهِ يَقُولُونَ لَهُ أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ كَذَا وَكَذَا لِمَا كَانَ يَبْلُغُهُمْ عَنْهُ مِنْ عَيْبِ آلِهَتِهِمْ وَدِينِهِمْ قَالَ فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ أَنَا الَّذِي أَقُولُ ذَلِكَ قَالَ فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ أَخَذَ بِمَجْمَعِ رِدَائِهِ قَالَ وَقَامَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ دُونَهُ يَقُولُ وَهُوَ يَبْكِي ( أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ ) ثُمَّ انْصَرَفُوا عَنْهُ فَإِنَّ ذَلِكَ لَأَشَدُّ مَا رَأَيْتُ قُرَيْشًا بَلَغَتْ مِنْهُ قَطُّ .. أخرجه أحمد من حديث عبد الله بن عمرو وأخرجه البخاري باختصار في تفسير قول الله تعالى أتقتلون رجلا أن يقول ربي الله ، وفي فضائل الصحابة باب لو كنت متخذا خليلا ..

ترجمہ : 

" عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عمرو ؓ سے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ سخت واقعے کے متعلق بتائیں جو مشرکین نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ روا رکھا ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن اشراف قریش حطیم میں جمع تھے میں بھی وہاں موجود تھا وہ لوگ نبی کریم ﷺ کا تذکرہ کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے اس آدمی کو جیسا برداشت کیا ہے کسی کو نہیں کیا ہے  اس نے ہمارے عقلمندوں کو بیوقوف کہا، ہمارے آباؤ اجداد کو برا بھلا کہا ہمارے دین میں عیوب نکالے ہماری جماعت کو منتشر کیا اور ہمارے معبودوں کو برابھلا کہا ہم نے اس کے معاملے میں بہت صبر کرلیا اسی اثناء میں نبی کریم ﷺ بھی تشریف لے آئے نبی کریم ﷺ چلتے ہوئے آگے بڑھے اور حجر اسود کا استلام کیا اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے اس دوران وہ نبی کریم ﷺ کی بعض باتوں میں عیب نکالتے ہوئے ایک دوسرے کو اشارے کرنے لگے مجھے نبی کریم ﷺ کے چہرے مبارک پر اس کے اثرات محسوس ہوئے جب دوسری دفعہ ان کے پاس سے گزرے انہوں نے پھر وہی باتیں کیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے گروہ قریش تم سنتے ہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے میں تمہیں ذبح کرنے آیا ہوں لوگوں کو نبی کریم ﷺ کے اس جملے نے جکڑ کر رکھ لیا ۔۔۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہر ایک کے سر پر پرندہ بیٹھا ہو  یہاں تک کہ ان میں سخت موقف رکھنے والے یہ کہتے پائے گئے کہ ابوالقاسم  آپ خیر و عافیت کے ساتھ تشریف لے جائیں واللہ آپ جاہل نہیں ہیں چناچہ نبی کریم ﷺ واپس چلے گئے۔  اگلے دن وہ لوگ پھر حطیم میں جمع ہوئے میں بھی ان کے ساتھ تھا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم تو ان حالات کا تذکرہ کر رہے تھے جو تمہیں اس کی وجہ سے اور اسے تمہاری وجہ سے درپیش تھے یہاں تک کہ اس نے جب تمہیں وہ سنائیں جو تمہیں ناپسند ہیں تو تم نے اسے چھوڑ دیا ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نمودار ہوئے وہ سب اکٹھے ہو کر ان کی طرف اٹھے اور انہیں گھیرے میں لے کر کہنے لگے کیا تم ہی ہو جو یوں کہتا ہے اور یوں کہتا ہے یعنی وہ اپنے دین اور اپنے خداؤں کی برائی کے بارے میں کہہ رہے تھے  آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں بالکل ! میں ایسا کہتا ہوں ۔۔۔  راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے نبی کریم ﷺ کی چادر کو گریبان کی جگہ سے پکڑ لیا  ۔۔۔ یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر ؓ نبی کریم ﷺ کو بچانے کے لئے کھڑے ہوئے وہ روتے ہوئے کہتے جا رہے تھے کیا تم ایک آدمی کو صرف اس وجہ سے قتل کردو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اس پر وہ لوگ واپس چلے گئے یہ سب سے سخت اذیت تھی جو کفار قریش کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو پہنچی تھی۔ " 


       واضح رہے کہ ذبح کرنے کی یہ دھمکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں دی جسے چند سالوں بعد سچ کر دکھایا ..


ابو جہل کو دعوت دینے کا ثبوت تو نہیں ہاں ! ابوجہل کو بددعا دینا ثابت ہے

عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ إِذْ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْض أَيُّكُمْ يَجِيءُ بِسَلَى جَزُورِ بَنِي فُلَانٍ فَيَضَعُهُ عَلَى ظَهْرِ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ فَجَاءَ بِهِ فَنَظَرَ حَتَّى سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ عَلَى ظَهْرِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَأَنَا أَنْظُرُ لَا أُغْنِي شَيْئًا لَوْ كَانَ لِي مَنَعَةٌ قَالَ فَجَعَلُوا يَضْحَكُونَ وَيُحِيلُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى جَاءَتْهُ فَاطِمَةُ فَطَرَحَتْ عَنْ ظَهْرِهِ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَشَقَّ عَلَيْهِمْ إِذْ دَعَا عَلَيْهِمْ قَالَ وَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الدَّعْوَةَ فِي ذَلِكَ الْبَلَدِ مُسْتَجَابَةٌ ثُمَّ سَمَّى اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ وَعَلَيْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَعَدَّ السَّابِعَ فَلَمْ يَحْفَظْ قَالَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ عَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَرْعَى فِي الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ

.. البخاري في الوضوء. . باب إذا ألقي على ظهر المصلى قذر أو جيفة لم تفسد عليه صلاته


       " حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ  ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی ( بھی وہیں ) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو بنو فلاں قبیلے کی ( جو ) اونٹنی ذبح ہوئی ہے ( اس کی ) اوجھڑی اٹھا لائے اور ( لا کر ) جب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے  سب سے زیادہ بدبخت ( آدمی ) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا پھر انتظار کیا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا ( عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں ) میں یہ ( سب کچھ ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! ( اس وقت ) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور ایک دوسرے پر ( یہ جرم ) ڈالنے لگے ۔۔۔   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے ( بوجھ کی وجہ سے ) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ ( بات ) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر ( مکہ ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے ( ان میں سے ) ہر ایک کا ( جدا جدا ) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں ( آدمی ) کا نام ( بھی ) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے ( بددعا کرتے وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لئے تھے، میں نے ان کی ( لاشوں ) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا " 


        نیز بحث مذکور کے دوران یہ سوالات بھی تو ہونے چاہئیں

عتبہ کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

ولید کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

ابی بن خلف کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

کعب بن اشرف کو کتنی دفعہ دعوت دی ؟؟؟

اگر ابوجہل قوم کا بڑا تھا تو یہ لوگ بھی ایسے ہی تھے .. بلکہ بعض لوگ تو ابوجہل سے بھی زیادہ بڑے تھے .. چلیں کم از کم ڈیڑھ ہزار دفعہ تو ان کا بھی حق بنتا تھا ..

الله تعالی ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

اپنے ایمان کا خیال رکھۓ


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔