تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ قسط 31۔۔۔ غیرت کے موقعوں کو ضائع کرنے کی کوشش کرنا (دوم)
تبلیغی جماعت کیا ہے ؟
قسط 31
غیرت کے موقعوں کو ضائع کرنے کی کوشش کرنا (دوم)
اس قسط میں گزشتہ قسط کی کچھ باتیں مکرر آئی ہیں اس کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں ۔۔۔ لیکن تفصیلی جواب سے پہلے ان باتوں کو سوال کے طور پر مکرر لانا مناسب سمجھا گیا ۔۔۔
پچھلی قسط میں عرض کیا گیا تھا کہ جب کبھی کوئی ایسا گرم مرحلہ آتا ہے کہ .. مسلمان نوجوانوں کے بیدار ہونے .. اور میدان جہاد کا رخ کرنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے .. تو وہاں " احباب " پهرتی دکها کر ان مواقع کو ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں .. مختلف باتیں پھیلاتے ہیں .. نورانی چالوں اور جالوں سے جہاد کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں .. اس سلسلے میں " احباب " کی چند گل افشانیوں کا بھی ذکر ہوا تھا .. اور ان تمام باتوں کا ایک مختصر جواب بھی عرض کیا گیا تھا کہ .. یہ طریقہ امت کے اب تک کے تعامل کے بالکل خلاف ہے .. امت کا تعامل اب تک یہ رہا ہے کہ .. ایسے مواقع پر مسلمانوں کو غیرت دلائی جائے .. اور ان کو آمادہ انتقام کیا جائے .. لیکن احبابِ کرام دیگر امور کی طرح اس معاملے میں بھی امت سے الگ کھڑے نظر آ رہے ہیں .. آج کی اس قسط میں ان کی گل افشانیوں کا قدرے تفصیلی جائزہ لیا جائے گا .. ان شاء اللہ .. واللہ هو الموفق ..
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب اہلِ کفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنا کر یا کسی اور طریقے سے گستاخی کر دیتے ہیں .. یا قرآن کریم کی توہین کر دیتے ہیں .. اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلمین میں غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے .. اور ایسے میں کچھ نوجوانوں کے دلوں میں جذبہ جہاد مچلنے لگتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ مجاہدین کے ساتھ مل کر کفر کے لئے عذاب بن جائیں .. مجاہدین کو امید پیدا ہو جاتی ہے کہ کچھ نوجوان ان کی طرف آئیں گے .. " احباب " کو خدشہ ہو جاتا ہے کہ کہیں کچھ لوگ ان حالات سے متاثر ہوکر میدانوں کا رخ نہ کر لیں .. تو " احباب " بلا تاخیر میدان میں کود پڑتے ہیں اور ان کے بیانات کچھ یوں ہوتے ہیں
"" آج ہم کس بات پر ان کافروں سے شکوہ کر رہے ہیں .. ہمیں کیوں غصہ آرہا ہے .. کیا ہم نے ان تک کلمہ پہنچایا ہے ؟؟ کیا ہم نے ان پر محنت کی ہے ؟؟ .. کیا انہوں نے ہمیں تمام دنیاوی مصنوعات و ایجادات نہیں پہنچائیں ؟؟ کیا یہ لوگ قیامت کے دن ہمارا گریبان نہیں پکڑیں گے کہ یا اللہ ! ہم نے ان لوگوں کو سب کچھ پہنچایا تھا .. ان لوگوں نے ہم تک کلمہ نہیں پہنچایا "" وغیرہ وغیرہ
اور کہتے ہیں
"" سب سے بڑے گستاخ تو ہم خود ہیں .. کیا ہم نے کلمے والی محنت کو نہیں چھوڑا ؟؟ کیا ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنی زندگی سے نہیں نکالا ؟ کیا ہمارا گھر سنت کے مطابق ہے ؟ کیا ہماری دکان ہماری تجارت سنت کے مطابق ہے ؟ کیا ہمارے بازار سنت کے مطابق ہیں ؟ کیا ہمارے معاملات نبی کے طریقے کے مطابق ہیں ؟ تو سب سے بڑے گستاخ تو ہم خود ہیں .. وہ تو ہیں ہی کافر .. ہم نے کلمہ پڑھ کر بھی نبی کی سنت کو اپنی زندگی سے نکال دیا .. بازاروں اور دکانوں سے نکال دیا .. معاملات اور معاشرت سے نکال دیا .. تعلیم و تربیت سے نکال دیا .. اب بتاؤ ہم بڑے مجرم ہیں یا وہ ( مجمع کہتا ہے : ہم ہیں .. یا سکوت اختیار کر کے تسلیم کرلیتا ہے کہ آپ کی باتیں درست ہیں ہم ہی مجرم ہیں ) .. یہ سب ہماری کوتاہیاں ہیں ہم نے ان کو کلمہ نہیں پہنچایا .. ہم راتوں کو ان کے لئے نہیں روئے .. ہم نے اللہ سے ان کے لئے نہیں مانگا ""
🌹 جواب 🌹
محترم " احباب " ! مانتے ہیں کہ مسلمین کی دینی حالت آج کل بہت خراب ہے .. تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے معاملات ، معاشرت اور عبادات سب کی حالت بہت دگرگوں ہے .. لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب کافروں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے .. کہ وہ جو چاہیں کریں .. اب ہم کسی گستاخی رسول یا گستاخی قرآن پر حرکت میں نہیں آئیں گے .. نہیں نہیں .. اللہ کی قسم ! اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہمیں اس زمین پر جینے کا کوئی حق نہیں .. نہ ایمان بنانے کے لئے اور نہ گشت کرنے کے لئے اور نہ راتوں کو اٹھ کر کافروں کے لئے رونے کے لئے .. مسلمان کے پاس آخری چیز غیرت باقی رہنی چاہئے .. مسلمان جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کریم کی توہین کے بارے میں سنے تو اس کا غیرت میں آنا بہت اچھا لگتا ہے چاہے وہ شرابی کبابی اور دیگر گناہوں میں مبتلا کیوں نہ ہو .. تمام تر کمزوریوں کے باوجود ہمیں ایسے موقعوں پر آگ بگولا ہونا چاہئے .. اور اگر ہم ایسے مواقع پر یہ کہنے لگیں کہ نہیں نہیں پہلے اپنے آپ کو درست کرو پھر کافروں کے بارے میں کچھ سوچو یا کرو .. تو اللہ کی قسم ! ہم میں کوئی خیر نہیں .. کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ عبادات ، معاملات اور معاشرت کے ہاتھ سے جانے کے بعد آخری چیز " غیرت " بھی ہمارے ہاتھ سے جاتی رہی .. باقی پھر بچا کیا ؟ .. اگر غیرت نہیں تو ایمان کہاں ؟ .. مجھے بتاو تو سہی غیرت کے بغیر مسلم کے زندہ ہونے کا کیا ثبوت ہے ؟
محترم " احباب " ! آپ کے ان فرمودات کا مطلب تو یہ ہوا کہ .. پہلے اپنے آپ کو درست کرو پھر اپنے نبی یا قرآن کا انتقام لو .. یہ تو تقریباً وہی بات ہوئی کہ .. پہلے ایمان بناو پھر جہاد کرو .. تو اس کا جواب بھی وہی ہے جو اس سے پہلے ہم مفصل عرض کرچکے ہیں .. قارئین کرام سے درخواست ہے کہ اس قسط کے ساتھ اس قسط کو بھی ایک دفعہ پھر ملاحظہ فرمائیں .. کیا محترم احباب ! آپ یہ بھی کہہ دیں گے کہ پہلے خود کو درست کرو پھر حج پر جاو ؟ .. پہلے خود کو درست کرو پھر نماز پڑھو ؟ ..
محترم " احباب " ! کیا آپ کی یہ باتیں کلمۃ حق ارید بها الباطل کی بہترین مثال نہیں ؟ .... کیا یہ معقول ہے کہ کوئی آدمی کسی گناہ کو اس وجہ سے کر لے کہ چونکہ میں اس سے پہلے دیگر گناہوں میں مبتلا ہوں اس لئے اب یہ گناہ بھی مجھے کرنا چاہئے ؟؟ .. نہیں بهائی ! شریعت کا اصول بالکل واضح ہے کہ گناہ نہ کرو .. اگر کسی ایک گناہ میں مبتلا ہو تو اس کی وجہ سے دوسرا گناہ جائز نہیں ، اور نہ ہی ہلکا ہے .. اگر کوئی پانچ گناہوں میں مبتلا ہے تو اس کی وجہ سے چھٹا گناہ جائز ہو سکتا ہے نہ ہلکا .. اگر کوئی آٹھ دس گناہوں میں مبتلا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز یہ نہیں ہو سکتا کہ اب وہ رہی سہی کسر بھی نکال دے .. .. اب اگر ہمارے معاملات معاشرت اور عبادات خراب ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنی آخری پونجی، زندگی کی آخری رمق .. غیرت .. کا بھی جنازہ نکال دیں ..
محترم " احباب " ! جب تک اللہ تعالٰی کی یہ زمین آباد ہے گناہ ہوتے رہیں گے .. اور اگر سب لوگ نیک بن جائیں تو اللہ تعالی ایسے لوگوں کو پیدا فرمائیں گے جو گناہ کریں گے .. نادم ہو کر استغفار کریں گے توبہ کریں گے اللہ تعالٰی ان کو معاف فرمائیں گے ..
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ
أخرجه مسلم في كتاب التوبة .. باب سقوط الذنوب بالاستغفار
ترجمہ :
اللہ کی قسم اگر تم گناہ نہیں کروگے تو اللہ تمہیں ختم کر کے ایسی قوم کو لائیں گے جو گناہ کریں گے پھر استغفار کریں گے تو اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائیں گے
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حدود کا اجراء ہوا ہے .. اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے جتنی دوری ہوتی گئی گناہ زیادہ ہوتے گئے .. ہر زمانے کے اہلِ علم نے اپنے اپنے زمانے کے فساد کا شکوہ کیا ہے کہ مسلمین کا سب کچھ تباہ ہو گیا .. امراء اور رعایا دین سے دور ہو رہے ہیں .. علماء و صلحاء میں بهی دین محض ایک رسم کی صورت اختیار کر گیا ہے روح نکل گئی ہے .. مختلف فتنے سر اٹھا رہے ہیں لگتا یہ ہے کہ قیامت بہت قریب آ گئی ہے وغیرہ وغیرہ .. لیکن بایں ہمہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کریم کی توہین ہوئی تو ان علماء کرام نے انہی مسلمین کو آواز دی .. اپنے ان معاشروں کو جهنجهوڑا جن سے وہ شاکی ہوا کرتے تھے .. تب انہوں نے یہ فلسفے نہیں جهاڑے جو ہمارے " احباب " جهاڑ رہے ہیں .. ان علماء کرام اور امراء و سلاطین نے اس وقت اٹھنے اور اٹھانے کا کام کیا نہ کہ بیٹھنے اور بٹهانے کا ..
محترم " احباب " ! آپ بےشک معاشرے کی اصلاح کریں مگر اس طرح نہیں کہ مجرمین کی نفرت دلوں سے رخصت ہو جائے .. غیرت کا جنازہ نکل جائے .. آپ بےشک کمزوریوں پر تنقید کریں مگر اس طرح نہیں کہ مسلمین کی کمزوریوں اور ترک عمل کو گستاخی کہا جائے اور ان کے ترک عمل اور عملی کمزوریوں کا واقعی گستاخی کے ساتھ تقابل کر کے غیرت کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جائے .. اس عمل سے بہت بدبو آتی ہے کہ .. کہیں غیروں کے ایجنڈے پر تو کام نہیں ہو رہا کہ حساس مواقع پر مسلمین کو نہ صرف ٹھنڈا کیا جائے بلکہ ان کے ذہن میں یہ بٹها دیا جائے کہ ان حالات کے تم ذمہ دار ہو ..
محترم " احباب " ! ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کا تو اصول ہی کافروں کو دعوت نہ دینے کا ہے .. پهر اس راگ کا کیا مطلب کہ " کیا ہم نے ان تک کلمہ پہنچایا ہے ؟ .. وہ ہمارا گریبان پکڑیں گے .. " .. اور وہ بھی ایسے حساس موقع پر ؟؟
تبلیغی جماعت کیا ہے ؟
قسط 31
غیرت کے موقعوں کو ضائع کرنے کی کوشش کرنا (دوم)
اس قسط میں گزشتہ قسط کی کچھ باتیں مکرر آئی ہیں اس کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں ۔۔۔ لیکن تفصیلی جواب سے پہلے ان باتوں کو سوال کے طور پر مکرر لانا مناسب سمجھا گیا ۔۔۔
پچھلی قسط میں عرض کیا گیا تھا کہ جب کبھی کوئی ایسا گرم مرحلہ آتا ہے کہ .. مسلمان نوجوانوں کے بیدار ہونے .. اور میدان جہاد کا رخ کرنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے .. تو وہاں " احباب " پهرتی دکها کر ان مواقع کو ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں .. مختلف باتیں پھیلاتے ہیں .. نورانی چالوں اور جالوں سے جہاد کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں .. اس سلسلے میں " احباب " کی چند گل افشانیوں کا بھی ذکر ہوا تھا .. اور ان تمام باتوں کا ایک مختصر جواب بھی عرض کیا گیا تھا کہ .. یہ طریقہ امت کے اب تک کے تعامل کے بالکل خلاف ہے .. امت کا تعامل اب تک یہ رہا ہے کہ .. ایسے مواقع پر مسلمانوں کو غیرت دلائی جائے .. اور ان کو آمادہ انتقام کیا جائے .. لیکن احبابِ کرام دیگر امور کی طرح اس معاملے میں بھی امت سے الگ کھڑے نظر آ رہے ہیں .. آج کی اس قسط میں ان کی گل افشانیوں کا قدرے تفصیلی جائزہ لیا جائے گا .. ان شاء اللہ .. واللہ هو الموفق ..
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب اہلِ کفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنا کر یا کسی اور طریقے سے گستاخی کر دیتے ہیں .. یا قرآن کریم کی توہین کر دیتے ہیں .. اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلمین میں غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے .. اور ایسے میں کچھ نوجوانوں کے دلوں میں جذبہ جہاد مچلنے لگتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ مجاہدین کے ساتھ مل کر کفر کے لئے عذاب بن جائیں .. مجاہدین کو امید پیدا ہو جاتی ہے کہ کچھ نوجوان ان کی طرف آئیں گے .. " احباب " کو خدشہ ہو جاتا ہے کہ کہیں کچھ لوگ ان حالات سے متاثر ہوکر میدانوں کا رخ نہ کر لیں .. تو " احباب " بلا تاخیر میدان میں کود پڑتے ہیں اور ان کے بیانات کچھ یوں ہوتے ہیں
"" آج ہم کس بات پر ان کافروں سے شکوہ کر رہے ہیں .. ہمیں کیوں غصہ آرہا ہے .. کیا ہم نے ان تک کلمہ پہنچایا ہے ؟؟ کیا ہم نے ان پر محنت کی ہے ؟؟ .. کیا انہوں نے ہمیں تمام دنیاوی مصنوعات و ایجادات نہیں پہنچائیں ؟؟ کیا یہ لوگ قیامت کے دن ہمارا گریبان نہیں پکڑیں گے کہ یا اللہ ! ہم نے ان لوگوں کو سب کچھ پہنچایا تھا .. ان لوگوں نے ہم تک کلمہ نہیں پہنچایا "" وغیرہ وغیرہ
اور کہتے ہیں
"" سب سے بڑے گستاخ تو ہم خود ہیں .. کیا ہم نے کلمے والی محنت کو نہیں چھوڑا ؟؟ کیا ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنی زندگی سے نہیں نکالا ؟ کیا ہمارا گھر سنت کے مطابق ہے ؟ کیا ہماری دکان ہماری تجارت سنت کے مطابق ہے ؟ کیا ہمارے بازار سنت کے مطابق ہیں ؟ کیا ہمارے معاملات نبی کے طریقے کے مطابق ہیں ؟ تو سب سے بڑے گستاخ تو ہم خود ہیں .. وہ تو ہیں ہی کافر .. ہم نے کلمہ پڑھ کر بھی نبی کی سنت کو اپنی زندگی سے نکال دیا .. بازاروں اور دکانوں سے نکال دیا .. معاملات اور معاشرت سے نکال دیا .. تعلیم و تربیت سے نکال دیا .. اب بتاؤ ہم بڑے مجرم ہیں یا وہ ( مجمع کہتا ہے : ہم ہیں .. یا سکوت اختیار کر کے تسلیم کرلیتا ہے کہ آپ کی باتیں درست ہیں ہم ہی مجرم ہیں ) .. یہ سب ہماری کوتاہیاں ہیں ہم نے ان کو کلمہ نہیں پہنچایا .. ہم راتوں کو ان کے لئے نہیں روئے .. ہم نے اللہ سے ان کے لئے نہیں مانگا ""
🌹 جواب 🌹
محترم " احباب " ! مانتے ہیں کہ مسلمین کی دینی حالت آج کل بہت خراب ہے .. تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے معاملات ، معاشرت اور عبادات سب کی حالت بہت دگرگوں ہے .. لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب کافروں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے .. کہ وہ جو چاہیں کریں .. اب ہم کسی گستاخی رسول یا گستاخی قرآن پر حرکت میں نہیں آئیں گے .. نہیں نہیں .. اللہ کی قسم ! اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہمیں اس زمین پر جینے کا کوئی حق نہیں .. نہ ایمان بنانے کے لئے اور نہ گشت کرنے کے لئے اور نہ راتوں کو اٹھ کر کافروں کے لئے رونے کے لئے .. مسلمان کے پاس آخری چیز غیرت باقی رہنی چاہئے .. مسلمان جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کریم کی توہین کے بارے میں سنے تو اس کا غیرت میں آنا بہت اچھا لگتا ہے چاہے وہ شرابی کبابی اور دیگر گناہوں میں مبتلا کیوں نہ ہو .. تمام تر کمزوریوں کے باوجود ہمیں ایسے موقعوں پر آگ بگولا ہونا چاہئے .. اور اگر ہم ایسے مواقع پر یہ کہنے لگیں کہ نہیں نہیں پہلے اپنے آپ کو درست کرو پھر کافروں کے بارے میں کچھ سوچو یا کرو .. تو اللہ کی قسم ! ہم میں کوئی خیر نہیں .. کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ عبادات ، معاملات اور معاشرت کے ہاتھ سے جانے کے بعد آخری چیز " غیرت " بھی ہمارے ہاتھ سے جاتی رہی .. باقی پھر بچا کیا ؟ .. اگر غیرت نہیں تو ایمان کہاں ؟ .. مجھے بتاو تو سہی غیرت کے بغیر مسلم کے زندہ ہونے کا کیا ثبوت ہے ؟
محترم " احباب " ! آپ کے ان فرمودات کا مطلب تو یہ ہوا کہ .. پہلے اپنے آپ کو درست کرو پھر اپنے نبی یا قرآن کا انتقام لو .. یہ تو تقریباً وہی بات ہوئی کہ .. پہلے ایمان بناو پھر جہاد کرو .. تو اس کا جواب بھی وہی ہے جو اس سے پہلے ہم مفصل عرض کرچکے ہیں .. قارئین کرام سے درخواست ہے کہ اس قسط کے ساتھ اس قسط کو بھی ایک دفعہ پھر ملاحظہ فرمائیں .. کیا محترم احباب ! آپ یہ بھی کہہ دیں گے کہ پہلے خود کو درست کرو پھر حج پر جاو ؟ .. پہلے خود کو درست کرو پھر نماز پڑھو ؟ ..
محترم " احباب " ! کیا آپ کی یہ باتیں کلمۃ حق ارید بها الباطل کی بہترین مثال نہیں ؟ .... کیا یہ معقول ہے کہ کوئی آدمی کسی گناہ کو اس وجہ سے کر لے کہ چونکہ میں اس سے پہلے دیگر گناہوں میں مبتلا ہوں اس لئے اب یہ گناہ بھی مجھے کرنا چاہئے ؟؟ .. نہیں بهائی ! شریعت کا اصول بالکل واضح ہے کہ گناہ نہ کرو .. اگر کسی ایک گناہ میں مبتلا ہو تو اس کی وجہ سے دوسرا گناہ جائز نہیں ، اور نہ ہی ہلکا ہے .. اگر کوئی پانچ گناہوں میں مبتلا ہے تو اس کی وجہ سے چھٹا گناہ جائز ہو سکتا ہے نہ ہلکا .. اگر کوئی آٹھ دس گناہوں میں مبتلا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز یہ نہیں ہو سکتا کہ اب وہ رہی سہی کسر بھی نکال دے .. .. اب اگر ہمارے معاملات معاشرت اور عبادات خراب ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنی آخری پونجی، زندگی کی آخری رمق .. غیرت .. کا بھی جنازہ نکال دیں ..
محترم " احباب " ! جب تک اللہ تعالٰی کی یہ زمین آباد ہے گناہ ہوتے رہیں گے .. اور اگر سب لوگ نیک بن جائیں تو اللہ تعالی ایسے لوگوں کو پیدا فرمائیں گے جو گناہ کریں گے .. نادم ہو کر استغفار کریں گے توبہ کریں گے اللہ تعالٰی ان کو معاف فرمائیں گے ..
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ
أخرجه مسلم في كتاب التوبة .. باب سقوط الذنوب بالاستغفار
ترجمہ :
اللہ کی قسم اگر تم گناہ نہیں کروگے تو اللہ تمہیں ختم کر کے ایسی قوم کو لائیں گے جو گناہ کریں گے پھر استغفار کریں گے تو اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائیں گے
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حدود کا اجراء ہوا ہے .. اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے جتنی دوری ہوتی گئی گناہ زیادہ ہوتے گئے .. ہر زمانے کے اہلِ علم نے اپنے اپنے زمانے کے فساد کا شکوہ کیا ہے کہ مسلمین کا سب کچھ تباہ ہو گیا .. امراء اور رعایا دین سے دور ہو رہے ہیں .. علماء و صلحاء میں بهی دین محض ایک رسم کی صورت اختیار کر گیا ہے روح نکل گئی ہے .. مختلف فتنے سر اٹھا رہے ہیں لگتا یہ ہے کہ قیامت بہت قریب آ گئی ہے وغیرہ وغیرہ .. لیکن بایں ہمہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کریم کی توہین ہوئی تو ان علماء کرام نے انہی مسلمین کو آواز دی .. اپنے ان معاشروں کو جهنجهوڑا جن سے وہ شاکی ہوا کرتے تھے .. تب انہوں نے یہ فلسفے نہیں جهاڑے جو ہمارے " احباب " جهاڑ رہے ہیں .. ان علماء کرام اور امراء و سلاطین نے اس وقت اٹھنے اور اٹھانے کا کام کیا نہ کہ بیٹھنے اور بٹهانے کا ..
محترم " احباب " ! آپ بےشک معاشرے کی اصلاح کریں مگر اس طرح نہیں کہ مجرمین کی نفرت دلوں سے رخصت ہو جائے .. غیرت کا جنازہ نکل جائے .. آپ بےشک کمزوریوں پر تنقید کریں مگر اس طرح نہیں کہ مسلمین کی کمزوریوں اور ترک عمل کو گستاخی کہا جائے اور ان کے ترک عمل اور عملی کمزوریوں کا واقعی گستاخی کے ساتھ تقابل کر کے غیرت کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جائے .. اس عمل سے بہت بدبو آتی ہے کہ .. کہیں غیروں کے ایجنڈے پر تو کام نہیں ہو رہا کہ حساس مواقع پر مسلمین کو نہ صرف ٹھنڈا کیا جائے بلکہ ان کے ذہن میں یہ بٹها دیا جائے کہ ان حالات کے تم ذمہ دار ہو ..
محترم " احباب " ! ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کا تو اصول ہی کافروں کو دعوت نہ دینے کا ہے .. پهر اس راگ کا کیا مطلب کہ " کیا ہم نے ان تک کلمہ پہنچایا ہے ؟ .. وہ ہمارا گریبان پکڑیں گے .. " .. اور وہ بھی ایسے حساس موقع پر ؟؟
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔