تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ قسط 27۔۔۔ تبلیغی جماعت کا علمی اعتراضات سے فرار
تبلیغی جماعت کیا ہے ؟
قسط 27
تبلیغی جماعت کا علمی اعتراضات سے فرار
کتاب و سنت کے طلبہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے جا بجا مشرکین یہود و نصاریٰ اور منافقین کے متعدد شبہات کا جواب دیا ہے .. حالانکہ ان میں بعض شبہات نامعقول بھی ہیں .. مثلاً : مشرکین کا یہ شبہ کہ اللہ تعالٰی مردوں کو کیسے زندہ کریں گے .. یہ شبہ ایک ایسی قوم کی طرف سے نامعقول ہی تھا جو اللہ تعالٰی کو خالق مالک اور قادر مطلق مانتی تھی .. لیکن چونکہ یہ شبہ باوجود نامعقول ہونے کے بعض لوگوں کی گمراہی کا سبب بن سکتا تھا اس لئے اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں متعدد دفعہ اس کا جواب دیا .. اس طرح مشرکین کے دیگر کمزور اعتراضات کے بهی جوابات دئے .. تاکہ جس نے زندہ ( ہدایت پر ) رہنا ہے تو اس کے پاس دلیل کی روشنی رہے .. اور جس نے گمراہی کا راستہ اختیار کرکے تباہ ہونا ہے تو اس کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے بلکہ اس پر حجت تام ہوچکی ہو ..
اگر علمی تنقید سے صرف نظر کی روش اختیار کی جائے تو اس سے دین کا حلیہ بگڑ جاتا ہے .. ہر قسم کی خرابیوں کے لئے راستہ چوپٹ کهل جاتا ہے .. جب کوئی روک ٹوک والا نہیں ہوتا تو جاہلوں کی من مانی شروع ہو جاتی ہے ...
کئے گئے تمام شبہات کا جواب ضروری ہوتا ہے .. ہاں ہر ایرے غیرے کے ہر اعتراض کا جواب ضروری نہیں ہوتا .. اس کی تشریح یہ ہے کہ فرض کریں آپ کے کسی کام پر پچاس اعتراضات ہو رہے ہیں اور کئی سو لوگ ان سوالات کو دہرا رہے ہیں .. تو آپ کو ان پچاس اعتراضات کا جواب دینا پڑے گا .. ہاں یہ ضروری نہیں کہ آپ ہر ایرے غیرے کو جواب دیں ...
بد قسمتی سے تبلیغی جماعت نے اسے اپنا اصول بنا لیا ہے کہ اعتراضات کی طرف التفات نہ کرو اپنا کام کئے جاو .. مخالفین کو بولنے دو .. بلکہ ان کی ایک انتہائی معزز شخصیت کا فرمان ہے کہ " بکنے دے جو سمجھ میں آوے کرے " .. سچ ہے قلم کا پھسلنا قدم کے پهسلنے سے زیادہ خطرناک ہے .. سچ ہے : عالم کے پهسلنے سے ایک دنیا پھسلتی ہے .. اب عملاً یہی ہو رہا ہے کہ تبلیغی حضرات علماء کی اصلاح کو بکواس سمجھتے ہیں .. اور اسے " گوز شتر " سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے جیسا کہ ان کو بڑوں کی طرف سے یہی ذہن دیا گیا ہے .. جب کوئی عالم کسی مسلمان کی اصلاح کرتا ہے قرآن و سنت کی روشنی میں اسے سمجهاتا ہے تو عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ وہ شکریے کے ساتھ اس اصلاح کو قبول کر لیتا ہے .. کم از کم یہ تو ہوتا ہی ہے کہ وہ معارضہ و مناقشہ نہیں کرتا .. لیکن ان حضرات کی اصلاح اب جوئے شیر لانے کے مترادف بن گئی ہے .. یہ ایک مختصر سی تمہید کے بعد مناظرے پر اتر آتے ہیں ... اور وہ یہ کہ " ہمیں علماء کرام کے سامنے نہیں بولنا چاہئے لیکن " اور پھر " لیکن " کے بعد اپنی تقریر شروع کر دیتے ہیں .. علماء کرام کی اصلاح کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے ..
بات دوسری طرف نکل گئی .. بات یہ ہو رہی تھی کہ : اسلام دلیل کا مذہب ہے .. واقعی اعتراضات سے گریز دلیل کے نہ ہونے کی علامت ہے .. دلیل ہدایت ہے .. دلیل کا نہ ہونا جہالت اور گمراہی ہے .. اسلام باقی ادیان کو یہی طعنہ دیتا ہے کہ تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں .. اگر تم سچے ہو تو دلیل لاؤ .. دلیل کے نہ ہونے کو اسلام بہت بری نظر سے دیکهتا ہے .. یہ اسلام کا مزاج ہے اس پر کچھ سطروں کے بعد دلائل پیش کئے جارہے ہیں ان شاء اللہ .. لیکن یہاں " احباب " کے چند اصولوں کا ذکر کرتے ہیں جو دلائل سے گریز کے فلسفے پر مبنی ہیں .. احباب کے اصول یہ ہیں
پہلے دل لے لو پهر دن لے لو .. ان کے اور عیسائی مبلغین کے اصول میں صرف ایک ی کا فرق ہے .. ان کا اصول ہے : پہلے دل لے لو پھر دین لے لو .. اور بدقسمتی سے یہاں بھی بہت سوں کے ساتھ یہی معاملہ ہو جاتا ہے کہ پہلے اکرام کے نام پر مختلف کهانے کهلا کر اور کچھ عزت دے کر ان کا دل لے لیا جاتا ہے اور پھر اس کا دین لے لیا جاتا ہے جہاد کا منکر بنا کر .. غلو میں مبتلا کر کے ... نهی عن المنکر چهڑوا کر .. دین کے دیگر کاموں کی اہمیت کم کروا کر .. خود ساختہ شرائط خود ساختہ تاویلات اور مثالوں کا شکار کروا کر .. اور دیگر درجنوں بیماریوں میں مبتلا کروا کر .. یوں عملاً ان کا اصول یوں بن جاتا ہے : پہلے دل لے لو پھر دن لے لو پھر دین لے لو ..
ان کا دوسرا اصول : قائل کرنا نہیں مائل کرنا ہے
تیسرا اصول : یہ راستہ دیکھ کر چلنے کا نہیں چل کر دیکھنے کا ہے
چوتها اصول : پہلے چار مہینے لگاو پهر اعتراض کرو ..
یہ تمام اصول دلائل سے گریز کے اصول پر مبنی ہیں .. ان تمام اصولوں کی ماں یہ اصول ہے کہ جاہل رکھ کر چلاو .. اب ان اصولوں کا تهوڑا سا جائزہ لیتے ہیں ..
پہلا اصول : پہلے دل لے لو پھر دن لے لو .. اگر آپ جائز شرعی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں اور علم و بصیرت اور دلسوزی و ہمدردی کے ساتھ آپ نے حق کو واضح کر دیا ہے اور پھر بھی کوئی شخص نہیں مان رہا ہے تعصب اور عناد کی وجہ سے .. تو اب بات ختم .. اب دین کو ذلیل کرکے .. ان کی خوشامد اور چاپلوسی کرکے .. ان کے ساتھ بعض ناجائز کاموں میں شرکت کرکے اس کے دل لینے کی کوئی اجازت نہیں ہے .. اب اس کے دل لینے کا مرحلہ نہیں بلکہ بعض صورتوں میں اس کی جان لینے کا مرحلہ ہوتا ہے .. اور اگر آپ نے ان غیر شرعی طریقوں سے اس کا دل لے کر اسے وصول کر بھی لیا .. تو بھی آپ نے کوئی دین کا کام نہیں کیا .. گناہ کا کام کیا ہے .. آپ کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ آپ کی دعوت اور دعوت کا طریقہ شریعت کے مطابق ہے کہ نہیں .. اگر ہیں تو اب آپ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہ لوگ قبول کر رہے ہیں کہ نہیں .. مجمع بن رہا ہے کہ نہیں .. اگر درست طریقے سے کوئی دین کی طرف آتا ہے تو آجائے ورنہ پوری دنیا جہنم میں چلی جائے آپ کو کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے .. یہی راز ہے کہ قیامت کے دن ایسے انبیاء کرام بھی آئیں گے جن کے ساتھ کوئی امتی نہیں ہوگا .. بعض ایسے ہوں گے جن کے ساتھ ایک امتی ہوگا .. بعض بہت تهوڑے امتیوں کے ساتھ آئیں گے . ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ یہ سب کامیاب داعی تھے .. بات یہ نہیں تهی کہ انہیں دل لینے کا فن نہیں آتا تھا ایسا سمجھنا کفر ہے .. بات یہ تهی کہ وہ شرعی اصولوں کے توڑنے کے قائل نہیں تھے .. ان کا اصول یہ تها جو ہم نے اوپر عرض کر دیا کہ درست طریقے سے کوئی آئے تو ٹهیک ورنہ نہیں ..
اگر کوئی شخص آپ کی درست دعوت کو قبول نہیں کر رہا .. اس وجہ سے نہیں کہ وہ معاند ہے بلکہ اس وجہ سے کہ اسے کچھ اشکالات ہیں جن کا وہ حل چاہتا ہے .. تو ان اشکالات کا حل کرنا آپ کی ذمہ داری ہے .. اب آپ کا کام دل لینا نہیں اشکالات حل کرنا ہے .. یہی انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ ہے .. یہی انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت ہے .. مخاطب کو اشکالات ہوں تو اشکالات کے جوابات دینا ، معاند ہو تو دعوت پہنچانے کے بعد خود کو اور دین کو اس کے سامنے ذلیل کرنے سے بچانا اور اس کے دل لینے کے درپے نہ ہونا ... یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ "احباب " نے جہاں دین میں اور بہت سی باتیں داخل کی ہیں وہاں انہوں نے یہ کہانی بھی گھڑی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کو سو دفعہ دعوت دی .. ایک دفعہ سخت سردی اور بارش کی رات میں آپ اسے دعوت دینے اس کے گهر تشریف لے گئے .. دروازہ کھٹکھٹایا .. ابوجہل نے کہا کہ جو شخص اس سخت سردی اور بارش کی رات میں میرے گھر آرہا ہے .. اس کی جو بھی حاجت ہوگی میں پوری کروں گا .. لیکن پھر بھی مسلمان نہیں ہوا .. یہ سب باتیں بےاصل ہیں ..
اب ان کے دوسرے اصول پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ قائل کرنا نہیں مائل کرنا ہے .. میرے بھائی ! اسلام کا اصول ہے : قائل کرکے مائل کرنا ہے .. اگر صرف مائل کرنا ہی اصول ہے تو کیا انبیاء کرام علیہم السلام والعیاذ باللہ مائل کرنے میں ناکام تھے .. انہیں دل لینے اور مائل کرنے کا فن نہیں آتا تھا ؟؟؟ .. نہیں میرے بھائی ! وہ شرعی اصولوں کے توڑنے کے قائل نہیں تھے .. وہ صرف مائل کرنے کے قائل نہیں تھے .. وہ بہت اعلی صلاحیتوں کے مالک تھے .. اگر ان کا طریقہ صرف مائل کرنے کا ہوتا تو کسی نبی کی امت میں کوئی کافر نہ ہوتا سب کے سب مسلمان ہوتے .. صرف مجمع اکٹھا کرنا مقصد ہوتا تو وہ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ..
اب ان کے تیسرے اصول کو دیکھیں کہ یہ راستہ دیکھ کر چلنے کا نہیں چل کر دیکھنے کا ہے .. تو یہ بالکل واضح بات ہے کہ یہ گمراہی کی بات ہے .. اسلام دیکھ کر چلنے کا قائل ہے .. اسلام روشنی ہے جس میں لوگ دیکھ کر چلتے ہیں .. انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ بھی دیکھ کر چلنے کا ہے ..
اب ہم ان کے چوتھے اصول کو دیکھتے ہیں کہ پہلے چار مہینے لگاو پهر اعتراض کرو .. یہ بات تو ہر کوئی کہہ سکتا ہے ۔۔۔ مثلاً پہلے چار مہینے بریلوی بنو پھر اعتراض کرو .. پہلے چار مہینے شیعہ بنو پھر اعتراض کرو .. پہلے چار مہینے عیسائیت کو اختیار کرو پھر اعتراض کرو .. صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے ان تمام اصولوں کو یہ سب اپنا سکتے ہیں .. آپ کی یہ میڈ ان رائیونڈ مصنوعات سب کے لئے ہیں .. بس وہ ان اصولوں کے بنانے اور سنانے میں شاید آپ سے کچھ پیچھے رہ گئے .. خیر ! بات جو بھی ہے پروڈکٹس بہت اعلیٰ ہیں سب لے سکتے ہیں ..
آخر میں ایک اور نکتے پر غور فرمائیں .. وہ یہ کہ ان اصولوں کی زد جہاد پر کیسے پڑتی ہے .. جب آپ کا اصول یہ ٹھہرا کہ دل لینا ہے اور مائل کرنا ہے تو کیا آپ جہاد کرسکتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟ .. ذرا سوچئے .. اور یہ دیکهئے کہ کس طرح اخفی من دبیب النمل جہاد کے خلاف مضبوط ذہن سازی کی جاتی ہے .. الله تعالی اس امت کی حفاظت فرمائے .. مضمون کا کچھ حصہ رہ گیا اسے اگلی قسط کیلئے اٹھا رکھتے ہیں ان شاء اللہ ۔۔
اپنے ایمان کا خیال رکھۓ
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔