Saturday, 6 June 2020

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ قسط 24۔۔۔ نهی عن المنکر کو چھوڑنا ... حصہ دوم



تبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 24

نهی عن المنکر کو چھوڑنا ... حصہ دوم


قارئین کرام نے گزشتہ قسط سے نهی عن المنکر کی اہمیت کا کچھ اندازہ لگایا ہوگا .. یہ قسط چونکہ گزشتہ سے پیوستہ ہے اس لئے اسے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ گزشتہ قسط ذہن میں رہے ..

واضح رہے کہ نهی عن المنکر کے ترک پر وہ تمام وعیدیں بھی متوجہ ہو جاتی ہیں جو فریضہ " امر بالمعروف و نہی عن المنکر " کے ترک پر وارد ہیں .. طوالت کی وجہ سے ان کو یہاں نقل نہیں کیا جاتا ..


حیران کن بات یہ ہے کہ ایک جماعت جو جہاد فی سبیل اللہ ، نهی عن المنکر ، افتاء و قضاء وغیرہ امور کی مستقل تارک ہے ، جس کے پروگرام میں احیاء خلافت ہے ہی نہیں وہ کس دیدہ دلیری اور کس تسلسل کے ساتھ پوری پوری کامیابی اور پورے پورے دین کی بات کر رہی ہے .. اور اس سے بهی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے علماء کرام کس تحمل اور وسعت ظرفی کے ساتھ یہ سب کچھ برداشت کر رہے ہیں .. فما اصبرهم ... حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں ..


⬅ امت کمزور ہو تو کیا کیا جائے


       نھی عن المنکر کو چھوڑنے کی ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ امت کمزور ہے .. مختلف مواقع پر آپ ان سے یہی سنیں گے کہ امت کمزور ہے .. آئیے دیکھتے ہیں کہ امت کی کمزوری کے وقت کون سا نسخہ استعمال کیا جائے .. قرآن و سنت کیا بتاتے ہیں .. گزشتہ قسط میں ذکر کردہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امت کی کمزوری کا علاج انذار اور نهی عن المنکر ہے .. دیکھیں رسول الله صلى الله عليه وسلم کو قُمْ فَأَنذِرْ

کا حکم اس وقت ہوا جب امت کمزوری کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی بلکہ آخری حدوں کو پار کر چکی تھی .. شرک کی اتهاہ گہرائیوں میں غرق تهی ... جس سے زیادہ کمزوری اور تباہی کا تصور نہیں کیا جاسکتا وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ کا حکم بھی ایسے ہی حالات میں دیا گیا .. ہر نبی نے امت کی کمزوری کے وقت نهی عن المنکر اور انذار پر زور دیا ہے جیسا کہ گزشتہ قسط میں ذکر کردہ آیات و احادیث سے ظاہر ہے .. اور تجربہ بھی یہی ہے کہ ایسے حالات میں ترغیب کی بنسبت ترہیب اور وعد کی بنسبت وعید زیادہ مفید ہوتی ہے .. ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ صرف ایک پہلو کو لیا جائے .. ترغیب و ترهیب دونوں سے کام لیا جائے .. کسی کی اہمیت اس کے مقام سے نہ گهٹائی جائے ..


     نھی عن المنکر کے ترک یا اس میں مجرمانہ سستی سے کئی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں .. مثلاً : دلوں سے گناہوں کی نفرت اور شناعت کا نکل جانا .. اہلِ باطل کی باطل کی نشر و اشاعت میں ایک گونہ مدد کرنا .. گناہوں کی کثرت کا سبب بننا .. لوگوں کے عقائد کا نقصان کہ ان ناجائز کاموں کو جائز سمجھیں جن پر مصلحت کے تحت سکوت اختیار کیا گیا .. دعاؤں کا قبول نہ ہونا .. الله تعالی کی طرف سے مدد کا نہ آنا .. سببِ لعنت .. عام عذاب کا آنا .. وغیره وغیره .. یہ تمام وعیدیں قرآن و سنت سے ثابت ہیں .. یوں تو آج عام طور پر فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر متروک ہے لیکن جو جماعت مبلغِ اسلام کی حیثیت سے مسلمین کے سامنے آئے اور نهی عن المنکر کے ترک کو اپنا اصول بنا لے اور اس کے لئے باقاعدہ فلسفے اور دلائل بیان کرے تو معاملہ سنگین ہو جاتا ہے .. صرف یہی نہیں کہ نهی عن المنکر کو چھوڑتے ہیں بلکہ ان میں کتنے افراد ہیں جو دوسروں کو "وصول " کرنے کے لئے کسی حد تک گناہ میں شرکت کر لیتے ہیں .. اور اسے اپنی بہت بڑی کامیابی اور حکمت سمجھتے ہیں اور اسے فخریہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں کو یوں وصول کیا .. اور فلاں بھی اسی اصول کے تحت آگے وصولیاں کرتا رہتا ہے .. یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے .. منکرات میں شمولیت برائے تبلیغ .. افسوس کہ معاملہ یہیں پر بھی نہیں رکتا بلکہ معاملے کا سنگین پہلو یہ ہے کہ ایسا جائز سمجھ کر کیا جائے .. اب یہاں ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی .. علماء کرام سے اس صورت کے بارے میں استفسار کیا جائے ..


الله تعالی ہمیں ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے

اپنے ایمان کا خیال رکھۓ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔