Saturday, 6 June 2020

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟۔۔۔قسط 19۔۔۔ منبر پر کیسے لوگ آتے ہیں ؟؟؟



تبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 19

منبر پر کیسے لوگ آتے ہیں ؟؟؟


      منبر پر کیسے لوگ آتے ہیں ؟ ... اس کے لئے آپ کو ان حضرات کے سنٹرز ( مراکز ) میں جا کر دیکھنا ہوگا ۔۔۔ کیونکہ ان کے تمام سینٹرز ایک ہی جیسے اصولوں پر چلتے ہیں ۔۔۔۔ آپ اپنے قریبی مرکز کی حالت دیکھ لیں  ... آپ کو نظر آۓ گا کہ ... منبر پر بس چند ہی لوگ آتے ہیں جو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ... پندرہ بیس مخصوص لوگ یا کچھ کم و بیش .... پھر آپ ان میں دیکھیں کہ علماء کتنے ہیں .... آپ کو حیرانی ہوگی کہ ان میں دو تین ہی علماء ہوتے ہیں اور بس ... وہ بھی اکثر و بیشتر مولوی نما جاہل ہوتے ہیں ... جو ان کے خود ساختہ زہریلے اصولوں اور تحریفات کو پی چکے ہوتے ہیں  ... جن کی رگ رگ میں جہالت دوڑتی ہے ... ویسے بھی ان کے ہاں مولوی ہونے کے لئے دستار کافی ہوتی ہے ... اور اندرونی و بیرونی سفر ، "قربانیاں " تو حضرات کو چودہ چاند لگا دیتے ہیں ... وہ بزرگ بن جاتے ہیں ... یہ چند نام کے مولوي اور باقی .... منبر نشین حضرات ... کوئی ڈاکٹر صاحب .. کوئی انجنئیر صاحب .. کوئی کرنل صاحب .. کوئی بریگیڈیئر صاحب ...  جی ہاں ! یہ کرتے ہیں امت کی دینی رہنمائی ... اور عام تبلیغی حضرات کی زبانوں پر یہ ہوتا ہے :  بریگیڈیئر صاحب نے فرمایا ... کرنل صاحب نے فرمایا ... ڈاکٹر صاحب نے فرمایا اور ماسٹر صاحب نے فرمایا ... اور ان کے فرمودات عالیہ ، مستند علماء کرام کے فرامین سے بڑھ کر ہونے ہیں ... کیونکہ ان کے دماغوں میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ ان کے بزرگوں میں جو کڑهن پائی جاتی ہے اور دین کے مٹنے کا جو غم ان کے سینوں میں پایا جاتا ہے وہ مدارس کے پڑهے ہوئے علماء میں نہیں پایا جاتا ۔۔۔ 


      اب آپ غور کریں کہ آپ کے علاقے میں کتنے علماء ہیں ... ان کو کیوں نہیں بلایا جاتا ؟؟؟ ...  اب اس بات کا تو تقریبا تصور بھی ختم ہوگیا ہے کہ وہ ایسے علماء کو بلائیں گے جن کا سال نہ لگا ہو ۔۔۔  یہ اگر عقلاً ناممکن نہیں تو عملاً اسے ناممکن بنا دیا گیا ہے ... کیوں ؟؟؟ ۔۔۔۔ ایسا کیوں ہے ؟ ۔۔۔ ان کی طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ :  بھائی ! یہ ایک ترتیب ہے ... ان کو ہماری ترتیب معلوم نہیں ... جی ہاں !! ... یہ ایک ایسی مقدس "ترتیب " ہے جو علماء کرام سے زیادہ معزز ہے ... اگر ان کو تمہاری ترتیب معلوم نہیں تو کیا وہ دین کی بات بھی نہیں کر سکتے ؟؟؟ کیا وہ وعظ و نصیحت بھی نہیں کر سکتے ؟؟؟ ۔۔۔ کیا وہ تمہاری اصلاح نہیں کر سکتے یعنی یہ نہیں بتا سکتے کہ تمہاری یہ بات غلط ہے ؟؟؟ ۔۔۔۔۔ یہیں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ان کے بیانات کا مقصد اپنی اور اوروں کی اصلاح کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنی ترتیب میں لوگوں کو جوڑنا ہوتا ہے اپنی ترتیب کے لئے لوگوں کو وصول کرنا ہوتا ہے  ۔۔۔۔  اپنی تعداد بڑھانی ہوتی ہے ۔۔۔ 


         افسوس ان مدارس پر ہے جو اپنے منبروں پر ان سے تقریریں کرواتے ہیں ... کبھی انہوں نے بھی تمہیں اس قابل سمجھا یا بس تم ہی یکطرفہ وصل لیلیٰ میں ہلکان ہو رہے ہو ؟؟؟ .. یاد رکھو وہ تمہیں تو کیا تمہارے شیخ الحدیثوں کو بھی کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ... بس ان کی "اپنی ترتیب " جو ہے ....

           🔷  غور فرمائیں  🔷

       چلو وہ علماء کرام تو ان کے سٹیج پر نہیں آ سکتے جنہوں نے سال نہیں لگایا ... سوال یہ ہے کہ ... وہ علماء کیوں نہیں آسکتے جنہوں نے سال لگایا ہے ؟؟؟ ... آپ کو جگاتا چلوں کہ حلقے میں سو دو سو بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ سال لگائے ہوئے علماء ہوتے ہیں ... لیکن سٹیج پر جاہلوں کی حکومت ہوتی ہے ... کرنل بریگیڈیئر صاحبان وغیرہ قابض ہوتے ہیں ... ایسا کیوں ؟؟؟ ... یہ وہ نکتہ ہے جس پر غور کرنے کی ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں ... افسوس یہ ہے کہ معاملہ یہاں نہیں رکتا ... بلکہ یہ حضرات بعض دفعہ علماء کے مجمع میں خصوصی بیان بھی کرتے ہیں ... منبر پر تشریف فرما ہیں ڈاکٹر صاحب ... بریگیڈیئر صاحب اور نیچے علماء ... صد حیف اس قبیح منظر پر ... اس کی شناعت کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ... ابھی چند دن پہلے ہی ( یہ چند سال پہلے لکھا تھا ۔۔۔ اب اس واقعے کو چند سال ہو گئے ہیں )  رائیونڈ شریف کے مرکز میں ڈاکٹر روح اللہ صاحب کوئٹہ والے نے علماء کے مجمع میں بیان کیا ... اور نہ صرف بیان کیا ... بلکہ علماء کو خوب سنائیں ... اور ان کی خوب گوشمالی کی  ۔۔۔۔۔ وا اسلاماہ  ... یا رب ! اس امت کے حال پر رحم فرما ...


       خیر ! میں آپ کی توجہ اس جانب دلانا چاہتا تھا کہ آپ نے اپنے علاقے میں ایسے علماء بہت دیکھے ہوں گے جو نہ صرف سال لگائے ہوئے ہیں بلکہ ان کی ترتیب کے مطابق چلتے بھی ہیں لیکن آپ نے بلکہ کسی نے بھی ان کو ان کے منبر پر بیان کرتے نہیں دیکھا ہوگا ... ایسا کیوں ہوتا ہے ؟  ۔۔۔  ان میں جہاد کے "جراثیم " پوری طرح مر نہیں چکے ہوتے ... یا ان میں عبادات سے آگے نظام کے بارے میں سوچنے کی "بیماری " ہوتی ہے ... بہرحال کوئی نہ کوئی "بیماری " ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ قابل منبر نہیں ہوتے ... خود میں ایسے کئی علماء کو جانتا ہوں جنہوں نے نہ صرف سال لگایا ہے بلکہ اندرون و بیرون ملک کے کئی سفر بھی ہو چکے ہیں ... لیکن میں نے ان کو منبر پر بیان کرتے نہیں دیکھا بلکہ کسی نے بھی نہیں دیکھا ... غور کیا تو ان حضرات میں کئی بیماریاں نکل آئیں ... کسی میں تھوڑے بہت جہاد کے جراثیم ہیں صرف درست ماننے کی حد تک ... کسی کو نظام کے بارے میں سوچنے کا مرتکب پایا ... اور کسی میں درس و تدریس کو اہمیت دینے کی بیماری نکل آئی ...


         واضح رہے کہ ان لوگوں کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اچھا خاصا مانیٹرنگ نظام ہے  ۔۔۔ اس لئے غلطی سے بھی وہ لوگ آگے نہیں آ سکتے جو یا تو جہادی جذبات رکھتے ہوں صرف جذبات ، ۔۔  یا خلافت کے بارے میں سوچتے ہوں کہ یہ بھی ایک منزل ہے جو مسلمین کو حاصل کرنی ہے ۔۔۔ یا وہ کسی دوسری دینی ترتیب کو اہمیت دیتے ہوں ۔۔۔ یا تحریف پر ان کا مکمل شرح صدر نہ ہوا ہو ۔۔۔  الغرض اگر اس طرح کے کچھ " جراثیم "  کسی میں پاۓ جاتے ہوں تو وہ قابلِ منبر نہیں ہوتے ۔۔۔ 


       🔷 یہی وجہ ہے کہ ان کی اصلاح کی امید نہیں 🔷


        اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ میں ان لوگوں کی جماعت میں نکلوں گا  ۔۔۔ جماعت کے ساتھیوں کی اصلاح کروں گا اور پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے ان کے منبر تک پہنچوں گا اور پھر  ضلعی سطح  پر اصلاح کروں گا تو اس خیالی پلاؤ پکانے والے سے ہم بڑے ادب سے کہتے ہیں کہ 

       " ایں خیال است و محال است و جنوں " 

      اگر کوئی ایسا کر کے دکھا سکتا ہے تو یہ گز یہ میدان  ۔۔۔۔ منبر پر آ کر ان کی اصلاح کا کوئی بیان کر لے ۔۔۔ جہاد کی طرف بلانے کی بات نہیں کر رہا ۔۔۔۔۔ خلافت کا سبق دینے کی بات نہیں کر رہا ۔۔۔ صرف ان کی غلطیوں کی اصلاح کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔ صرف ان کو اتنا کہہ دے کہ : 

🖍️ اللہ سے سب کچھ ہونے مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ، کلمے کا درست مقصد نہیں ہے ۔۔۔ یہ جبریہ کا مذہب ہے ۔۔۔ اگر اس میں پیوند لگا لگا کر اس کو صحیح کر بھی دیا جائے تب بھی یہ توحیدِ ربوبیت ہے جبکہ کلمے کا مقصد توحیدِ اُلُوہیت ہے  ۔۔۔۔ اور پھر توحیدِ اُلُوہیت کی تشریح کرے  ۔۔۔ کلمے کے شرائط ارکان اور نواقض کے بارے میں بات کرے ۔۔۔ 


🖍️ ان کو بتائے کہ تم ہجرت اور نصرت کے معنی میں تحریف کر رہے ہو اس سے باز آ جاؤ 


🖍️ اللہ کے راستے سے جہاد مراد ہے اسے کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں 


🖍️ ان سے کہے کہ جہاد کی مخالفت چھوڑ دیں ۔۔۔ نہ جہاد کو کوشش کے معنی میں لیں ۔۔۔ نہ جہاد سے پہلے ایمان بنانے کی شرط رکھیں ۔۔۔ نہ مکی زندگی کی بات کریں ۔۔۔ نہ جہاد سے پہلے 13سال ایمان پر محنت کی بات کریں ۔۔۔ نہ یہ بات کریں کہ جو کافر بغیر کلمے کے مریں گے ان کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا  ۔۔۔ نہ یہ کہیں کہ ہم کفر سے نفرت کریں گے لیکن کافر سے نفرت نہیں کریں گے ۔۔۔ الغرض ان تمام باتوں کو چھوڑیں جن سے جہاد کی مخالفت لازم آتی ہو ۔۔۔ 

🖍️ ان سے کہے کہ عوام کے لئے دین بیان کرنا جائز نہیں چاہے چھ نمبروں کے اندر ہو یا باہر 


🖍️ درس قرآن کی پر زور ترغیب چلائے کہ اپنے اپنے علاقوں میں جا کر اپنی مساجد کو درس قرآن سے آباد کروائیں ۔۔۔ اور درس قرآن میں لوگوں کو لانے کے لئے پرزور گشت کریں ۔۔۔ چاہے درس دینے والا عالم سال لگایا ہوا ہو یا نہ ہو  


        اگر آپ نے گزشتہ قسطیں دیکھی ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں اصلاح طلب باتیں  بہت ہیں ان چند باتوں کو بطور مثال ذکر کر دیا  ۔۔۔۔ تو اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ان کے اندر شامل ہو کر ہم ان کی اصلاح کر سکتے ہیں تو یہ گز یہ میدان ( ایک دفعہ ایک شخص نے لوگوں سے کہا کہ میں نے ہندوستان میں سو گز چھلانگ لگائی تھی لوگوں میں کسی کے پاس گز موجود تھا اس نے کہا یہ گز یہ میدان ، سو گز چھلانگ لگا کر دکھا )   ، ہم چشم براہ ہیں ۔۔۔ کوئی کر کے دکھائے ۔۔۔ اگر کسی نے ایسا بیان کر کے دکھا دیا ۔۔۔ اور وہ اس بیان کے بعد بھی معزز و مکرم تھا اور قابلِ منبر تھا  ۔۔۔ اس کے بعد بھی اسے بیان ملتا رہا ۔۔۔۔ تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں ۔۔۔ تمام قارئین اس کے گواہ رہیں کہ میں پوری زندگی دینے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔ 


         دوسروں کو پھنسانے کے لئے ان کے پاس بہت سے جال ہوتے ہیں  ۔۔۔ جب بھی ان سے کوئی عالم کہتا ہے کہ تمہارے اندر یہ غلطیاں ہیں تو وہ فوراً یہ کہتے ہیں کہ اجی : یہ کام تو دراصل علماء کا ہے لیکن چونکہ علماء نکلتے نہیں اس لئے اس پر عوام کا قبضہ ہوگیا آپ نکلیں گے تو اصلاح کر سکیں گے  ۔۔۔۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جو نکل چکے ہیں انہوں نے کتنی اصلاح کی ہے ؟ یا وہ کس حد تک اصلاح کر سکتے ہیں ؟ ۔۔۔ ان کے ہوتے ہوئے دیگر لوگ منبر پر کیوں آتے ہیں ؟ 


      یہاں ایک بات ذہن میں رہے کہ یہاں جو بحث ہوئی ہے وہ منبر سے متعلق ہوئی ہے ... جہاں سے مسلمانوں کو دینی رہنمائی ملتی ہے ... جو خالص علماء کرام کا کام ہے ... دینی رہنمائی اور منبر کے علاوہ کسی انتظامی معاملے میں کسی غیر عالم کو ذمے دار مقرر کرنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ... جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنهم نے بھی بعض جنگی اور دیگر امور میں غیر علماء کو ذمہ داریاں دی ہیں ... لیکن وہ بھی اس زمانے کے لحاظ سے غیر علماء تھے ورنہ تو دین کی ٹھیک ٹھاک سمجھ رکھتے تھے تقوی و طہارت سے آراستہ تھے ... لہذا یہاں کے معاملے کو وہاں پر قیاس نہ کیا جائے ... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی رہنمائی کا کام یا تو خود کیا ہے یا علماء صحابہ کو سونپا ہے ... اور غیر علمی کاموں میں بھی اگر کسی کو کوئی ذمے داری دی ہے تو اس میں اس چیز کی مہارت کے ساتھ ساتھ ضروری دینی علم اور تقویٰ کو بھی مدنظر رکھا ہے ... منبر اور دینی رہنمائی کا کام عہد رسالت عہد صحابہ و تابعین میں کسی جاہل اور نااہل کے سپرد نہیں کیا گیا ... اور شاید یہ کام ہمارے ان کرم فرماوں سے پہلے کسی نے بھی نہیں کیا ... اور پھر جب یہ جاہل اور نااہل ان منبروں پر آتے ہیں تو کیا کیا گل پاشیاں کرتے ہیں .. اس کے لئے تو بلا مبالغہ دفتر کے دفتر ناکافی ہیں ... وائے رے علماء امت ... کیا کیا خاموشیاں ہیں اور کیا کیا برداشتیں ...

إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ

البخاري في العلم .. باب من سئل علما وهو مشتغل في حديثه

ترجمہ : 

جب نا اہلوں کو معاملات سپرد کر دئے جائیں تو قیامت کا انتظار کر 


عن أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : لَا تَبْكُوا عَلَى الدِّينِ إِذَا وَلِيَهُ أَهْلُهُ وَلَكِنْ ابْكُوا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ

أحمد في مسند الأنصار

ترجمہ : 

دین پر اس وقت نہ رونا جب باصلاحیت لوگوں کے ہاتھ میں دینی معاملات ہوں  ۔۔۔ ہاں اگر نااہلوں کے ہاتھ میں دینی معاملات چلے جائیں تو پھر دین پر رونا چاہئے ۔۔۔ 


یہاں منبر کی بات ہوئی ہے ... اس کے علاوه ایک اور بحث ہے کہ ... کیا کوئی جاہل وعظ و تبلیغ کر سکتا ہے ... اس کے لئے آئندہ کسی قسط کا انتظار فرمائیں

اللہ تعالٰی ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

اپنے ایمان کا خیال رکھۓ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔