🔷 تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ 🔷
قسط 18
... ⬅ آئیے دیکھتے ہیں کہ مسجد نبوی کے اعمال کیا ہیں ؟ مسجد نبوی کا ماحول کیا ہے اور وہ قطرے و سمندر کے فلسفے سے کتنی مطابقت رکھتا ہے ....
احادیث و آثار پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ... مسجد نبوی میں نماز باجماعت کے علاوہ بھی اعمال ہوتے تھے ...
◀️ مسجد نبوی میں سب سے بڑا کام تعلیم و تعلم کا تھا .. اس پر ویسے تو بیسیوں احادیث گواہ ہیں لیکن یہاں ایک حدیث پر اکتفا کرتے ہیں
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِمَجْلِسَيْنِ فِي مَسْجِدِهِ فَقَالَ كِلَاهُمَا عَلَى خَيْرٍ وَأَحَدُهُمَا أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ أَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَدْعُونَ اللَّهَ وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ وَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ أَوْ الْعِلْمَ وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ فَهُمْ أَفْضَلُ وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا قَالَ ثُمَّ جَلَسَ فِيهِمْ
أخرجه الدارمي في مقدمة سننه
ترجمہ :
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں دو مجلسوں پر گزرے تو فرمایا کہ دونوں خیر پر ہیں لیکن ان میں سے ایک دوسرے سے افضل ہے ۔۔۔ یہ اللہ سے مانگتے ہیں اور اللہ کی طرف رغبت رکھتے ہیں اللہ نے چاہا تو ان کو دے دیں گے اور چاہا تو نہیں دیں گے ۔۔۔ اور رہے یہ تو یہ علم سیکھتے ہیں اور جاھل کو سکھاتے ہیں اس لئے یہ افضل ہیں اور مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔۔۔۔ پھر اسی مجلس میں بیٹھ گئے ( لیکن دیگر لوگوں کو اس مجلس میں بیٹھنے پر مجبور نہیں کیا )
◀️ صفہ ... اصحاب صفہ ... اصحاب صفہ کے دو بڑے کام تھے ... جہاد اور تعلیم و تعلم ... بڑا دھوکہ دیتے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ... اصحاب صفہ کا ایک ہی کام تھا پڑهنا پڑهانا اور بس .... اس سلسلے میں آپ جتنی کتابیں دیکھ سکتے ہیں دیکھ لیں ... تمام علماء نے ان کے دو کام بتائے ہیں ... جہاد اور پڑهنا پڑهانا ... کام تو اور بھی کرتے تھے لیکن ان دو کیلئے خود کو وقف کیا ہوا تھا ... یہ دونوں غالب تھے ۔۔۔ یعنی مسجد نبوی مدرسے کا کام بھی دیتی تھی اور چھاونی کا بھی
◀️ مسجد نبوی دارالافتاء کا بهی کام کرتی تھی ... جیسا کہ اہل علم بخوبی جانتے ہیں اس پر بیسیوں احادیث ہیں لیکن ایک پر اکتفا کرتے ہیں
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا قَامَ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَيْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنْ الْجُحْفَةِ وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ وَيَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ لَمْ أَفْقَهْ هَذِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
البخاري في العلم .. باب ذكر العلم و الفتيا في المسجد
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ ایک آدمی نے مسجد میں کھڑے ہوکر مواقیت کے بارے میں پوچھا ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مواقیت بتا دئے کہ مدینے والوں کے لئے ذوالحلیفہ ، شام والوں کے لئے جحفہ ، نجد والوں کے لئے قرن ، یمن والوں کے لئے یلملم ۔۔۔ الحدیث ۔۔۔
یہ سوال و جواب مسجد نبوی میں ہوئے تھے ۔۔۔
◀️ مسجد نبوی دارالقضاء بھی تهی ... رسول الله صلى الله عليه وسلم اور خلفائے راشدین نے بہت سے معاملات مسجد ہی میں نمٹائے ....
◀️ مسجد نبوی میں بعض دفعہ نیزہ بازی بھی ہوئی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنها کی مشہور حدیث ہے کہ ... انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹ میں کهڑے ہو کر حبشہ کی نیزہ بازی دیکهی
وَقَالَتْ عَائِشَةُ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْحَبَشَةِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ فَزَجَرَهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُمْ أَمْنًا بَنِي أَرْفِدَةَ
البخاري في المناقب باب قصة الحبش
◀️ مسجد نبوی میں بعض وفود کا استقبال بھی ہوا ہے ... البتہ یہاں یہ عرض ہے کہ ... اس حدیث کو بنیاد بنا کر مسجد کو استقبالیہ یا مہمان خانہ نہ بنایا جائے .... مسجد کا تقدس اور وقار مجروح نہ ہوں تو آج بھی مہمانوں کا استقبال مسجد میں کیا جاسکتا ہے ...
◀️ مسجد نبوی میں زخمی مجاہدین کا علاج اور تیمارداری بهی ہوئی ہے
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فِي الْأَكْحَلِ فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ لِيَعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ فَلَمْ يَرُعْهُمْ وَفِي الْمَسْجِدِ خَيْمَةٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ إِلَّا الدَّمُ يَسِيلُ إِلَيْهِمْ فَقَالُوا يَا أَهْلَ الْخَيْمَةِ مَا هَذَا الَّذِي يَأْتِينَا مِنْ قِبَلِكُمْ فَإِذَا سَعْدٌ يَغْذُو جُرْحُهُ دَمًا فَمَاتَ فِيهَا
البخاري في أبواب استقبال القبلة
مقصود اس حدیث سے یہ ہے کہ جب حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ غزوہ خندق میں زخمی ہوگئے تھے تو ان کے علاج کے لئے مسجد نبوی میں خیمہ لگوایا گیا تھا
◀️ مسجد نبوی میں کافر قیدیوں کو بھی باندھا گیا تھا ...
لیجئے صحیح بخاری سے ایک حدیث
بَاب الِاغْتِسَالِ إِذَا أَسْلَمَ وَرَبْطِ الْأَسِيرِ أَيْضًا فِي الْمَسْجِدِ وَكَانَ شُرَيْحٌ يَأْمُرُ الْغَرِيمَ أَنْ يُحْبَسَ إِلَى سَارِيَةِ الْمَسْجِدِ
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنْ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ
البخاري في أبواب استقبال القبلة
ترجمے کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ تعالی عنہ کو جب قیدی بنایا گیا تو مسجد میں باندھ دیا گیا ۔۔۔
واضح رہے کہ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ تین دن تک مسجد میں باندھے رہے تھے یہاں مذکورہ بالا باب کی وجہ سے ہم نے مختصر حدیث لے لی ورنہ خود صحیح بخاری میں یہ حدیث تفصیل سے بهی آئی ہے جس میں تین دن تک ان کے باندھے جانے کا ذکر ہے
◀️ مسجد نبوی میں وعظ بھی ہوتا تھا ... لیکن ... اہل علم کا وعظ ... مسجد نبوی میں کسی جاہل کا وعظ ثابت نہیں ... ہاں جاہلوں کے وعظ پر نکیر کی گئی ہے ... روکا گیا ہے ... حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جاہلوں کو اٹھوایا ہے ....
❤️ سمندر اور قطرے کی مثال اور مسجد نبوی کا ماحول ❤️
احادیث و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ... مسجد نبوی میں آزادی تھی ... رسول الله صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں بھی اور بعد میں بھی ...
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔____ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمن والوں کو ابتدائے آفرینش کے بارے میں بتا رہے تھے فرمایا : ازل سے اللہ تھا اور کوئی چیز نہ تھی اس کا عرش پانی کے اوپر تھا اور لوح محفوظ میں سب کچھ لکھ دیا پھر آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا ۔۔۔ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان یہاں تک پہنچا تھا کہ ) کسی آواز دینے والے نے کہا کہ عمران ! تیری اونٹنی چلی گئی ۔۔۔ چنانچہ میں ( بیان کو چھوڑ کر ) چلا گیا ۔۔۔ لیکن اونٹنی کا کوئی اتا پتا نہ چلا ۔۔۔ سراب تو نظر آ رہا تھا اونٹنی نظر نہیں آرہی تھی ۔۔۔ اللہ کی قسم مجھے افسوس ہے کاش میں ( بیان کو نہ چھوڑتا ) اونٹنی کو چھوڑ دیتا ۔۔۔ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی نے عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو یہ نہیں کہا کہ بیان کو چھوڑ کر کہاں جا رہا ہے ۔۔۔ بعد میں خود ان کو افسوس ہوا اور اپنے افسوس کا اظہار کر رہا ہے ) حدیث یہ ہے ⬇️
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَقَلْتُ نَاقَتِي بِالْبَابِ، فَأَتَاهُ نَاسٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ : " اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا بَنِي تَمِيمٍ ". قَالُوا : قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا. مَرَّتَيْنِ. ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ : " اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا أَهْلَ الْيَمَنِ، إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ ". قَالُوا : قَدْ قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالُوا : جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ. قَالَ : " كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُهُ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَكَتَبَ فِي الذِّكْرِ كُلَّ شَيْءٍ، وَخَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ". فَنَادَى مُنَادٍ : ذَهَبَتْ نَاقَتُكَ يَا ابْنَ الْحُصَيْنِ. فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا هِيَ يَقْطَعُ دُونَهَا السَّرَابُ ، فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ تَرَكْتُهَا.
البخاري ... كِتَابٌ : بَدْءُ الْخَلْقِ | بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى : وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ.
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے ... مسجد نبوی میں دو حلقے تھے ... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دونوں خیر پر ہیں ... آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم کے حلقے میں ان کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے بیٹھے اور فرمایا : انما بعثت معلما
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِمَجْلِسَيْنِ فِي مَسْجِدِهِ فَقَالَ كِلَاهُمَا عَلَى خَيْرٍ وَأَحَدُهُمَا أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ أَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَدْعُونَ اللَّهَ وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ وَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ أَوْ الْعِلْمَ وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ فَهُمْ أَفْضَلُ وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا قَالَ ثُمَّ جَلَسَ فِيهِمْ
أخرجه الدارمي في مقدمة سننه
.... یہاں ملاحظہ فرمائیں آزادی تھی ... کسی کو سمندر اور قطرے کے فلسفے کے تحت کسی حلقے میں بیٹھنے پر مجبور کرنے کا دستور نہیں تھا ...
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بازار والوں سے فرمایا : تم یہاں ہو مسجد میں میراث نبوی کی تقسیم ہورہی ہے ... لوگ گئے واپس آئے اور کہا : وہاں تو کوئی چیز تقسیم نہیں ہو رہی تھی ... آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ وہاں آپ نے کچھ بھی نہ دیکھا ... کہا : کچھ لوگ نماز پڑھ رہے تھے کچھ تلاوت کر رہے تھے اور کچھ حلال اور حرام کا مذاکرہ کر رہے تھے ... فرمایا : یہی ( حلال و حرام کا مذاکرہ ) تو میراث نبوی ہے ... مجمع الزوائد کتاب العلم حدیث حسن ...
اس حدیث میں آپ ملاحظہ فرمائیں : انفرادی نوافل پڑھنے والوں اور انفرادی تلاوت کرنے والوں کو اہل علم نے اپنے حلقے میں بیٹھنے پر مجبور نہیں کیا کہ تمہارا عمل انفرادی ہے قطرہ ہے اور ہمارا عمل اجتماعی ہے سمندر ہے ... یہ تها مسجد نبوی کا ماحول ... آزادی ... کسی کے مشاغل میں دخل نہ دینا ...
⬅ مسجد میں سونے اور کھانے پینے کا کیا حکم ہے ؟؟؟
بلا ضرورت مسجد میں یہ چیزیں جائز نہیں ... لیکن افسوس کہ یہ حضرات بلا ضرورت بھی مسجد میں سوتے ہیں کہ ... بڑے فرماتے ہیں کہ ... مسجد میں فرشتوں کا ماحول ہوتا ہے ... جب یہ جماعتوں میں جاتے ہیں تو یہی کرتے ہیں ... مسجد کے قریب حجرہ ہے ... وہاں کهانے پینے اور سونے کا انتظام ہوسکتا ہے ... لیکن ... مسجد میں فرشتوں کا ماحول ہوتا ہے ... مسجد میں جب دس بارہ آدمی رہتے ہیں تو غیبت تو تهوڑی بہت ہو ہی جاتی ہے ...
ایک دفعہ بندے نے مسجد کے وسط میں ان کے دسترخوان پر کچی پیاز دیکهی .... عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز کها کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے ... اور آپ ... مسجد کے اندر ... پیاز تناول فرماتے ہیں ... اس پر ان کے ایک مولوی صاحب نے فرمایا کہ چونکہ آپ کا وقت نہیں لگا ہے اس لئے آپ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے ...
* فضائل اعمال کو مدارس کے نصاب پر قیاس نہ کیا جائے *
بعض " حضرات و خواتین " کو ہماری اس بات پر اعتراض ہے کہ ... ہم نے فضائل اعمال کی "تعلیم" کو بدعت قرار دیا ... ان کا خیال ہے کہ جس طرح مدارس کے نصاب میں کتابیں مقرر ہوتی ہیں ... اس طرح یہ بھی ایک نصاب ہے اس میں فضائل اعمال مقرر ہے ...
اس کے جواب میں عرض ہے کہ فضائل اعمال کو مدارس کے نصاب پر قیاس نہ کیا جائے ... زمین و آسمان کا فرق ہے ... مدارس کا نصاب درجہ بدرجہ سال بہ سال بدلتا رہتا ہے فضائل اعمال ناقابل تغیر ہے ...
مدارس میں مخصوص طبقہ آتا ہے جن کو فنون کی تعلیم دینا اور ان کو ایک مخصوص استعداد کا حامل بنانا ہوتا ہے ... جبکہ مساجد میں عام مسلمان آتے ہیں جن کو فنون کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ ان کو وعظ و نصیحت اور ترغیب و ترهیب کے ذریعے دین کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ... فضائل اعمال بھی وعظ ہی ہے اگرچہ اسے تعلیم کہتے ہیں لیکن نام کے بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی ...
نصاب دیگر کتابوں تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتا ہے جبکہ فضائل اعمال دیگر کتابوں سے مانع بن رہی ہے ... لیکن اگر آپ کا اصرار ہے کہ فضائل اعمال ایک نصاب ہی ہے تو عرض ہے کہ ... مسجد پر کسی ایک نصاب کو مسلط نہ کیا جائے ... مسجد میں تمام مسلمان آتے ہیں ان پر کسی خاص جماعت کا نصاب مسلط نہ کیا جائے ... خاص طور پر کوئی ایسا نصاب جو عقائد و فقہ سے خالی ہو ... خلاصہ یہ کہ ... مسجد و مدرسے میں فرق ... وعظ و تعلیم میں فرق ... نصاب کا دیگر علوم کے لئے خادم و معاون ہونے اور مانع ہونے میں فرق ... مساجد کی آزادی کو سلب کرنے اور نہ کرنے کا فرق
مدارس کے نصاب میں تو فرق ہوتا ہے ... کہیں کنز کہیں الاختیار ... کہیں مختصر القدوری کہیں التسہیل الضروری ... کہیں کافیہ تو کہیں شرحِ ابن عقیل ... کہیں ارشاد الصرف تو کہیں کوئی اور کتاب ... کہیں نحومیر کہیں علم النحو اور کہیں النحو الواضح ...
نصاب ایک مخصوص وقت تک کے لئے ہوتا ہے زندگی بھر کے لئے نہیں ہوتا ... فضائل اعمال پوری زندگی چلتی ہے ... مدارس کا نصاب مساجد کی آزادی کو غصب نہیں کرتا جبکہ ان لوگوں نے اپنے نصاب کے ذریعے مساجد کی آزادی کو چهین لیا ہے ...
◀️ خلاصہ ▶️
خلاصہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے مساجد کی آزادی کو غصب کر دیا ہے اور اسے مساجد کی آبادی کا نام دیا ہے ۔۔۔ جہاں ان کا زور ہوتا ہے وہاں مساجد پر ان کی ترتیب کا قبضہ ہوتا ہے ۔۔۔ اور ان کی ترتیب سے ہٹ کر دین کی کوئی خدمت تقریباً ناممکن ہوتی ہے ۔۔۔ یہ ان کی اکثریت کا حال ہے ۔۔۔ کہیں کہیں ان میں ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو اپنی ترتیب کو چھوڑ کر بخوشی کسی دوسری دینی خدمت کا ساتھ دیتے ہوں ۔۔۔ خاص طور پر اگر وہ جہاد سے متعلق ہو ۔۔۔ لیکن اگر ایسے لوگ ہوں تو وہ ان میں آٹے میں نمک سے بھی بہت کم ہیں ۔۔۔ ان کی اکثریت کا حال وہ ہے جو اوپر عرض کر دیا ۔۔۔
الله تعالی ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔