Saturday, 6 June 2020

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟...قسط 17...فضائل اعمال کی تعلیم سے متعلق



تبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 17

⬅ فضائل اعمال کی تعلیم سے متعلق ..


بات چل رہی تھی مساجد کی آبادی کے نام پر مساجد پر قبضے سے متعلق .. اسی ضمن میں فضائل اعمال کی تعلیم کا ذکر آگیا .. اسی بات کو آگے بڑھاتے ہیں ان شاء اللہ .. واللہ هو الموفق ..


چھوٹی مساجد میں یہ صورت بہت زیادہ پیش آتی ہے کہ نماز کے تهوڑی دیر بعد ایک صاحب فضائل اعمال لے کر امام کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور "تعلیم " شروع کر دیتا ہے ... اب صورت یوں بنتی ہے کہ پہلی یا دوسری صف میں مسبوقین کے منہ " تعلیم " کرنے والے کی طرف ہوتے ہیں ... شرعا یہ بہت قبیح صورت ہے .. آپ علماء کرام سے پوچھ لیں .. اور افسوس یہ ہے کہ یہ صورت بہت زیادہ پیش آتی ہے ...بعض دفعہ کچھ حضرات نمازی اور "تعلیم " کرنے والے کے درمیان بیٹھ جاتے ہیں جس سے وہ قبیح صورت تو ختم ہو جاتی ہے .. لیکن .. اس میں کوئی شک نہیں کہ نمازی کے نماز کا سکون غارت ہو جاتا ہے ... اگر مسجد میں دو تین صفیں ہوتی ہیں اور نماز کے بعد لوگ " تعلیم " کا حلقہ لگا لیتے ہیں .. تو اکثر و بیشتر یہ صورت پیش آتی ہے کہ لوگ مسبوق کے ارد گرد حلقہ لگا لیتے ہیں اور وہ لوگوں کے درمیان شرمندہ شرمندہ اپنی بقیہ نماز پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے .. یہ ہو رہی ہے دین کی خدمت .. یہ ہو رہی ہے " تعلیم " .. آپ صدق دل سے بتائیں کہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں مساجد میں یہ صورت پیش آتی ہے کہ نہیں ؟ سچ بولنا شرط ہے .. ہماری نظر میں یہ وہ صورت ہے جس کا از خود نوٹس لینا اہل علم پر شرعا ضروری ہوتا ہے .. یعنی گزشتہ قسط میں جو باتیں عرض کی تھیں وہ اور یہ بات جو ابھی چل رہی ہے اس کے مجموعے سے جو صورت بنتی ہے اہل علم کو استفتاء کا انتظار کئے بغیر اس کا از خود نوٹس لینا چاہئے .. ایسے حالات میں اہلِ علم کو اپنا علم ظاہر کرنا چاہئے ورنہ زمین فساد سے بهر جائے گی ..


⬅ جمعے کے بیان کو کافی نہیں سمجھتے ➡

آپ نے دیکھا ہوگا کہ یہ لوگ ... جمعے کے بیان کو کافی نہیں سمجھتے ... کوئی کتنا ہی بڑا عالم ... کتنا ہی بڑا مفتی شیخ الحدیث بیان کیوں نہ کرلے .... یہ لوگ نماز کے بعد فضائل اعمال کهول کر بیٹھ جاتے ہیں اور ... نہ صرف یہ کہ سنت پڑھنے والوں کے خشوع اور مسجد کے سکون کو غارت کر لیتے ہیں بلکہ ... لوگوں کے ذہن میں یہ بات بهی بٹها دیتے ہیں کہ ... مولوی صاحب کا بیان کافی نہیں تھا ... ان کے بیان سے مقاصد حل نہیں ہوئے ... یہ چیزیں اسی ذہن سے پھوٹتی ہیں کہ ... فضائل اعمال ضروری ہے ... نیز یہ عمل مزید تھکاوٹ اور دینی حلقوں میں بیٹھنے سے اکتاہٹ کا سبب بنتا ہے ...


یہ تو ہوگئ بات فضائل اعمال کی تعلیم سے متعلق .. بات ہورہی تھی مساجد کی آبادی کے نام سے مساجد پر قبضے کی ..


صبح صبح فجر کی نماز کے بعد چھ نمبر کی کیسٹ چلتی ہے .. یہ ایک خالص بے جان رسم ہوتی ہے .. وہی الفاظ .. وہی انداز .. وہی تعبیرات .. یوں لگتا ہے کہ کل پرسوں ترسوں والی کیسٹ چل رہی ہے .. انتہائی بے جان ، تهکا دینے والا ، سآمہ والا عمل .. یہ چھ نمبری گردان تلاوت قرآن کو غصب کر دیتی ہے .. مسجد میں دباؤ کا ماحول ہوتا ہے کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ چھ نمبری گردان کو چھوڑ کر تلاوت کرنے بیٹھ جائے .. اور اگر کوئی تلاوت کرنے بیٹهتا ہے تو اسے "سمجهاتے" ہیں کہ بهائی یہ وقت تلاوت کا نہیں چھ نمبروں کا ہے .. تمہاری یہ تلاوت انفرادی عمل ہے .. اور ہماری یہ چھ نمبری گردان اجتماعی عمل ہے .. انفرادی عمل کی مثال قطرے اور اجتماعی عمل کی مثال سمندر کی ہے .. مان گیا تو ٹھیک ورنہ تبلیغ کا مخالف .. حالانکہ یہ نرا دھوکہ ہے اور کچھ بھی نہیں .. معمول کی تلاوت ان کی اس چھ نمبری ترتیب میں شرکت سے ہزار درجے بہتر ہے .. تلاوت کیا معمول کے نوافل ، معمول کا ذکر حتى کہ معمول کا مطالعہ بھی ان کے عمل میں شرکت سے بہتر ہے ..


⬅ اجتماعی عمل کیا ہے ؟ ➡

اب یہاں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اجتماعی عمل کیا ہوتا ہے .. نماز باجماعت ایک اجتماعی عمل ہے .. مقتدی پر امام کی اقتدا لازم ہوتی ہے. . امام جب تک قیام میں رہے گا اسے کھڑا رہنا پڑے گا .. جب امام رکوع میں جائے گا اسے بھی جانا پڑے گا .. مقتدی کی اپنی مرضی ختم ہو جاتی ہے .. یہ عمل اجتماعی اس لئے ہے کہ شریعت نے اسے اجتماعی بنایا ہے .. اب انفرادی نماز سے باجماعت نماز بلاشبہ بہتر ہے .. لیکن قطرے اور سمندر کی طرح نہیں بلکہ ایک اور پچیس یا ایک اور ستائیس کی طرح .. اس کے علاوه اجتماعی عمل وہ ہوتا ہے جو خلافت کے انتظام کے تحت خلیفہ کے حکم سے امت کے مفاد میں ہوتا ہے .. جہاد بھی شرعا ایک اجتماعی عمل ہے .. یہاں " شرعا " کو ذہن میں رکھیں ... یعنی یہ زید عمرو بکر کا بنانا ہوا اجتماعی عمل نہیں بلکہ ... شریعت کی طرف سے مقرر کردہ اجتماعی عمل ہے .. اس نکتے کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ ..... اجتماعی عمل وہ ہے جس کی اجتماعیت شریعت کی طرف سے سند یافتہ ہو .... ورنہ آج کل بہت سے دکانداروں نے اجتماعیت کے نام سے اپنی اپنی دکانیں کهولی ہیں ..... ہر کسی کی اپنی اجتماعیت .. الله تعالی اس امت کے حال پر رحم فرمائے .... آمین ...

اگر کوئی آپ کو بہت تنگ کرے اور بات نہ سمجھے تو آپ ان سے کہہ دیں کہ بهائی آپ تو دس بارہ آدمی ہیں فلاں جگہ جو مدرسہ یا جلسہ ہے اس میں کئی سو آدمی ہیں آپ کا عمل قطرہ ان کا سمندر .. آپ اس مدرسے یا جلسے میں چلے جائیں ..


صبح چھ نمبر، عصر کو "تعلیم " ، رات کو واقعہ .. اب اگر امام صاحب اپنے مقتدیوں کو کچھ سکھانا چاہے تو وہ کیا کرے ؟ اسے خدشہ ہوتا ہے کہ اگر چوتھے وقت کو بھی مصروف کر دیا گیا تو کہیں مقتدی مسجد میں آنا ہی نہ چهوڑ دیں .. بعض دفعہ مسجد میں جماعت آ جاتی ہے جس کی وجہ سے باقی دو اوقات بھی مصروف .. ہفتے میں کم از کم ایک دن ان کی گشت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس دن مغرب کا وقت بھی مصروف ہو جاتا ہے .. امام صاحب بے چارہ یہ سب کچھ دیکهتا رہتا ہے .... مجبوری اور بےبسی کی تصویر بنا وقت گزارتا رہتا ہے اور بس ..

اس طرح مساجد کی آبادی کے نام سے مساجد پر قبضہ کیا ہوا ہے انہوں نے .. ...

اسی بات کو اگلی قسط میں چلائیں گے ان شاء اللہ .....

الله تعالی ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔