Saturday, 6 June 2020

تبلیغی جماعت کیا ہے...قسط 15 ... یہ طریقہ تبلیغ کشتی نوح ہے.


تبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 15

( یہ طریقہ تبلیغ کشتی نوح ہے )


     بہت خوب جناب ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف تم مسلمان باقی سب کافر ... ہیییں ! ایسا ہی ہے نا ؟ ... یا کم از کم اتنا تو ضرور ہے کہ اس کشتی میں سوار ہوئے بغیر نجات کی کوئی صورت نہیں ... ایسا ہی ہے نا جی ؟ .. اس کے علاوه تو مذکورہ تشبیہ کے کوئی معنی ہمارے ذہن میں نہیں آتے .. کوئی صاحب کوئی اچھی توجیہ کر سکتا ہے تو ہم اس کے شاکر ہوں گے .. ہم چشم براہ ہیں ..


       ٹھیک ہے جی یہ کشتی نوح ہے .. اگر خاطر مبارک پر بار نہ ہو ، اگر یہ گستاخی نہ ہو تو ایک سوال پوچھ سکتے ہیں ؟ کشتی سے ہونے کا یقین ؟ اچھا ناراض ہو رہے ہیں تو گستاخی معاف ہم اپنا سوال واپس لیتے ہیں ...


      اب آتے ہیں بات ان سے کرتے ہیں جو ابھی تک کشتی نوح میں سوار نہیں ہیں .. بولو بهائیو ! کیا بنے گا تمہارا ؟ تم کیا سمجھے ہو کہ محض کلمہ پڑھنے چند سال مدرسے میں کچھ کتابیں پڑھنے کچھ بےجان تقریریں کرنے سے تمہاری نجات ہوجائے گی ؟؟ کیا اللہ کی جنت اتنی سستی ہے ؟؟؟ ... ہونہہ .. چھوڑو الله کے راستے کو اور خواب دیکھو جنت کے ... ہونہہ ! اللہ کی جنت اتنی آسان ہے ؟؟؟ سادگی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے ... تم جب تک اللہ کے کام میں نہیں جڑوگے دین کی حقیقت نہیں کھلے گی .. تمہیں علم کا پندار لے ڈوبا ہے ... اور یہ جہاد والے .. ہونہہ ! ! یہ کیا سمجھے ہیں کہ کیا اللہ کے بندوں کو دعوت دینے کی بجائے مارنے سے وہ جنت میں چلے جائیں گے ؟؟ کس دنیا میں رہتے ہو تم .. تم تو جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکوگے ... نجات چاہئے تو سب کے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے بستر لے کر رائیونڈ چلنا ... یہی سفینہ نوح ہے .. اسی سے دنیوی و اخروی عذابوں سے ہم بچ سکتے ہیں .. یہیں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے ...


         ۔۔۔۔۔۔     ۔۔۔۔۔       ۔۔۔۔۔۔۔     ۔۔۔۔۔۔


کشتی نوح ... یہ بات صرف عام کارکنوں کی نہیں .. خود مولانا الیاس صاحب کی فرمائی ہوئی ہے .. صرف یہی نہیں بلکہ اب تک کے ذکر کردہ تمام نظریات جماعت کے سند یافتہ مہر بند سکہ بند نظریات ہیں .. ان شاء اللہ آئندہ اقساط میں مولانا الیاس صاحب اور ان کے دیگر اکابر کے غلو اور تحریف کی باحوالہ بحث آنے والی ہے .. جب یہ کشتی نوح ہے تو عام کارکن اس 6 نمبری ترتیب کو چھوڑ کر ہلاکت ( علم .. مدارس .. جہاد و قتال .. تردید فرق زائغہ .. رفاہ عامہ کے کاموں وغیرہ ) کی طرف کیوں جائیں گے ؟ .. کیونکہ ظاہر ہے کشتی نوح کے باہر تو ہلاکت ہی ہلاکت ہے ..


سوچنے کی بات ہے اگر کسی کو ایک ایسا آسان راستہ ہاتھ آئے جس میں جان جانے کا خطرہ ہو نہ کاروبار کے ٹھپ ہونے کا خدشہ .. اور اس کے ساتھ ساتھ وہ کشتی نوح بھی ہو اور اس راستے میں ایک صبح اور ایک شام دنیا وما فیها سے بہتر بھی ہو .. اور صرف چار مہینوں میں بلکہ اس سے بھی کم مدت میں بندہ قاتل یا چور قابل نفرین سے امیر صاحب قابل صد آفرین بهی بنے .. تو کوئی پاگل ہی ہوگا جو کہیں اور دیکھے گا .. وہ کیوں علم و مدارس میں دلچسپی لے گا .؟. وہ کیوں جہاد و قتال کی بات کرے گا ..؟


اچھا آخر میں ایک بات .. حضرت نوح علیہ السلام نے کفار کو بد دعا دی تھی .. رب لا تذر علی الارض من الكافرين دیارا ( نوح ) .. یہ حضرات کافرین کو بد دعائیں کیوں نہیں دیتے ؟؟؟

دیکھو جی حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی اس کے بعد بد دعا کی ...

اچھا جی .. ہمارے نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے بھی تو بد دعا دی ہے مکی زندگی میں بھی اور مدنی زندگی میں بھی


    ◀️ مکی زندگی میں بددعا ▶️


عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ إِذْ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْض أَيُّكُمْ يَجِيءُ بِسَلَى جَزُورِ بَنِي فُلَانٍ فَيَضَعُهُ عَلَى ظَهْرِ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ فَجَاءَ بِهِ فَنَظَرَ حَتَّى سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ عَلَى ظَهْرِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَأَنَا أَنْظُرُ لَا أُغْنِي شَيْئًا لَوْ كَانَ لِي مَنَعَةٌ قَالَ فَجَعَلُوا يَضْحَكُونَ وَيُحِيلُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى جَاءَتْهُ فَاطِمَةُ فَطَرَحَتْ عَنْ ظَهْرِهِ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَشَقَّ عَلَيْهِمْ إِذْ دَعَا عَلَيْهِمْ قَالَ وَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الدَّعْوَةَ فِي ذَلِكَ الْبَلَدِ مُسْتَجَابَةٌ ثُمَّ سَمَّى اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ وَعَلَيْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَعَدَّ السَّابِعَ فَلَمْ يَحْفَظْ قَالَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ عَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَرْعَى فِي الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ .. 

البخاري في الوضوء .. باب إذا ألقي على ظهر المصلى قذر أو جيفة لم تفسد عليه صلاته ...

ترجمہ : 

       " حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ  ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی ( بھی وہیں ) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو بنو فلاں قبیلے کی ( جو ) اونٹنی ذبح ہوئی ہے ( اس کی ) اوجھڑی اٹھا لائے اور ( لا کر ) جب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے  سب سے زیادہ بدبخت ( آدمی ) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا پھر انتظار کیا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا ( عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں ) میں یہ ( سب کچھ ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! ( اس وقت ) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور ایک دوسرے پر ( یہ جرم ) ڈالنے لگے ۔۔۔   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے ( بوجھ کی وجہ سے ) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ ( بات ) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر ( مکہ ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے ( ان میں سے ) ہر ایک کا ( جدا جدا ) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں ( آدمی ) کا نام ( بھی ) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے ( بددعا کرتے وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لئے تھے، میں نے ان کی ( لاشوں ) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا ۔۔۔ 


ایک اور ثبوت


عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ أَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ إِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنْ الْإِسْلَامِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَكَ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ فَقَرَأَ ( فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ ) ثُمَّ عَادُوا إِلَى كُفْرِهِمْ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى ( يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ ) يَوْمَ بَدْرٍ ..

 البخاري في الاستسقاء .. باب إذا استشفع المشركون بالمسلمين

ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب قریش نے اسلام کے قبول کرنے میں دیر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بد دعا دی چنانچہ انہیں قحط نے پکڑ لیا یہاں تک کہ وہ مردار اور ہڈیاں کھانے لگے تو ابوسفیان نے آکر عرض کیا کہ اے محمد ! اب تو آئے ہیں صلہ رحمی کا حکم کرنے ، اور آپ کی قوم ہلاکت میں پڑ گئی لہذا اللہ سے دعا کیجیے ( کہ ہلاکت ٹل جائے )  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحدیث 


      ◀️ مدنی زندگی میں بد دعا کا ثبوت ▶️

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْوَامًا مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ إِلَى بَنِي عَامِرٍ فِي سَبْعِينَ فَلَمَّا قَدِمُوا قَالَ لَهُمْ خَالِي أَتَقَدَّمُكُمْ فَإِنْ أَمَّنُونِي حَتَّى أُبَلِّغَهُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَّا كُنْتُمْ مِنِّي قَرِيبًا فَتَقَدَّمَ فَأَمَّنُوهُ فَبَيْنَمَا يُحَدِّثُهُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَوْمَئُوا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ فَطَعَنَهُ فَأَنْفَذَهُ فَقَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ ثُمَّ مَالُوا عَلَى بَقِيَّةِ أَصْحَابِهِ فَقَتَلُوهُمْ إِلَّا رَجُلًا أَعْرَجَ صَعِدَ الْجَبَلَ قَالَ هَمَّامٌ فَأُرَاهُ آخَرَ مَعَهُ فَأَخْبَرَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ قَدْ لَقُوا رَبَّهُمْ فَرَضِيَ عَنْهُمْ وَأَرْضَاهُمْ فَكُنَّا نَقْرَأُ أَنْ بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنْ قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا ثُمَّ نُسِخَ بَعْدُ فَدَعَا عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبَنِي لَحْيَانَ وَبَنِي عُصَيَّةَ الَّذِينَ عَصَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

البخاري في الجهاد والسير .. باب من ينكب في سبيل الله


       پورا ترجمہ کروں گا تو بات لمبی ہو جائے گی وقت نہیں ہے اس لئے خلاصہ لکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کچھ کفار نے دھوکے سے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو 30 دن یا بعض روایات کے مطابق چالیس دن تک نماز فجر میں بددعا دی 


      ◀️ ایک اور ثبوت ▶️


عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْحُدَيْبِيَةِ هَبَطَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ ثَمَانُونَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فِي السِّلَاحِ مِنْ قِبَلِ جَبَلِ التَّنْعِيمِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ فَأُخِذُوا وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ ( وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ) قَالَ يَعْنِي جَبَلَ التَّنْعِيمِ مِنْ مَكَّةَ .. مسند احمد من حدیث أنس رضي الله عنه


     اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر اسی 80 مسلح کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم پر  جبل تنعیم سے اتر کر حملے کی کوشش کی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بد دعا دی چنانچہ وہ پکڑ لئے گئے  ۔۔۔ 


ایک اور ثبوت

عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ شَهِدْتُ مِنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ مَشْهَدًا لَأَنْ أَكُونَ صَاحِبَهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عُدِلَ بِهِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَدْعُو عَلَى الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ لَا نَقُولُ كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى ( اذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا ) وَلَكِنَّا نُقَاتِلُ عَنْ يَمِينِكَ وَعَنْ شِمَالِكَ وَبَيْنَ يَدَيْكَ وَخَلْفَكَ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَقَ وَجْهُهُ وَسَرَّهُ يَعْنِي قَوْلَهُ .. البخاري في المغازي ..


       اس حدیث میں بھی مشرکین کو بد دعاء دینے کا ذکر ہے 

نیز کتب حدیث میں غزوہ احزاب میں مشرکین کو بددعا ... کسری کو خط پھاڑنے پر بددعا بهی موجود ہے ..

.. تو کیا خیال ہے ؟؟ .. آپ کشتی نوح والے تو بد دعا تک کے بهی قائل نہیں .. یا بات یہ ہے کہ ہمارے لئے سیرت نبوی میں مثال موجود نہیں ہے .. ہمیں پیچھے جانا پڑے گا بہت پیچھے بنی اسرائیل .. بلکہ .. حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں ؟؟ ہیییں! تو کیا ہم ہزار سال کی عمر والے کافروں کو لے آئیں تاکہ تم انہیں ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرو اور وہ نہ مانیں تو بد دعا کرو ؟؟؟ ویسے یہ امت چودہ سو سال سے دعوت تو دیتی آرہی ہے .. اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا الیاس صاحب سے پہلے کسی نے دعوت نہیں دی تو اتنا عرض کرنے کی اجازت دے دیں کہ ابھی سے کشتی میں کیوں تشریف فرما ہیں ... نہ ساڑھے نو سو سال دعوت اور نہ بد دعا .. لیکن کشتی میں سواری ..


         کشتی نوح کیا ہے ؟ قرآن و سنت .. اور جو جماعت متعدد بدعات میں گرفتار ہو وہ ایسی باتوں کا سوچے بھی نہیں .. الله تعالی ہمیں حق کی اتباع نصیب فرمائے


کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا مطلب وہ نہیں جو آپ نے بیان کیا ہے کہ تبلیغی جماعت کے علاوہ نجات کی کوئی صورت نہیں بلکہ اس کا مقصد مبالغہ ہے کہ کام محنت اور نتیجے کے اعتبار سے یہ جماعت نجات دہندگی میں سب سے فائق تر ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ : لا فتى إلا علي ، تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ کوئی اور جوان ہی نہیں بلکہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جوانی کی تعریف میں مبالغہ ہی ہے بس .. یہاں بھی ایسا ہی ہے کہ یہ تعریف میں مبالغہ ہے اور کچھ نہیں ..

جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ لوگ اس قدر باریکیوں کو نہیں سمجھتے .. اب تک تو سفینہ نوح کا جو مفہوم دنیا میں عام ہے وہ ہے " نجات کا واحد ذریعہ " .. لہٰذا مذکورہ مبالغے والا مقصد عوام کے سامنے واضح نہیں وَقَالَ عَلِيٌّ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ... بخاري

      یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں سے ان کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو کرو کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور رسول کی تکذیب کی جائے ؟ ۔۔۔ مقصد یہ ہے کہ اگر تم ایسی گفتگو کرو گے جو عوام کی ذہنی سطح سے بلند ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ اس دین سے بیزار ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں اللہ اور رسول کی تکذیب پر اتر آئیں گے  ۔۔۔ 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ إِلَّا كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً .. مسلم في المقدمة

یعنی اگر آپ لوگوں سے ایسی گفتگو کریں گے جو ان کی عقلوں سے بلند ہو تو ان کو فتنوں میں مبتلا کر دیں گے ۔۔۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی نا کہ یہ خود ساختہ طریقہ جہاد اور دیگر دینی کاموں سے افضل ہے .. تو کیا یہ درست ہے ؟؟ کیونکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ " یہ طریقہ تبلیغ کشتی نوح ہے " 

خلاصہ یہ ہے کہ اگر اس کا مقصد مبالغہ ہو تب بھی یہ بات غلط اور بلا دلیل ہے نیز ان حضرات کی عملی زندگی اس توجیہ کی تردید کر رہی ہے  ۔۔۔ وہ بس اپنی اسی ترتیب کو ہی کامیابی کا راستہ سمجھ رہے ہیں  ۔۔۔ آپ ذرا سروے کرلیں مدارس کے مہتممین سے پوچھیں  تقریبا اکثر کا بیان یہی ہوگا کہ تبلیغی حضرات چندے نہیں دیتے  ۔۔۔ بے شک تبلیغی حضرات میں کچھ لوگ ہوں گے جو دیگر دینی امور کی طرف بھی توجہ دیں گے اور اہمیت بھی دیں گے لیکن اکثر حضرات کی حالت افسوسناک ہے  ۔۔۔ اور حکم اکثر پر لگتا ہے ۔۔۔ اور ایسے واقعات تو بہت زیادہ ہوگئے ہیں کہ تبلیغی حضرات پوچھتے ہیں کہ اس مدرسے میں دین کا کام ہوتا ہے کہ نہیں ؟ ۔۔۔ یا جس مدرسے میں ان کی ترتیب کے مطابق کام شروع ہو جاتا ہے تو کارگزاری میں یوں بیان کرتے ہیں کہ الحمدللہ فلاں مدرسے میں بھی دین کا کام شروع ہو گیا  ۔۔۔  یہ سب اسی کے اثرات ہی تو ہیں ۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔