* ... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ...* قسط 14 ... اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین
* ... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ...*
قسط 14
یہ قسط گزشتہ قسط سے متعلق ہے یعنی اس میں بھی " اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین " پر بات ہوگی ان شاء اللہ
گزشتہ قسط کے آخر میں ہم نے عرض کیا تھا کہ خدا نخواستہ کہیں اس امت کو جبر کی طرف تو نہیں لے جایا جا رہا ... آج اس کی تھوڑی سی تشریح کریں گے ان شاء اللہ . ... وما توفیقی الا باللہ
ایک فرقہ ہوا کرتا تھا ... جبریہ .... اس امت میں ظہور پذیر ہونے والا دوسرا فرقہ .... قدریہ کے بعد ظاہر ہوا ... اس کا خیال تھا کہ سب کچھ اللہ سے ہونے کا یقین مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ... جو کچھ ہوتا ہے اللہ سے ہوتا ہے انسان تو بےبسی کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے بس ... لاچار و بیکار .... اپنے اس باطل نظریے کو ثابت کرنے کے لئے وہ کچھ آیات کا سہارا بھی لیتے تھے مثلاً ... اانتم تزرعونه ام نحن الزارعون .... الله خالق کل شیئ ... وغیرہ وغیرہ ... اہل سنت علماء کرام نے بروقت کارروائی کرکے اس کا خاتمہ کر دیا ... مگر یہ سچ ہے کہ نظریہ کبھی نہیں مرتا ... کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہتا ہے. .. وقتاً فوقتاً سر اٹھاتا رہتا ہے ... آج جبریہ پھر سے ہمارے سامنے ہے
اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ الله تعالی ہر چیز کا خالق ہے اللہ تعالٰی نے انسان کو ارادے اور اختیار سے نوازا ہے وہ اپنے ارادے اور اختیار سے اچھے اور برے اعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ جزا و سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے ... ہمارا مشاہدہ بھی یہی بتاتا ہے کہ انسان بہت سے اعمال اپنے ارادے اور اختیار سے انجام دیتا ہے ... دیکھو شدت خوف یا شدت سردی سے انسان کے ہاتھ پاؤں کانپتے ہیں اسے ہر شخص محسوس کرسکتا ہے کہ یہ حرکات اس سے بےاختیار صادر ہو رہی ہیں اس کے نہ چاہتے ہوئے یہ حرکتیں اس سے صادر ہو رہی ہیں ... اس کے برعکس عام حالات میں انسان کی حرکتیں اس کے اختیار سے ہوتی ہیں ... دونوں حالات میں واضح فرق ہے ... اس طرح رعشے کی حالت میں صادر ہونے والی حرکت اور عام حالات میں انسان کا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا ... دونوں میں واضح فرق ہے کہ اول بلا اختیار صادر ہوتی ہے انسان بےبس و لاچار ہوتا ہے جبکہ دوسری حالت میں انسان اپنے اختیار سے سب کچھ کرتا ہے ... تو اس سے ثابت ہوا کہ انسان عام حالات میں صاحب اختیار ہے انسان سے کچھ ہونے کا یقین بلکہ بہت کچھ ہونے کا یقین ... اور اسی وجہ سے انسان اللہ تعالٰی کے احکام کا پابند ہے کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو .. اس سے اجر اور ثواب ملے گا اور اس سے گناہ اور عذاب ...
ہاں انسان کو ایک حد تک اللہ تعالٰی نے صاحب اختیار بنایا ہے اس حد کے بعد وہ لاچار و مجبور بن جاتا ہے ۔۔۔ وہ بیج ڈال سکتا ہے لیکن آگے وہ مجبور ہوتا ہے ۔۔۔ وہ شادی کرسکتا ہے .. جماع کر سکتا ہے لیکن آگے وہ مجبور ہوتا ہے ... اسی کو الله تعالی نے بیان فرمایا ہے اانتم تزرعونه ام نحن الزارعون ... الله تعالی افعال کا خالق ہے اور انسان اسے انجام دیتا ہے ... اللہ تعالٰی خالق ... انسان فاعل ، کاسب ....
معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان کے سنٹرز میں ان کے بیانات میں جب یہ " مخلوق کی نفی " کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے جبر قبر سے اٹھ کر نئے نشاط و عزم کے ساتھ سنت کے خلاف بول رہا ہے اور سنت سے انتقام لینے کے لئے پرعزم ہے. ... مخلوق کی نفی کے نام سے وہی جبریہ کا مذہب بول رہا ہوتا ہے ... وہی دلائل وہی طریقہ استدلال وہی نتائج ... یقین نہ آئے تو آپ البغدادی کی "الفرق بین الفرق " اور شہرستانی کی "الملل و النحل" ملاحظہ فرمائیں اور پھر ان کے مراکز ( سنٹرز ) میں ان کے بیانات سنیں ...
اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین .... اگر بات ایسی ہی ہے تو جھوٹے انسان نہیں .. الله جھوٹا ہے والعیاذ بالله. . . قاتل انسان نہیں الله تعالی قاتل ہے ... ظالم انسان نہیں الله تعالی ظالم ہے والعیاذ باللہ ... دھوکہ باز انسان نہیں الله ہے ... معاذ اللہ ... نقل کفر کفر نباشد ...
عجیب تضاد ہے کہ شب و روز مخلوق کی نفی مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کے یقین کا درس لیکن شب و روز مخلوق میں لت پت ... اپنا تو تجربہ یہ ہے کہ مال کی حرص جتنی ان حضرات میں ہوتی ہے اتنی دیگر لوگوں میں نہیں ہوتی ... یہ میں کوئی مخالفت کی جذبات میں بہہ کر نہیں کہہ رہا آپ اپنے آس پاس دیکھ لیں اور اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیں ... مضاربہ سکینڈل میں آپ نے دیکھا کہ شکاری اوپر سے نیچے تک سارے یا تقریباً سارے " سال لگائے ہوئے علماء " ہی تو تھے ... کوئی کچا پکا مکان ایسا نہ بچا جس میں ان حضرات کا یہ فیض نہ پہنچا ہو ...
اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ... یہ تو آپ کا قول ہے جس کی حیثیت اوپر واضح ہوچکی ... یہ تو آپ کا قول ہے لیکن افسوس کہ دل میں کچھ یوں ہے ... سہ روزے سے ہونے کا یقین ... چلے سے ہونے کا یقین ... چار مہینوں سے ہونے کا یقین ... گشتوں سے ہونے کا یقین. .. اجتماعات سے ہونے کا یقین ... جہاد سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ... خلافت سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ...
بحث میں علمی زبان آگئی .... عام مسلمانوں کے لئے کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں
تبلیغی اپنے بیٹے سے : بیٹا مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم جوا کھیلتے ہو شراب پیتے ہو فلمیں دیکھتے ہو
بیٹا : میں کیا کروں ابو میں تو مخلوق ہوں اور مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین .... یہ سب کچھ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے میں کیا کرسکتا ہوں
تبلیغی : بیٹا چار مہینے لگاو بہت فائدہ ہوگا اور امت کو اس وقت بہت سخت ضرورت ہے
بیٹا : اباجان! لگتا ہے کہ آپ کا ایمان خراب ہو گیا ہے ... دیکھیں چار مہینوں سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ... اور آپ نے چار مہینوں سے میرے فائدے کا اور میرے نکلنے سے امت کی ضرورت کو کسی حد تک پورا ہونے کا یقین کرلیا ... دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے بتایا تھا کہ ہمارا یہ کام بہت اونچا کام ہے جہاد سے بھی بہت اونچا ... جب جہاد کے لئے ہمارا ایمان نہیں بنا تو ظاہر سی بات ہے چار مہینوں کی تو گرد کے لئے بھی ہمارا ایمان نہیں بنا ...
ایک اور مثال
باپ : بیٹا دکان پر کچھ توجہ دو ہمارے مالی حالات بہت خراب ہورہے ہیں
بیٹا : بزرگ فرماتے ہیں کہ اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ... دکان سے کچھ بھی نہیں ہوتا ... تم الله کے ہو جاو الله تعالی خود تمہاری طرف سے دکان چلائے گا والعیاذ باللہ
امید ہے بات سمجھ میں آ چکی ہوگی
اللہ تعالٰی ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔
🔷 کلمے کا مقصد کیا تھا اور کیا بنا دیا گیا ؟ اور کیوں ؟ 🔷
امید ہے کہ یہ بات تو آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ انسان جس حد تک مکلف ہے اس حد تک اللہ تعالی نے انسان کو اختیار بھی دیا ہے کہ اچھا کرے یا برا کرے ۔۔۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک حد کے بعد مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ۔۔۔ ہوائیں چلانا بارش برسانا موسموں کی تبدیلی صحت و بیماری موت و حیات وغیرہ وغیرہ ایسے امور ہیں جن میں مخلوق کی نہیں چلتی ۔۔۔۔ اگر یوں کہہ دیا جائے کہ احباب کرام کا مقصد بھی یہی ہے __ تو __ عرض ہے کہ احباب کرام نے کلمے کے مقصد کو تبدیل کر دیا ۔۔۔۔ کلمے کے مقصد کو توحید الوہیت سے توحید ربوبیت کی طرف پھیر دیا ۔۔۔
سوال : توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کسے کہتے ہیں ؟
جواب : اللہ کے کاموں میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا توحید ربوبیت کہلاتا ہے ۔۔۔ مثلا اللہ ہمارا خالق ہے کوئی اور خالق نہیں ۔۔۔ اللہ ہمارا مالک ہے کوئی اور مالک نہیں ۔۔۔ اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا کوئی اور اس میں شریک نہیں ۔۔۔ اللہ ہمارا رازق ہے کوئی اور نہیں ۔۔۔ اللہ ہی اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے کوئی اور اس کے ساتھ شریک نہیں ۔۔۔ تو جو اللہ کے کام ہیں ان میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا توحید ربوبیت کہلاتا ہے ۔۔۔ جیسے کامیابی ناکامی ، اولاد دینا نہ دینا ، مارنا جلانا ، صحت بیماری ، پیدا کرنا رزق دینا بارش برسانا ہوائیں چلانا وغیرہ وغیرہ یہ اللہ کے کام ہیں
توحید الوہیت یہ ہے کہ جو انسان کے کام ہیں انسان کی طرف سے جو عبادت ہے اس میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے ۔۔۔۔۔ اس کو توحید عبادت بھی کہتے ہیں ۔۔۔ جیسے نماز پڑھنا روزہ رکھنا کسی کے سامنے جھکنا پیشانی زمین پر رکھنا کسی کے گھر کے گرد طواف کرنا ، کسی کے نام جانور ذبح کرنا ، مال میں کسی کے نام کا حصہ کرنا ، کسی کا قانون ماننا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ان میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا توحید الوہیت کہلاتا ہے ۔۔۔ یعنی توحید الوہیت یہ ہے کہ نماز صرف اللہ کے لئے پڑھی جائے کسی اور کے لئے نہیں ۔۔۔ سجدہ صرف اللہ کے لئے کیا جائے کسی اور کے لئے نہیں ۔۔۔ زکوۃ صرف اللہ کے نام پر دی جائے کسی اور کے نام پر نہیں ۔۔۔ نذر صرف اللہ کے لئے ہو کسی اور کے لئے نہیں ۔۔۔ صرف اللہ کے گھر کے گرد طواف کیا جائے کسی اور کے گھر یا کمرے یا قبر کے گرد نہیں ۔۔۔ ما فوق الاسباب خوف صرف اللہ سے کیا جائے کسی اور سے نہیں ۔۔۔ مافوق الاسباب امید صرف اللہ سے رکھی جائے کسی اور سے نہیں ۔۔۔ مافوق الاسباب مدد صرف اللہ سے مانگی جائے کسی اور سے نہیں ۔۔۔ قانون صرف اللہ کا مانا جائے کسی اور کا نہیں ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہ ہے توحید عبادت ۔۔۔ یہ ہے توحید الوہیت ۔۔۔ یہ ہے کلمے کا مقصد اور اسی کے لئے انبیائے کرام کو مبعوث کیا گیا ۔۔۔
یعنی نبی کو اس لئے مبعوث نہیں کیا گیا کہ جاؤ ابو جہل کو کہہ دو کہ اللہ ہمارا خالق ہے اللہ ہمارا مالک ہے اللہ ہمارا رازق ہے کوئی اور نہیں ۔۔۔ یہ تو ابو جہل اور دیگر مشرکین پہلے سے مانتے تھے ۔۔۔۔ یعنی وہ توحید ربوبیت کے قائل تھے ۔۔۔ توحید ربوبیت کا انکار تو حضرت نوح علیہ السلام کے دور کے مشرکین سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے مشرکین تک کسی نے نہیں کیا ۔۔۔ انہیں تو توحید الوہیت کی طرف بلایا گیا جس کا انہوں نے انکار کیا ۔۔۔ کلمہ " لا رب الا اللہ " نہیں ، بلکہ لا الہ الا اللہ ہے ۔۔۔۔ انہیں یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ کو خالق مالک رازق مانو ۔۔۔ بلکہ یہ کہا گیا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک نہ کرو ۔۔۔ لا الہ الا اللہ ۔۔۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔۔۔ اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکو ۔۔۔ اللہ کے سوا کسی سے مدد نہ مانگو ۔۔۔ اللہ کے سوا کسی کے نام جانور ذبح نہ کرو ۔۔۔ اللہ کے سوا کسی کی نذر نہ مانو ۔۔۔ اللہ کے سوا کسی کے لئے طوافِ نہ کرو ۔۔۔ اللہ کے سوا کسی کا قانون نہ مانو ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ان میں سے کوئی بھی کام کیا تو شرک ہوگا جو کہ ناقابل معافی ہے ۔۔۔ تو یہ تھا کلمے کا مقصد ، اس میں طاغوت کا انکار تھا ۔۔۔ اسی کی وجہ سے ہر نبی سے دشمنی کی گئی ۔۔۔ اسی کا مشرکین انکار کرتے تھے ۔۔۔ اس میں طاغوت کا انکار تھا جس کا راستہ جہاد کی طرف نکلتا تھا اس لئے تبلیغی حضرات نے بڑی مہارت کے ساتھ کلمے کے مقصد کے نام پر کلمے کے مقصد کو پھیر دیا ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں طاغوت کا ذکر نہیں آتا حالانکہ ان کے چھ نمبروں میں پہلا نمبر کلمے کا ہے ۔۔۔ تو انہوں نے توحید الوہیت سے لوگوں کو پھیر کر توحید ربوبیت پر لگا دیا جس کا انکار مشرکین مکہ بھی نہیں کرتے تھے ۔۔۔ اسی لئے وہ طوطے کی طرح رٹا رٹایا سناتے رہتے ہیں کہ اللہ ہمارا خالق ہے ہمارا مالک ہے ہمارا رازق ہے ۔۔۔
اگر وہ کلمے کے اصل مقصد یعنی توحید الوہیت کی طرف آتے تو معاملہ مکمل برعکس ہوتا ۔۔۔ نہ تو تبلیغی جماعت دنیا بھر کے لئے قابل برداشت ہوتی ۔۔۔ نہ ہر جگہ ان کے یہ بڑے بڑے مراکز ہوتے ۔۔۔ نہ یہ اجتماعات ہوتے اور نہ یہ آزادانہ چلت پھرت ہوتی ۔۔۔ کیونکہ پھر تو لوگ طاغوت کو پہچان جاتے ۔۔۔ غیر اللہ کے قانون سے انکار کرتے ۔۔۔ پھر تو معاملہ ہی کچھ اور ہوتا ۔۔۔ جہاد کی فضا بنتی ۔۔۔ خلافت کی بات ہوتی ۔۔۔ لیکن بڑی مہارت کے ساتھ جی ہاں بڑی مہارت کے ساتھ کلمے کی محنت کرنے والوں نے کلمے کے مقصد کو کلمے کے مقصد کے نام پر بدل دیا ۔۔۔ اور یہ کاروائی ہاتھ کی اتنی صفائی کے ساتھ کی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔۔۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
اگر غور کرو تو اس جملے " اللہ سے سب کچھ ہونے اور مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین " سے وحدت الوجود کی بو بھی آ رہی ہے ۔۔۔ اگر اس کی تشریح میں جاؤں گا تو بات بہت لمبی ہو جائے گی لیکن امید ہے کہ علماء سمجھ چکے ہوں گے ۔۔۔
خلاصہ یہ ہے کہ احباب کرام نے ایک ایسا جملہ ایجاد فرمایا ہے جس سے نہ صرف جبر و اختیار کا باریک کلامی مسئلہ نکلتا ہے بلکہ اس نے کلمے کے مقصد کو بھی توحید الوہیت سے توحید ربوبیت کی طرف پھیر دیا تاکہ جہاد کی طرف جانے والے تمام راستے بند کئے جائیں ۔۔۔ اور اس میں وحدت الوجود کا خطرناک نظریہ بھی چھپا ہوا ہے ۔۔۔ تو ایک تیر سے تین شکار کئے ہیں احبابِ کرام نے ۔۔۔اپنے ایمان کا خیال رکھۓ
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔