* ... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ... * قسط 13 ... اللہ تعالٰی سے سب کچھ ہونے کا یقین
* ... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ... *
قسط 13
🔷 کلمے کا مقصد کیا ہے ؟ ۔۔۔
احباب کرام کا مشہور ترین جملہ جسے روزانہ بیانات میں سنتے سناتے ہیں یہ ہے
( اللہ تعالٰی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آ جائے )
یہ کس فرقے کا نظریہ ہے اور اس پر احباب کیسے عمل کرتے ہیں ؟
کلمے کا اصل مقصد کیا ہے اور اس نئے مقصد کی طرف پھیرنے کے پیچھے کونسا مقصد کارفرما ہے ؟
ان باتوں پر تو ہم بعد میں بحث کریں گے ان شاء اللہ تعالی ۔۔۔ پہلے ہم کچھ غیر مربوط اور سادہ سی باتیں کرتے ہیں ۔۔۔
بھائی ! اس کا سیدھا سادہ علاج یہ ہے کہ ان تبلیغی اکابر کو ہمارے سامنے کھڑا کیا جائے اور ہمیں ایک عدد اعلیٰ نئی نویلی کلاشنکوف دے دی جائے اور پھر دنیا دیکھے کہ مخلوق سے کچھ ہوتا ہے کہ نہیں ... اگر کوئی کہے کہ وہ ایسا کیونکر کرسکتے ہیں یہ تو خود کشی ہے تو جواب یہ ہے کہ یہ ان کے لئے خود کشی اس لئے نہیں کہ ان کا تو یقین بن چکا ہے کہ مخلوق سے کچھ بھی نہیں ہوتا ... اگر ابهی تک یہ یقین نہیں بنا تو وہ اسی کے قابل ہیں ... بهئی ایسی چیز کے پیچھے کیوں بھاگتے ہو جو کبھی ہاتھ آ نہیں سکتی ... کیا ایسی چیز کا اللہ تعالٰی ہمیں مکلف کرسکتے ہیں جس کا حصول اتنا مشکل ہو ؟؟؟ ... اگر ان حضرات کا ابھی تک یقین نہیں بنا تو اوروں کا کیا حال ہوگا ۔۔۔
بھائی ! ہمارا تو مخلوق سے بہت کچھ ہونے کا یقین ہے اور یہ یقین اس لئے ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس دنیا کو پیدا ہی کچھ اس طرح کیا ہے کہ اس میں مخلوق سے بہت کچھ ہوگا .... ہمارا یقین ہے کہ کھانا بھوک کو مٹاتا ہے ... پینا پیاس کو بجهاتا ہے ... سونا بدن کی تازگی اور نشاط و قوت کا باعث ہے ... اس طرح ہزاروں مخلوقات کے بارے میں ہمارا آپ کا اور پوری انسانیت کا یقین ہے کہ ہر مخلوق سے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے ... اس کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ ان مخلوقات میں یہ خصوصیات الله تعالی کی پیدا کی ہوئی ہیں ... الله تعالی نے آگ میں جلانے کی خصوصیت پیدا فرمائی ہے یقین نہیں آتا تو ہاتھ لگا کر دیکھ لیں بےشک آپ اس سے پہلے سورہ یس بھی پڑھ لیں ... الله تعالی نے اسلحے میں قتل کرنے اور زخمی کرنے کی صلاحیت رکھی ہے یقین نہیں آتا تو اپنے سر میں پستول کی ایک چھوٹی سی گولی مار کر دیکھ لیں بےشک آپ اس سے پہلے کچھ نوافل دم درود اور مراقبے وغیرہ کر لیں ... اسی طرح دکان سے بھی کچھ ہوتا ہے جیسا کہ کهلی آنکھوں نظر آرہا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے محنت میں یہ برکت رکھی ہے کہ اس سے کچھ ہوگا ... اس طرح مخلوق اور اسباب سے کچھ ہونا اللہ تعالٰی کی سنت ہے اور اسی پر یہ دنیا قائم ہے ...
اگر کوئی شخص کهانا پینا چھوڑ دے یہاں تک کہ مر جائے تو وہ اللہ تعالٰی کے دین میں گناہ گار ہے ... گناہ گار کیوں ہے ؟ بهائی ! شریعت اس سے کہتی ہے کہ اگر تم کھاتے پیتے تو نہ مرتے اب تم نے کهانا پینا چھوڑ کر خود کو مار دیا ... دیکھو یہاں شریعت ہمیں مخلوق ( کھانے پینے ) سے کچھ ہونے ( زندگی کا سبب بننے ) کا یقین دلا رہی ہے اور اسی یقین کی بنیاد پر گناہ گار ہونے کا حکم لگا رہی ہے ... ہر انسان پر اتنا کهانا پینا فرض ہے جس سے وہ زندہ رہے ... اس سے معلوم ہوا کہ کھانے پینے میں زندگی اور چھوڑنے میں موت کا یقین ہے اور "چھوڑنا " بھی مخلوق ہے ...
اگر کوئی شخص شیر کے سامنے آئے اور وہ اسے مار دے تو گناہ گار ہوگا ... کیونکہ شیر میں قتل کرنے کی یہ صلاحیت الله تعالی نے رکھی ہے ...
یہ جو جہاد کے لئے اللہ تعالی نے ہمیں قوت و شوکت تیار رکھنے کا حکم دیا ہے ( واعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل ترهبون به عدو الله وعدوكم ) تو اس کا مطلب کیا یہ نہیں ہے کہ اسلحے اور قوت سے دشمن کو دہشت زدہ رکھنے کا یقین ؟ یہ اس لئے نہیں کہ اسلحہ بذات خود کچھ ہے بلکہ اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے اس میں یہی صفت رکھی ہے ... اگر امت اسلحے اور قوت کی تیاری کو چھوڑتی ہے تو گناہ گار ٹهہرتی ہے ... الله تعالی تو ہمارے کچھ کرنے کے محتاج ہرگز نہیں وہ تو بغیر کچھ کئے بهی ہماری مدد کر سکتے ہیں لیکن یہ الله تعالی کی سنت ہرگز نہیں ... لہٰذا تمہارا یہ کہنا کہ تم الله کے ہو جاو الله تعالی تمہاری طرف سے خود لڑے گا تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی تمہارا یہ کہنا اللہ تعالٰی کے دین کے ساتھ مذاق ہے ... رسول الله صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر بہتان ہے کہ وہ اللہ کے نہیں تھے کیونکہ انہیں تو بہت کچھ کرنا پڑا تھا ... زخم .... لاشیں ... ڈر ، خوف ... خندقیں کھودنا ... تربیت شمشیر زنی نشانہ بازی ... لڑائیاں وغیرہ وغیرہ
🖍️ اگر مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ہے تو اللہ تعالی جہنم میں کیوں ڈالتے ہیں ؟ پھر اللہ تعالی نے انسان کو اپنے احکام کا پابند کیوں بنایا ہے ؟ اگر مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ہے تو پھر کفر مخلوق نے نہیں کیا بلکہ العیاذ باللہ ، اللہ تعالی نے کیا ہے ۔۔۔ پھر جتنے بھی گناہ ہیں خالق کے کھاتے میں جاتے ہیں ۔۔۔ پھر تو _ العیاذ باللہ _ اللہ تعالی ظالم ہیں کہ ایسی مخلوق کو سخت اور ہمیشہ کا عذاب دینگے جس مخلوق سے کچھ بھی نہ ہوتا تھا ۔۔۔
یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ ان کے کچھ لوگوں نے کچھ عرصے سے اس جملے میں اضافہ کیا ہے کہ الله کے ارادے کے بغیر مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ : جب ارادہ بھی اللہ تعالیٰ کا تھا ، مخلوق سے ہوتا بھی کچھ نہیں تھا پھر عذاب کیوں ؟؟؟ __ پس اس اضافے سے بھی بات نہیں بنتی ۔۔۔۔ اس سے مزید پھنسیں گے ۔۔۔ جب اپنی طرف سے دین بنائیں گے تو یہی حال ہوگا ۔۔۔ آخر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین عظام اور دیگر ائمہ مجتہدین سے ہٹ کر تعبیرات کیوں اختیار کرتے ہو ؟ ۔۔۔ کیوں امت سے الگ رہا اختیار کرتے ہو ؟ ۔۔۔ سوائے اس کے بعد بنتی نہیں کہ مخلوق کو فاعل مختار تسلیم کیا جائے ۔۔۔ ہاں ! یہی اللہ تعالی کا ارادہ ہے ۔۔۔ اللہ تعالی نے اس دنیا کو دارالامتحان بنایا ہے ۔۔۔ جو اچھا کرے گا اس کو آخرت میں اچھا بدلہ ملے گا اور جو برا کرے گا اس کو آخرت میں برا بدلہ ملے گا ۔۔۔ اور یہ امتحان اس وقت امتحان بنے گا جب مخلوق کو کچھ نہ کچھ کرنے کا اختیار ہو ۔۔۔ اگر کچھ بھی اختیار نہ ہو تو پھر یہ امتحان ، امتحان نہیں ۔۔۔ پھر اللہ تعالیٰ عدل نہیں ، ظالم ہے والعیاذ باللہ ۔۔۔
ایک اور ضروری وضاحت : ایک ہے اللہ تعالٰی کی سنت .. دستور .. عادت ، اور ایک ہے اللہ تعالٰی کا اپنے دستور سنت اور عادت کے برعکس کسی چیز کا ظاہر کرنا ؛ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ کا نہ جلانا، پانی کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو راستہ دینا وغیرہ وغیرہ تو اسے عربی میں "خرق عادت" کہتے ہیں انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوں تو معجزہ ؛ اولیاء کے ہاتھوں پر ظاہر ہوں تو کرامت ... یاد رکھیں کہ دنیا کا یہ نظام اللہ تعالٰی کی سنت کے مطابق چلتا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسباب اختیار کروگے تو نتائج حاصل ہوں گے ترقی کے اسباب اختیار کروگے تو ترقی ، تنزل کے اسباب اختیار کرو گے تو تنزل ... اس میں مسلم و کافر کا بھی فرق نہیں ... الله تعالی کے یہ قوانین سب کے لئے ہیں. ... اور رہی دوسری بات یعنی اپنے دستور کے برعکس کسی چیز کا ظاہر کرنا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ کا نہ جلانا وغیرہ تو معجزات و کرامات حق ہیں پر دلیل نہیں ہیں ۔۔۔ یعنی کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ معجزات و کرامات پر تکیہ کر کے بیٹھ جائے کہ چونکہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے لہذا ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا .. ایسی کوئی دعوت رسول اللہ صلی الله عليه وسلم ، صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنہم نے نہیں دی کہ خود کو ایسا بنا لو کہ تمہارے ہاتھوں کرامات ظاہر ہوں ... یہ لوگ ایمان و یقین پر یہ ذہن دیتے ہیں کہ محنت کرتے کرتے بندے کو ایمان و یقین کی وہ سطح بھی مل جاتی ہے جب وہ کرامات ماسٹر بن جاتا ہے .. گو الفاظ یہ نہیں ہوتے لیکن یہ مفہوم ان کے ہر بیان میں مختلف الفاظ میں بولتا رہتا ہے .. نہ تو اپنا اور نہ ہی اوروں کا یہ ذہن بنانا درست ہے ...
اس پر ایک سچا لطیفہ بھی سنتے جائیں ایک مرکز میں ایک دفعہ جنریٹر کا تیل ختم ہو گیا ایک حضرت نے فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین دو رکعت پڑھ کر الله تعالی سے مردے زندہ کروا لیا کرتے تھے ہم ایک جنریٹر نہیں چلوا سکتے ؟؟ دو رکعت پڑهو اور پانی ڈال کر دیکھو جو الله اسے تیل سے چلا سکتا ہے وہ اللہ اسے پانی سے بهی چلا سکتا ہے ... نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا دھوئیں کا ایک مرغولہ اٹھا اور حضرات کو جنریٹر سے ہاتھ دهونے پڑے اس پر موصوف نے فرمايا کہ ابھی ہمارا ایمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جیسا نہیں بنا ... مطلب یہ کہ حماقت کے بعد جہالت کی تعلیم ... اس واقعے کی میں نے کئی حضرات سے تصدیق کروائی ہے ...
اس دنیا کو الله تعالی نے ایسے بنایا ہے کہ یہ اسباب کے بغیر چلتی نہیں لیکن اس میں وقتاً فوقتاً تقدیر ، تدبیر کو الٹتی بهی رہتی ہے اس لئے ہم ہر وقت الله تعالی کے محتاج ہیں دعا کا رشتہ ہاتھ سے نہیں جانا چاہئے .... انبیاء و صحابہ نے اسباب کو نہ صرف اختیار کیا ہے بلکہ اس کو ایک درجے میں ضروری بھی سمجھا ہے ... اور ان حضرات کی زندگیوں میں یہ چیز واضح طور پر نظر آتی ہے ...
یہاں ایک اور لطیفہ بھی سنیں ان کے ایک بزرگ صاحب سے کسی نے پوچھا کہ کیا بریلویوں کے پیچھے نماز ہوتی ہے ؟ فرمایا کیوں نہیں ہوتی ۔۔۔ ہم ان سے بڑے مشرک ہیں کیا ہمارا اسباب پر یقین نہیں ہے ؟ کیا ہم مخلوق سے ہونے کا یقین نہیں رکھتے ؟ ... لو بهائی سنبھالو اب ... بات یہاں تک پہنچ گئی ہے ... حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور اس سے بھی زیادہ حیرت علماء کرام کے سکوت پر ہے ... الله تعالی رحم فرمائے ... کیا یہ لوگ قرآن مجید حدیث اور سیرت نہیں پڑھتے ؟؟؟ کیا ان کا یہ مبہم قسم کا نظریہ قدم قدم پر سیرت سے ٹکراتا نہیں ؟؟؟
💠 علماء کرام کے لئے قابل غور 💠
یہاں علماء کرام کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ مذکورہ جملہ " اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین " اس جماعت کے علاوہ کہیں اور کیوں نہیں پایا جاتا ؟؟؟ کیا اس جماعت کے وجود میں آنے سے پہلے یہ جملہ کہیں پایا جاتا ہے ؟؟؟ اور اس جماعت کے وجود میں آنے کے بعد کیا دیگر علماء کرام و مشایخ کے ہاں پایا جاتا ہے ؟؟؟ خدانخواستہ اس امت کو جبر کی طرف تو نہیں لے جایا جا رہا ؟؟؟ یہ کلمے کا مفہوم یا مقصد کب سے بنا ؟ کیا کلمہ صرف یہی جماعت لے کر آئی ہے ؟
ان حضرات کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ سہ روزہ چلہ چار مہینے سات ماہ سال گشت بیانات اجتماعات مرکز بسترے سب مخلوق ہیں ... آپ جس بیان میں یہ کہتے ہیں کہ "مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین" وہ بیان بھی مخلوق ہوتا ہے ...
اللہ تعالٰی ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔
بحث ابھی باقی ہے باقی بحث ان شاء اللہ تعالی آئندہ قسط میں ۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔