Saturday, 6 June 2020

... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟... قسط 12 ۔۔۔ تبلیغ کا حکم

... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟...*

قسط 12

♥ کیا تبلیغ فرض ہے ؟ ♥

      
احبابِ کرام کی کرم فرمائیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی اس موجودہ ترتیب والی تبلیغ کو فرض قرار
 دیتے ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ دلیل بیان کرتے ہیں ۔۔۔
لیجئے احباب کا دعوٰی اور دلیل ۔۔۔  پڑھ لیجئے ⬇
 احباب فرماتے ہیں کہ : لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ تبلیغ فرض ہے واجب ہے یا سنت .... ارے بھائی یہ تو سیدھی سی بات ہے اگر فرض چھوٹ رہے ہوں تو تبلیغ فرض ہے اور اگر واجب چھوٹ رہے ہوں تو تبلیغ واجب، اگر سنتیں چھوٹ رہی ہوں تو تبلیغ سنت ... بتاو نماز فرض ہے کہ نہیں ، نوے فیصد امت نماز نہیں پڑهتی تو اب بتاؤ تبلیغ فرض ہے کہ نہیں 
جواب :
یہ قرآن کی کوئی آیت نہیں ، کوئی حدیث نہیں ، ائمہ اربعہ کی فقہ کا کوئی اصول نہیں یہ خالص میڈ ان رائیونڈ ہے. ..
اچھا جی ! اگر یہی مروجہ تبلیغ فرض ہے تو ذرا یہ بتائیں کہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کا کیا حکم ہے جس نے نہ چلہ لگایا نہ چار مہینے نہ سال
مولانا الیاس صاحب سے پہلے مسلمین کا کیا حکم ہے ؟
مولانا الیاس صاحب  کے بعد سے لے کر اب تک ان علماء کرام اور عام مسلمین کا کیا حکم ہے جو اب تک اس جماعت میں نہیں گئے؟ کیا یہ سارے علماء کرام تارکینِ فرض ہیں ؟
نہیں نا ! تو سب سے پہلے تو اس بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ علماء کرام تبلیغ کرتے ہیں اگرچہ وہ مولانا الیاس صاحب کی ترتیب عرف تبلیغی جماعت میں نہیں چلتے .... الیاسی ترتیب کے علاوہ بھی تبلیغ ہوتی ہے ... تحریر سے ... تقریر سے ... وعظ و نصیحت سے .. فتوے سے ... تدریس سے ... .. اگر یہ تسلیم نہیں کروگے تو علماء امت کو فرض کا تارک کہنا پڑے گا ... ودونه خرط القتاد
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ تبلیغ کا کیا حکم ہے ... تو میرے بهائیو دوستو اور بزرگو! اس کے بارے میں کوئی لگا بندها قانون نہیں بتایا جاسکتا ... تحقیقی بات یہ ہے کہ تبلیغ کا حکم ؛ حالات , زمانے اور افراد کے بدلنے سے بدلتا رہتا ہے ... تبلیغ کبھی فرض ہوتی ہے تو کبھی سنت اور مستحب ... مسائل کے بدلنے سے بھی حکم بدل جاتا ہے ... یعنی بعض مسائل کی تبلیغ فرض ہوتی ہے اور بعض کی مستحب ... فرض کریں ایک شخص کے بارے میں آپ کو معلوم ہوگیا کہ اسے اس بات کا علم نہیں کہ احتلام سے غسل فرض ہوجاتا ہے تو اس شخص کو یہی مسئلہ بتانا آپ پر فرض ہوگیا ... اس طرح اگر آپ کو کسی مالدار کے بارے میں میں معلوم ہو گیا کہ اسے زکوٰۃ کے مسائل کا علم نہیں تو آپ پر کم از کم اتنا بتانا اسے فرض ہے کہ بهائی آپ صاحب نصاب ہیں اب آپ پر زکوٰۃ کے مسائل کا علم حاصل کرنا فرض ہے ... جبکہ یہی بات ایک غریب مسلمان کو بتانا آپ پر فرض نہیں ... اس طرح بعض مسائل کی تبلیغ بعض علماء پر فرض عین ہوجاتی ہے. .. جیسے آج کل مسائل جہاد کی تبلیغ ... کہ یار لوگوں نے مسائل جہاد کو کافی غبار آلود کردیا ہے ... خود ساختہ شرائط خود ساختہ تاویلات ... علماء سلاطین شبانہ روز محنت سے مزید غبار اڑا رہے ہیں ... ایسے میں ان علماء راسخین کا فرض ہے کہ اپنی وسعت بهر محنت کرکے مسائل جہاد مسائل خلافت کو خوب منقح کرکے امت کے سامنے پیش کریں جن کے علاوہ کوئی اور اس میدان میں نہیں اور جو ہیں وہ یا تو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں یا ڈر رہے ہیں یا وہ سرکاری ہیں ... اسی طرح اگر کوئی فتنہ اٹھے اور اس کی گمراہی کسی ایک یا چند محدود علماء کو معلوم ہو تو اس فتنے کا علمی تعاقب اس عالم یا ان چند علماء پر فرض ہوجاتا ہے ... حالانکہ عام حالات میں عام فتنوں کی تردید کی تبلیغ فرض نہیں ہوتی جب عوام میں ان فتنوں سے متعلق مناسب حد تک شعور آچکا ہو
خلاصہ یہ ہے کہ تبلیغ کا کوئی ایک حکم نہیں ... حالات اشخاص اور مسائل کے مختلف ہونے سے حکم مختلف ہوتا رہتا ہے  ۔۔ بہرحال حکم جو بھی ہو ، تبلیغ کا ہوگا تبلیغی جماعت کا نہیں ہوگا 
      اب اسی نماز والی مثال کو لیتے ہیں .... فرض کریں کہ لاہور شہر میں نوے فیصد لوگ نماز نہیں پڑھتے ... تو سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ نماز فرض ہے ؟ ظاہر ہے جانتے ہیں لیکن پڑھتے نہیں ... جب حالت یہ ہے تو ان کو تبلیغ فرض نہیں. ... مستحسن ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن خود ساختہ اصولوں کے تحت خود ساختہ فتوے دے کر امت کو گمراہ نہ کیا جائے ... ويلكم لا تفتروا على الله كذباً فيسحتكم بعذاب، وقد خاب من افترى. ....
      الله کے لئے خود پر رحم کرو اور اس امت پر رحم کرو ... کروڑوں میں تمہاری تعداد ہونے جا رہی ہے لیکن آج تک تم سے کوئی ایک دارالافتاء قائم نہ ہو سکا اور اس پر یہ غرور کہ تم جیسا کوئی نہیں. .. فضائل اعمال حیاۃ الصحابہ منتخب احادیث اور ایک دو کتابوں کے علاوہ آج تک تم نے کوئی کتاب نہیں چھاپی یہاں تک کہ خود امیر جماعت مولانا یوسف صاحب کی امانی الاحبار کب سے طباعت کی راہ تک رہی ہے لیکن حدیث تفسیر وغیرہ کی کتابیں چھاپنا دین کہاں ہے دین تو بس یہی ترتیب ہے جو ہو رہی ہے. ... لیکن ان تمام باتوں کے باوجود تم جیسا کوئی نہیں ...
⏺️ بغیر علم کے فتوے ⏺️
الله کے بندو ! خود پر رحم کرو اور اس امت پر رحم کرو ... فتوے کے معاملے میں الله تعالی سے ڈرو ... بغیر علم کے فتویٰ دینا کبیرہ گناہ ہے. ...
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ
سورة الأعراف الاية رقم 33
ترجمہ : 
 کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے تو صرف ( ان باتوں ) کو حرام قرار دیا ہے کھلی اور چھپی ہوئی بے حیائی کی باتوں کو ، گناہ کو ، ناحق ظلم کرنے کو ، ﷲ کے ساتھ کسی کے شریک ٹھہرانے کو --- جس پر اﷲ نے کوئی سند نہیں اُتاری ہے --- اور یہ کہ تم بغیر علم کے اللہ پر جھوٹی باتیں بیان کرو ۔۔۔ 
      اس آیت میں اللہ تعالی نے بغیر علم کے فتوے دینے کو شرک کے ساتھ ذکر کرکے اس کی قباحت خوب واضح کی ہے
إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاء وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ 
سورة البقرة الاية رقم 169
ترجمہ : 
بے شک شیطان تم کو محض برائی ، بے حیائی اور اﷲ پر ایسی باتیں گھڑنے کا حکم دیتا ہے ، جسے تم جانتے تک نہیں ۔ 
     اس آیت میں اللہ تعالٰی نے شیطان کے تین پسندیدہ کاموں کے بارے میں بتایا جن کا وہ حکم دیتا ہے ... برائی ... بےحیائی اور بغیر علم کے فتویٰ دینا ...
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِي دِينِكُمْ وَلاَ تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ إِلاَّ الْحَقِّ
سورة النساء الاية رقم 171
ترجمہ : 
اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اﷲ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو ، 
      اس آیت میں بنی اسرائیل کو غلو فی الدین اور الله تعالى تعالى کی طرف غلط منسوب کرنے سے روکا گیا ہے .. واضح رہے کہ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کی طرف کسی غلط بات کی نسبت بهی اسی میں داخل ہے
قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ
سورة يونس الاية رقم 69
ترجمہ :
آپ کہہ دیجئے : بے شک جو لوگ اﷲ پر جھوٹ گھڑتے ہیں ، وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔
      اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ بغیر علم کے فتوے دینے والے کامیاب نہیں ہوسکتے تو میرے بهائیو دوستو اور بزرگو! پوری پوری کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ خود ساختہ فتووں سے اجتناب کیا جائے...
وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
سورة العنكبوت الاية رقم 13
ترجمہ : 
البتہ یہ لوگ اپنے ( گناہوں ) کا بوجھ اور اپنے بوجھ کے ساتھ ساتھ ( دوسروں کے گناہوں کے) بوجھ بھی اُٹھائے ہوئے ہوں گے ، اور یہ لوگ جو جھوٹی باتیں بنایا کرتے تھے ، قیامت کے دن اُن سے اس کے بارے میں پوچھ ہوگی ۔۔۔ 
      بغير علم کے فتووں پر چلنے کی وجہ سے جو لوگ گمراہ ہوں گے ان کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا .. اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لوگ آزاد ہو جائیں گے .. اپنی گمراہی کا بوجھ تو ان کو اٹھانا ہی پڑے گا لیکن ان کی گمراہی جتنا بوجھ وہ لوگ بھی اٹھائیں گے جو اس گمراہی کے سبب بنے ہیں
لِيَحْمِلُواْ أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلاَ سَاء مَا يَزِرُونَ
سورة النحل الاية رقم 25
ترجمہ :
اس کا نتیجہ ہے کہ قیامت کے دن اپنے گناہوں کا بھی پورا پورا بوجھ اُٹھائیں گے اور ان لوگوں کے گناہوں کا بھی ، جن کو بلا تحقیق گمراہ کررہے ہیں ، سن لو ! جو بوجھ وہ اُٹھارہے ہیں ، وہ بہت ہی بُرا ہے 
اس آیت نے گزشتہ آیت کی وضاحت کر دی ہے
وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً
سورة الإسراء الاية رقم 36
ترجمہ :
اور تم کو جس بات کی تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑ جایا کرو ، یقیناً کان ، آنکھ اور دل ، انسان سے اِن سب کے بارے میں پوچھ ہوگی ۔ 
     اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جس بات کا علم نہیں اس کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے کان آنکھ اور دل کے بارے میں پوچھا جاۓگا. ...
⏹️ فتوے بارے صحابہ کرام کا اسوہ ⏹️
        حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میری ایک سو بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ملاقات ہوئی ہے ہر ایک کی حالت یہ تھی کہ جب کبھی ان سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو ان کی خواہش یہ ہوتی کہ ان کا کوئی بهائی ان کی طرف سے کافی ہوجاتا ... یعنی ان سے پوچھا جاتا اور میری ضرورت ہی نہ پڑتی ...
     خلاصہ یہ ہے کہ تبلیغ کے کام میں اللہ تعالی نے وسعت دی ہے درس و تدریس تصنیف و تالیف جہاد و قتال وعظ و نصیحت سب تبلیغ کی شکلیں ہیں اسے کسی خاص شکل میں محدود نہیں کیا جاسکتا ... تبلیغ کا حکم حالات زمانے اور افراد کے بدلنے سے بدلتا رہتا ہے ... حکم جو بھی ہوگا وہ تبلیغ کا حکم ہوگا وہ الیاسی ترتیب عرف تبلیغی جماعت کا حکم نہیں ہوگا اور جو تبلیغ کو اسی خاص جماعت کے ساتھ محدود کرے گا وہ دین میں دخل اندازی کا مرتکب قرار پائے گا جو کبیرہ گناہ اور سنگین جرم ہے  ۔۔۔ 
           ♦ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ♦
       احکام کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو اپنے مفہوم و مصداق میں وسعت کی گنجائش نہیں رکھتے جیسے جہاد کہ یہ قتال اور قتال سے متعلق امور کے ساتھ خاص ہے باقی کسی کوشش کو جہاد نہیں کہتے ، جہاد ، قتال و متعلقات قتال تک محدود ہے بند ہے اسے کھولنا یعنی عام کرنا جائز نہیں کہ غیر قتالی امور کو جہاد کہہ دیا جائے   ۔۔۔ دوسری قسم کے احکام عام ہوتے ہیں جیسے تبلیغ ، جو کسی خاص صورت کے ساتھ مخصوص نہیں ، کوئی کسی بھی طرح ادا کرے ادا ہو جاتی ہے ۔۔۔ کوئی کتاب لکھے ، خط لکھے ، تقریر کرے ۔۔۔ کال کرے یا کسی طرح میسج بھیجے ۔۔۔ الغرض جیسے بھی ہو بات پہنچائے تبلیغ ہوگئی ۔۔۔ اب جو احکام عام ہیں ان کو خاص کرنا جائز نہیں اور جو خاص ہیں ان کو عام کرنا جائز نہیں  ۔۔۔ لیکن احباب کرام کی کرم فرمائیاں ملاحظہ فرمائیں کہ جہاد کے مفہوم کو عام کر دیا حالانکہ اس کا عام کرنا جائز نہیں تھا  ۔۔۔ جہاد کے عمل کو تو عام کر دیا جائے گا لیکن جہاد کے مفہوم کو خاص رکھا جائے گا  __ تبلیغ کو خاص کر دیا کہ ان کی ترتیب ہی تبلیغ ہے حالانکہ تبلیغ کے مفہوم کو خاص کرنا جائز نہیں تھا  ۔۔۔۔ تو جس مفہوم کو عام رکھنا تھا اسے خاص کر دیا اور جس مفہوم کو خاص رکھنا تھا اسے عام کر دیا اسے کہتے ہیں دین کو تبدیل کر دینا  ۔۔۔ اور یہ بھی کیا اتفاقی طور پر ہو گیا ؟؟؟ گزشتہ کئی اقساط میں ہم اس کی طرف توجہ دلا چکے ہیں کہ کیا یہ سب کچھ اتفاقی طور پر ہو رہا ہے ؟؟؟ 
     سوال : اس کا کیا نقصان ہے کہ خاص کو عام کر دیا اور عام کو خاص کر دیا ؟
     جواب : اس کا نقصان یہ ہے کہ اب لوگ ہر کوشش کو جہاد سمجھیں گے اور جہاد کے فضائل وہاں پر فٹ کریں گے جس کی وجہ سے جہاد کی طرف رغبت نہیں ہوگی ۔۔۔ اس سے جہاد کو نقصان ہوگا  ۔۔۔ اور اس کارروائی کے پیچھے یہی مقصد کارفرما ہے 
      ❤️ احبابِ کرام سے ایک سوال ❤️

       احباب کرام کے فارمولے کے مطابق کہ ” اگر فرض چھوٹ رہے ہوں تو تبلیغ فرض ہوتی ہے ” سوال ہے کہ بہت سے فرائض چھوٹ گئے ہیں جیسے خلافت کا قیام ، جہادِ اقدامی و دفاعی ، قیدیوں کو چھڑانا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ ان کی تبلیغ فرض ہو گئی ہے کہ نہیں ؟ ان کی تبلیغ کب فرض ہوگی ؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔