Saturday, 6 June 2020

* ... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ... *قسط نمبر *11


* ... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ... *

قسط 11

🔯 جہاد سے پہلے ایمان پر تیرہ سال محنت 🔯

... جہاد کے خلاف احباب کے اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ

( حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سال تک ایمان پر محنت کی اس کے بعد جہاد شروع کیا )


کیا مطلب ہے تمہارا ؟؟؟ کیا جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین مکے میں وفات پائے یا شہید ہوگئے جیسے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہما وہ بغیر ایمان کے گئے یا ان کا ایمان ناقص تھا؟ ؟؟ آپ ذرا غور فرمائیں اس کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے. ..


بہت خوب جناب ! اگر یہی فلسفہ درست ہے تو یہ بھی درست ہونا چاہیے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سترہ سال تک ایمان پر محنت کی اس کے بعد پردے کا حکم دیا ...

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیس سال تک ایمان پر محنت کی اس کے بعد حج فرض ہوا ...

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے بائیس سال تک ایمان پر محنت کی اس کے بعد سود کی حرمت آئی. ...

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے پندرہ سال تک ایمان پر محنت کی اس کے بعد شراب حرام ہوئی. ...

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے 18 سال ایمان پر محنت کی اس کے بعد گدھا حرام کیا. ..

یوں بآسانی یہ دین بازیچہ اطفال بن جائے گا. .. اس امت کا اور کوئی کام نہیں رہے گا سوائے بستر لیکر گھومنے کے .... جسے یہ لوگ ایمان بنانا یا ایمان پر محنت کہتے ہیں ...


یہ فلسفہ صرف جہاد کی مخالفت میں ہے یا باقی اعمال کے بارے میں بهی ہے؟ ؟؟

ارے بھائی! ایسی خودساختہ باتوں سے ایمان بنتا نہیں بگڑتا ہے. .. الله تعالی تمہیں ہدایت نصیب فرمائے. .. الله تعالی اس امت کو ہر قسم کی نورانی چالوں اور جالوں سے محفوظ رکھے ...

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سال تک ایمان پر محنت کی اس کے بعد جہاد کا حکم دیا ؟

نہیں جناب .... یہ بدر کا میدان ہے. ... اگر فلسفہ یہی ہوتا کہ .... پہلے ایمان پر تیرہ سال محنت پهر جہاد ... تو سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض کرتے : یا رسول اللہ ! مجھے جہاد سے معاف رکھئے ... کیونکہ آپ نے ابوبکر کے ایمان پر پندرہ سال محنت کی اور میرے ایمان کو ابھی بارہ سال ہوئے ہیں ... اس کے ساتھ مدینے کے انصار آواز اٹھاتے ... کوئی کہتا میرے ایمان پر ابھی صرف ایک سال محنت ہوئی ہے کوئی کہتا کہ میرے ایمان پر ابھی صرف دو مہینے محنت ہوئی ہے کوئی دو ہفتوں کا ذکر کرتا تو کوئی کم و بیش .... اس طرح بدر کا میدان خالی ہوجاتا .... کافر تالیاں بجاتے ، خوشیاں مناتے کہ لو بھئی ایسی قوم سے واسطہ پڑا ہے جو دین کے لئے لڑنے کے بجائے ایمان بنانے کی فکر میں ہیں ...


واضح رہے کہ میدان بدر میں مہاجرین کم انصار زیادہ تھے یعنی اکثریت کے ایمان کو سال ڈیڑھ سال ہو رہا تھا ...


میرے بهائیو دوستو اور بزرگو! ! اللہ کے لئے خود پر رحم کرو اور اس امت پر رحم کرو ... اس طرح کی باتیں نہ بناو اس سے آپ کا بھی ایمان بگڑے گا اور اس امت کا بهی ... اور کوئی سرپهرا یہ اعتراض بھی کر سکتا ہے کہ تمہارے جن بزرگوں اور احباب کے ایمان پر تیرہ سال محنت ہوچکی ہے کم از کم وہ تو نکل جائیں الله کے راستے میں جہاد کے لئے ....


اور غور کریں میرے بھائی! اس طرح کی باتوں سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پر حرف آتا ہے کہ آپ تربیت میں اتنے کمزور تھے کہ صحابہ کو جہاد کی ایمانی سطح تک پہنچانے کے لئے تیرہ سال لگانے پڑے حالانکہ ابوجہل صرف ایک تقریر سے ایک ہزار کی جمعیت تیار کرکے لے آیا .... بلکہ غور کرو تو خود اللہ تعالٰی پر اعتراض آتا ہے کہ ایسے شخص کو اپنا آخری نبی چنا جنہیں لوگوں کو جہاد کی سطح تک لے جانے کے لئے تیرہ سال لگانے پڑے ... حالانکہ آج بھی لوگ ایک تقریر سے اور ایک دو آنسوؤں سے لاکھوں لوگوں کو لڑائی پر آمادہ کردیتے ہیں ....


بلکہ میرے بھائی ! اس سے کوئی شخص یہ استدلال کر سکتا ہے کہ دیکھ ! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہستی کو تیرہ سال لگے تو مجھے کم از کم پچاس سال تو لگیں گے ... پھر اگر اس کے فلسفے کو تسلیم کر لیا گیا تو پھر ہمیں بوڑھوں کی فوج میدان میں اتارنی پڑےگی ...


ارے بھائی ! بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص مسلمان ہونے کا دعوٰی کرتا ہے تو اس پر اللہ تعالٰی کے احکام خود بخود لاگو ہو جاتے ہیں چاہے اس کا ایمان ایک پاؤ ہو یا ایک ہزار ٹن ... چاہے اس کے ایمان پر کوئی تیرہ سال محنت کر چکا ہو یا نہ ... بلکہ اگر تیرہ منٹ کی محنت بهی نہ ہوئی ہو تب بھی اللہ تعالٰی کے احکام اس پر لاگو ہو جاتے ہیں ... اسی طرح کا واقعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آیا ... میدان جنگ میں ایک شخص آیا کہ یا رسول اللہ ! میں کیا کروں پہلے مسلمان ہوجاوں یا لڑنا شروع کر دوں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے مسلمان ہوجاو پهر لڑو ... چنانچہ اس نے کلمہ پڑھا اور میدان میں کود پڑا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگیا ... کوئی نماز نہیں کوئی روزہ نہیں کوئی حج نہیں ... ایمان جہاد اور جنت .... الله اکبر ... رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : عمل قلیلا واجر کثیرا .... عمل تهوڑا کیا اجر زیادہ پایا ....

لیجئے حدیث

عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِالْحَدِيدِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُ أَوْ أُسْلِمُ قَالَ أَسْلِمْ ثُمَّ قَاتِلْ فَأَسْلَمَ ثُمَّ قَاتَلَ فَقُتِلَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمِلَ قَلِيلًا وَأُجِرَ كَثِيرًا

البخاري في الجهاد .. باب عمل صالح قبل القتال


اس واقعے سے آپ یہ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جہاد سے کس قدر والہانہ محبت کرتے تھے یہاں تک کہ نئے آنے والے کو شک ہو جاتا تھا کہ اسلام پہلے ہے یا قتال. ...


میرے بھائی ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، الله کے حکم کے پابند تھے اگر الله تعالی کا حکم مکے میں ہی لڑنے کا آتا تو آپ مکے میں بهی لڑتے یہ دیکھے بغیر کہ طاقت کتنی ہے کیونکہ آپ کو اللہ تعالٰی کے وعدہ نصرت پر پورا پورا یقین تھا ... مکے میں چند ہی سردار تھے ان کو جان نثار صحابہ کے ذریعے رات کو خصوصی کارروائی میں ٹھکانے لگوانا کوئی مشکل کام نہ تھا جیسا کہ کعب بن اشرف اور ابورافع کو ٹھکانے لگوایا لیکن بات یہ ہے کہ مکے میں ہاتھ روکے رکھنے کا حکم تھا. .. ورنہ آپ دیکھتے نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سب کے سامنے طواف کرنے کے بعد کہتے ہیں : میں ہجرت کرنے جارہا ہوں کسی میں ہمت ہے تو آئے میرا مقابلہ کرے .... کسی کو ہمت نہ ہوئی ... صحابہ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ جیسے لوگ تھے ..... حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جیسے شیر تھے ... پر میرے بھائی! حکم یہ تھا کہ ہاتھ روکے رکھو .... اگر فرض کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، مکہ مکرمہ میں ابوجہل کو قتل کرتے تو یہ بھی قتل ناحق ہوتا ۔۔۔ اور انبیاء علیہم السلام ناحق خون کبھی نہیں بہاتے  ۔۔۔ انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں اور ناحق خون تو بہت بڑا گناہ ہے ۔۔۔ 


آپ ذرا غور فرمائیں !!! حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ساتویں ہجری یا آٹھویں ہجری میں مسلمان ہوئے ... کیا وہ جہاد ، پردے وغیرہ سے بایں فلسفہ رک گئے کہ ٹھہرو ابھی ایمان پر محنت ہو لینے دو ... اسی طرح دسویں گیارہویں ہجری میں مسلمان ہونے والوں کیلئے کیا حکم تھا ؟؟؟؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد مسلمان ہونے والوں کیلئے کیا حکم تھا ؟؟؟ ظاہر ہے پورے دین پر عمل کرنے کا ...


رسول الله صلى الله عليه وسلم کا زمانہ نزول وحی کا زمانہ تھا دین آہستہ آہستہ تهوڑا تهوڑا ہو کر آتا رہا اس میں یہ فلسفہ کارفرما نہیں تها کہ اب ایمان فلاں عمل کی سطح تک پہنچ گیا ہے لہذا اس عمل کو آنا چاہئے اور اب فلاں عمل والی سطح ہے لہٰذا اب اس کی باری ہے ... نہیں نہیں بلکہ اللہ تعالٰی اپنی مرضی سے جب چاہتا جتنا چاہتا اتارتا ... جو شخص جس وقت مسلمان ہوتا اس وقت تک اترے ہوئے پورے دین پر عمل کرنا اس پر لازم ہوتا تھا .... رسول الله صلى الله عليه وسلم کے بعد ، مسلمانوں پر مکمل دین پر عمل لازم ہے ... الله تعالی دین کی سمجھ نصیب فرمائے اور حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے  ۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔