Sunday 29 March 2020

کیا بغیر کلمے کے مرنے والوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا ؟قسط 4


★ ........ تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ........ ★
قسط 4
کیا بغیر کلمے کے مرنے والوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا ؟

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ 

قسط 4 

       کیا بغیر کلمے کے مرنے والوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا ؟


       احباب کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر امریکہ میں بھی کوئی بغیر کلمے کے مرے گا تو ہم سے اس بارے میں پوچھ جائے گا - آچھا ہے تم سے پوچھا جائے- المرء يؤخذ بإقراره - مرتے تو روزانہ لاکھوں بغیر کلمے کے ہیں اس لئے جہنم کے لئے خود کو تیار کرلو تم کس کس کا جواب دے پاؤ گے - بھائی تمہاری بات صراحتاً قرآن کے خلاف ہے - جس ذات اقدس کو اسلام اور احکام اسلام پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی تھی اس سے خطاب فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں-

   ♦️إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلاَ تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ

سورة البقرة الآية رقم 119----

   ترجمہ: اے پیغمبر بیشک ہم نے تمہیں کو حق دے کر اس طرح بھیجا ہے کہ تم جنت کی خوشخبری دو اور جہنم سے ڈراؤ اور جہنم والوں کے بارے میں آپ سے پوچھا نہیں جائے گا 

       رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے لوگ بغیر کلمے کے گئے ہیں ابو طالب و ابو لہب ۔۔۔  صحابہ کے گھروں میں بھی لوگ بغیر کلمے کے مرے ہیں - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کے دور میں لاکھوں لوگوں کو جہنم پہنچایا گیا - اور یہ امت چودہ صدیوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول کے طریقے کے مطابق بغیر کلمے والوں کو جہنم بھیج رہی ہے ۔۔۔۔ سورة صبا آيت 25  میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں- 

    [قُل لَّا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ ]

ترجمہ : 

کہہ دیجئے کہ ہمارے اعمال کے بارے میں تم سے اور تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا 

    اس کے علاوہ بار بار قرآن میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ رسولوں کا کام پہنچانا ہے بس - 

ملاحظہ فرمائیں 


1️⃣ وَإِنْ تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ 

آل عمران 20


2️⃣ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ 

ماىٔدة  92


3️⃣مَّا عَلَى الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ 

ماىٔدة 99


4️⃣ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ 

الرعد 40


5️⃣ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلاَّ الْبَلاغُ المبين 

النحل 35


6️⃣ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ

 النحل 82


7️⃣ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ 

النور54


8️⃣ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

العنکبوت18


9️⃣ وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ 

یس 17


🔟 إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ

لشوری48


1️⃣1️⃣  فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ 

التغابن12 


        ان تمام آیات کا مضمون یہ ہے کہ رسولوں کا کام صرف پہنچانا ہے آپ کا کام صرف پہنچانا ہے  ۔۔۔ اس لئے ان آیات کے ترجمے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ اس سے خواہ مخواہ بات لمبی ہو جائے گی 

                            ♦️♦️♦️♦️

      نیز اللہ تعالیٰ نے بار بار وضاحت سے یہ بھی فرمایا ہے کہ کسی دوسرے کے عمل سے کسی کی پکڑ نہ ہوگی ہر کسی کا عمل اس کی ذات تک محدود ہے ----

                       ملاحظہ فرمائیں 

1️⃣ وَلاَ تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

الأنعام 164


ترجمہ : 

اور ( یاد رکھو ) ہرشخص جو عمل کرتا ہے ، اس کی ذمہ داری اسی پر ہے اور کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا ،


2️⃣ مَّنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى

الاسراء 15

ترجمہ : 

جو شخص سیدھے راستے پر چلتا ہے تو یقیناً وہ اپنے ہی فائدے کے لئے چلتا ہے اور جو گمراہی کو اختیار کرتا ہے ، اس کا نقصان اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا ۔۔۔ 


3️⃣ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

فاطر 18


4️⃣ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

الزمر 7

    اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر بھی نظر رہے 

♦️يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ 

المائدہ 105 

ترجمہ : 

اے ایمان والو ! تم پر تمہاری ذمہ داری ہے ، اگر تم خود راہ راست پر ہو ، تو جو گمراہ ہو ، وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔۔۔ 

      ہاں اس آیت کے ظاہر  پر تکیہ کر کے بیٹھنا نہیں چاہئے حق کا بول بولنا اور ظالموں کو حق پر مجبور کرنا بھی ضروری ہے اس کے بغیر کوئی ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی کی طرف توجو دلایا کرتے تھے ۔۔۔ 


  🖊️دوسروں کو گمراہ کرو گے تو ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ان کا بوجھ اٹھانا پڑے گا جو شخص ضلال (گمراہی) کے ساتھ اضلال ( گمراہ کرنے) کا بھی مرتکب ہو اس کو اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں کے گناہوں کی بھی سزا ملے گی - جنہیں اس نے گمراہ کیا ہو- جس طرح واٹساپ میں چیز آپ کے پاس بھی رہتی ہے اور وہی چیز پوری کی پوری دوسرے کے پاس بھی پہنچ جاتی ہے اس طرح ان لوگوں کو بھی اپنے گناہوں کی پوری کی پوری سزا ملے گی اور گمراہ کنندہ کو بھی ملے گی۔۔۔  ان کو دوسروں کے اعمال کی سزا نہیں ملی بلکہ یہ اس کو اس کے اپنے فعل اضلال ( گمراہ کرنے ) کی سزا ملی نسأل الله العافيه ••• 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں -

   ♦️ولَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ 

العنكبوت 13 

ترجمہ : 

اور ان لوگوں کو قیامت کے دن اپنے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا اور اپنے بوجھ کے ساتھ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا 

                   🌹 اہل علم توجہ فرمائیں 🌹

یہ بہت حساس مقام ہے اہل علم کو نہایت درد مندی زیرکی اور بیدار مغزی کے ساتھ بلا خوف ملامت تمام اہل تحریف ، جمہوری ، سرکاری ، درباری ، رائیونڈی ، کی تحریفات کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔۔۔  اس میں سب کی خیر ہے خود علماء کی کہ فرض اتر جائے گا  ۔۔۔ مضِلین محرفین کی ۔۔۔ کہ ان کا بوجھ کم ہو جائے گا ۔۔۔ باقی امت کی کہ تحریف کی مضر اثرات سے بچ جائے گی ۔۔۔ مضلین ( گمراہی کے شکار لوگوں) کی ۔۔۔  کہ راہ راست پر آسکیں گے - آج بھی وقت ہے تدارک کیا جائے بلکہ مضبوط لگام دی جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب دارالافتاووں میں اس قسم کے سوال و جواب گردش کریں گے - 

   سوال: تبلیغی جماعت کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ 

جواب: موجودہ تبلیغی جماعت متعدد وجوہ کی بنا پر اہل سنت سے خارج ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے -

      اور خلاصہ بحث یہ ہے کہ: کسی کافر کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ بغیر کلمے کے کیوں مرا کیونکہ آج کی معلوم دنیا میں اسلام کی اجمالی دعوت ہر جگہ پہنچ چکی ہے اور صدیوں پہلے فقہاء کرام اس کی تصریح فرما چکے ہیں کہ آج دعوت ہر جگہ پہنچ چکی ہے اب قتال سے پہلے دعوت واجب نہیں مستحب ہے اگر دعوت کی صورت میں دشمن کی طرف سے نقصان کا خطرہ ہو تو بغیر دعوت ہی قتال شروع کیا جائے- چاروں مذاہب کی کسی بھی فقہی کتاب کو اٹھائیں کتاب الجہاد میں وہاں آپ کو یہ وضاحت مل جائے گی- گمراہ کنندگان سے گمراہ شد گان کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کو کیوں گمراہ کیا- تحریف اور خود ساختہ مسائل اور خود ساختہ احادیث متعدی گناہ ہیں ان سے جو لوگ گمراہ ہوتے ہیں ان کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کو کیوں گمراہ کیا ؟

جی ہاں پوچھا جائے گا- کہ مظلوم بندوں کی مدد کیوں نہیں کی- بے یار و مددگار کیوں چھوڑا؟ 

♦️وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

سورة النساء الاية رقم 75


ترجمہ : 

اورتمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں اور ان بے سہارا مردوں ، عورتوں اوربچوں کے لئے قتال نہیں کرتے ، جو کہتے ہیں : ’ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لیجئے ، جس کے باشندے ظالم ہیں ، ہمیں اپنے پاس سے کوئی نگہبان عطا فرمائیے اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کر دیجئے ؟؟ ‘


🛑جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ ، وَأَبَا طَلْحَةَ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولَانِ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا مِنِ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ، وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ ؛ إِلَّا خَذَلَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ. وَمَا مِنِ امْرِئٍ يَنْصُرُ مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ ؛ إِلَّا نَصَرَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ نُصْرَتَهُ ".( أبوداود في الأدب ••باب من رد عن مسلم غيبة ) 

ترجمہ : 

 حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور ابوطلحہ بن سہل انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے کسی مسلمان کو کہیں بے یار ومددگار چھوڑا جہاں کہ وہ بے عزت کیا جا رہا تھا تو اللہ اسے ایسی جگہ بے یار ومددگار چھوڑے گا جہاں وہ چاہے گا کہ ( کاش ) اس کی مدد کی جائے ۔ اور جس نے کسی مسلمان کی مدد کی ( اور اس کا دفاع کیا ) جہاں اسے بے عزت اور ذلیل کیا جا رہا تھا تو اللہ اس کی ایسی جگہ مدد فرمائے گا جہاں وہ چاہے گا کہ اس کی مدد کی جائے ۔ “

       اب یہ آپ کی عجیب و غریب کرم فرمائیاں ہیں کہ جہاں پوچھا جاتا ہے اس کو تو زبان پر بھی لانے سے کتراتے ہو - اور جہاں نہیں پوچھا جاتا وہاں بوجھ خود ہی اپنے سر لینے کے لئے بے تاب ہوئے جارہے ہو  ۔۔۔


         ◀️ سوال ▶️


 اگر یہ کہا جائے کہ احباب کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ہر کافر تک کلمہ پہنچائیں اور اگر کوئی کافر اس حال میں مر جائے کہ اس تک کلمہ نہ پہنچا ہو تو وہ قیامت کو اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری شکایت لگائے گا اور ہمارا گریبان پکڑے گا - 


        ◀️ جواب ▶️

تو اس کا جواب یہ ہے کہ احباب کا یہ کہنا بھی درست نہیں - ہم اس کی تھوڑی سی تفصیل عرض کر دیتے ہیں اس مسئلے میں کافروں کو کئی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے - 

پہلی قسم: وہ کافر جو ایسے دور دراز علاقوں میں رہتے ہوں جہاں کے بارے میں کسی کو علم نہ ہو کہ وہاں کچھ لوگ رہتے ہیں یا وہاں تک بآسانی پہنچنا ممکن نہ ہو - تو ایسے لوگوں کے بارے میں احباب کا مذکورہ بالا قول درست نہیں ورنہ تو - والعیاذ باللہ اس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گناہ گار ٹھہر تے ہیں اور ان کے گریبان اللہ تعالیٰ کے حضور کافروں کے ہاتھوں میں ہوں گے - کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں لاکھوں دور دراز کے رہنے والے لوگ ایسے مرے ہیں کہ کلمہ ان تک نہیں پہنچا جیسے افریقہ چین ہندوستان سندھ وغیرہ کے علاقے تو کیا یہ لوگ قیامت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گریبان پکڑیں گے ؟؟؟ کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے طاقت سے زیادہ پابندی عائد کی ہے ؟؟؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے کے مشہور بادشاہوں کو خطوط بھیجے اور اپنی وسعت کے مطابق مختلف اطراف میں صحابہ بھیجے لیکن پھر بھی آپ کے زمانے میں لاکھوں لوگ بغیر کلمے کے گئے ہیں - ہاں! ایسے لوگوں کا گناہ اگر کسی مسلمان کو ہوگا تو اس مسلمان کو ہوگا جن کو ایسے لوگوں کے بارے میں علم ہو اور وہ بآسانی وہاں پہنچ سکتا ہو لیکن پھر بھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت نہ دے تو ایسا شخص یقیناً گناہ گار ہے -

دوسری قسم: وہ کافر جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں سن چکے ہیں - اگر چہ تفصیلی معلومات نہ رکھتے ہوں - تو ان پر اپنی معلومات کی وجہ سے حجت تام ہو گئی ہے - اور مسلمان پر واجب نہیں کہ جب بھی اس سے ملے اسے اسلام کی دعوت دے - اچھی بات تو ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن بات تو قیامت کو گریبان پکڑنے کی ہورہی ہے - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو ان کی مجالس اور محافل میں اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دی اور اس کے بعد یہ نہیں تھا کہ آپ جب بھی کسی کافر کو دیکھتے اسے اسلام کی دعوت دیتے - اس پر دسیوں احادیث شاہد ہیں - مثلاً لقد جئتکم بالذبح والی حدیث یا ابو جہل اور دیگر سرداران کو جو بد دعاء دی تھی جب انہوں نے حالت نماز میں آپ کی پیٹھ پر اوجھڑی لا کر رکھ دی تھی یا صلح حدیبیہ میں قریش کے قاصدوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو گفتگو ہوئی یا یہودیوں کے ساتھ خرید و فروخت اور دیگر معاملات تو ان مواقع اور ان جیسے بہت سے دیگر مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کافروں کو اسلام کی دعوت نہیں دی کیونکہ اسلام کی دعوت انہیں پہنچ چکی تھی - 

بہر حال! کوئی کافر قیامت کے دن کسی گناہ گار مسلمان کا گریبان نہیں پکڑ سکتا اور نہ مسلمان کے خلاف وہ صاحب حجت ہو سکتا ہے- بلکہ کافر ہی کے خلاف حجت قائم ہوگی- اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں سن چکا ہو- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں-  

🛑وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ، وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ".( مسلم في الايمان ••باب وجوب الايمان برسالة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم إلى جميع الناس) 


ترجمہ : 

اللہ کی قسم اس امت میں سے جو بھی میرے بارے میں سنے یہودی ہو یا نصرانی اور پھر وہ اس حال میں مرے کہ مجھ پر اس کا ایمان نہ ہو  تو جہنم میں جائے گا 


      اور یہ بات واضح اور بے غبار ہے کہ آج کی معلوم دنیا میں شائد ایسے کافر نہیں ہیں یا بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں جن کو اسلام کی کسی بھی طرح دعوت نہ پہنچی ہو ۔۔ 

تیسری قسم: جس متعین کافر کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ اسے اسلام کی دعوت نہیں پہنچی یا وہ اسلام کے بارے میں جاننےکے لئے آپ کے پاس آئے اور قرائن سے اس کا متعنت نہ ہونا معلوم ہوجائے تو ایسے شخص کو حسب صلاحیت دین کی دعوت دینا اور دین کی معلومات دینا واجب ہے اور اس سے غفلت یقینا گناہ ہے

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ کی عدالت میں مسلمان کے خلاف فریق بن کر آئے گا اور اسے گریبان سے پکڑے گا کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ، بلکہ یہ کافر اہل فترة کی طرح معذور قرار دیا جائے گا اور اس کے ساتھ غیر مکلفین مجنونوں پاگلوں اور بچوں جیسا معاملہ کیا جائے گا کیونکہ اس کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی لیکن خلاصے کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ باتیں تو احباب کرام موجودہ کافرین کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں جن کو یقیناً اسلام کی دعوت پہنچی ہے اور ان پر حجت تام ہوچکی ہے تو ایسوں سے متعلق ان کی یہ باتیں یقیناً غلط، بے دلیل اور سوء ادب ہیں- 

 🖋️اب بحث کے آخر می دونوں پر تھوڑا سا غور کرتے ہیں  ۔۔۔ 

1: یہ کافروں کو دعوت نہیں دیتے بلکہ ان کے بقول وہ وہاں مسلمانوں سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں - جب وہ خود کافروں کو دعوت نہیں دیتے تو اس قسم کی باتیں کیوں کرتے ہیں ؟؟؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا تم اس کو دعوت نہیں دیتے ؟؟؟ بلکہ دعوت نہ دینے کا اصول بنا ہے ۔۔۔ 

2: جس شخص کے بارے میں تمہارا یہ خیال ہو کہ اگر وہ بغیر کلمے کے مرے گا تو تجھ سے پوچھا جائے گا تو کیا تم اس شخص کو اپنے ہاتھوں قتل کرلو گے ؟؟؟ نہیں نا  ۔۔۔ اور اگر اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی ہو کہ اس سے اللہ تعالیٰ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہیں تو ؟؟؟ اور اگر اس کے ساتھ ساتھ تم یہ بھی کہتے ہو کہ مجھے اس کے کفر سے تو بیشک نفرت کرنی ہے لیکن خود اس سے نہیں کرنی تو ؟؟؟ بتاؤ کیا تم اس شخص کو قتل کرسکو گے ؟؟؟ خود تو قتل کیا کرو گے جو دوسرا کرے گا وہ بھی تمہیں برا لگے گا - امید ہے آپ بات سمجھ چکے ہوں گے - ان تمام باتوں کو خوب سوچیں - کافروں کو دعوت نہ دینا ان کا اصول ٹھہرا اور پھر بھی صبح شام یہی راگ کہ ہم سے پوچھا جائے گا ۔۔۔ جب کافروں کو دعوت نہ دینا ان کا اصول ہے تو پھر ان جملوں کا ضرر ہی رہ گیا جو جہاد کے لئے تیار کیا گیا ہے -تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ 

قسط 4 

       کیا بغیر کلمے کے مرنے والوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا ؟


       احباب کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر امریکہ میں بھی کوئی بغیر کلمے کے مرے گا تو ہم سے اس بارے میں پوچھ جائے گا - آچھا ہے تم سے پوچھا جائے- المرء يؤخذ بإقراره - مرتے تو روزانہ لاکھوں بغیر کلمے کے ہیں اس لئے جہنم کے لئے خود کو تیار کرلو تم کس کس کا جواب دے پاؤ گے - بھائی تمہاری بات صراحتاً قرآن کے خلاف ہے - جس ذات اقدس کو اسلام اور احکام اسلام پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی تھی اس سے خطاب فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں-

   ♦️إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلاَ تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ

سورة البقرة الآية رقم 119----

   ترجمہ: اے پیغمبر بیشک ہم نے تمہیں کو حق دے کر اس طرح بھیجا ہے کہ تم جنت کی خوشخبری دو اور جہنم سے ڈراؤ اور جہنم والوں کے بارے میں آپ سے پوچھا نہیں جائے گا 

       رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے لوگ بغیر کلمے کے گئے ہیں ابو طالب و ابو لہب ۔۔۔  صحابہ کے گھروں میں بھی لوگ بغیر کلمے کے مرے ہیں - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کے دور میں لاکھوں لوگوں کو جہنم پہنچایا گیا - اور یہ امت چودہ صدیوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول کے طریقے کے مطابق بغیر کلمے والوں کو جہنم بھیج رہی ہے ۔۔۔۔ سورة صبا آيت 25  میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں- 

    [قُل لَّا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ ]

ترجمہ : 

کہہ دیجئے کہ ہمارے اعمال کے بارے میں تم سے اور تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا 

    اس کے علاوہ بار بار قرآن میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ رسولوں کا کام پہنچانا ہے بس - 

ملاحظہ فرمائیں 


1️⃣ وَإِنْ تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ 

آل عمران 20


2️⃣ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ 

ماىٔدة  92


3️⃣مَّا عَلَى الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ 

ماىٔدة 99


4️⃣ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ 

الرعد 40


5️⃣ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلاَّ الْبَلاغُ المبين 

النحل 35


6️⃣ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ

 النحل 82


7️⃣ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ 

النور54


8️⃣ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

العنکبوت18


9️⃣ وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ 

یس 17


🔟 إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ

لشوری48


1️⃣1️⃣  فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ 

التغابن12 


        ان تمام آیات کا مضمون یہ ہے کہ رسولوں کا کام صرف پہنچانا ہے آپ کا کام صرف پہنچانا ہے  ۔۔۔ اس لئے ان آیات کے ترجمے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ اس سے خواہ مخواہ بات لمبی ہو جائے گی 

                            ♦️♦️♦️♦️

      نیز اللہ تعالیٰ نے بار بار وضاحت سے یہ بھی فرمایا ہے کہ کسی دوسرے کے عمل سے کسی کی پکڑ نہ ہوگی ہر کسی کا عمل اس کی ذات تک محدود ہے ----

                       ملاحظہ فرمائیں 

1️⃣ وَلاَ تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

الأنعام 164


ترجمہ : 

اور ( یاد رکھو ) ہرشخص جو عمل کرتا ہے ، اس کی ذمہ داری اسی پر ہے اور کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا ،


2️⃣ مَّنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى

الاسراء 15

ترجمہ : 

جو شخص سیدھے راستے پر چلتا ہے تو یقیناً وہ اپنے ہی فائدے کے لئے چلتا ہے اور جو گمراہی کو اختیار کرتا ہے ، اس کا نقصان اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا ۔۔۔ 


3️⃣ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

فاطر 18


4️⃣ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

الزمر 7

    اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر بھی نظر رہے 

♦️يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ 

المائدہ 105 

ترجمہ : 

اے ایمان والو ! تم پر تمہاری ذمہ داری ہے ، اگر تم خود راہ راست پر ہو ، تو جو گمراہ ہو ، وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔۔۔ 

      ہاں اس آیت کے ظاہر  پر تکیہ کر کے بیٹھنا نہیں چاہئے حق کا بول بولنا اور ظالموں کو حق پر مجبور کرنا بھی ضروری ہے اس کے بغیر کوئی ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی کی طرف توجو دلایا کرتے تھے ۔۔۔ 


  🖊️دوسروں کو گمراہ کرو گے تو ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ان کا بوجھ اٹھانا پڑے گا جو شخص ضلال (گمراہی) کے ساتھ اضلال ( گمراہ کرنے) کا بھی مرتکب ہو اس کو اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں کے گناہوں کی بھی سزا ملے گی - جنہیں اس نے گمراہ کیا ہو- جس طرح واٹساپ میں چیز آپ کے پاس بھی رہتی ہے اور وہی چیز پوری کی پوری دوسرے کے پاس بھی پہنچ جاتی ہے اس طرح ان لوگوں کو بھی اپنے گناہوں کی پوری کی پوری سزا ملے گی اور گمراہ کنندہ کو بھی ملے گی۔۔۔  ان کو دوسروں کے اعمال کی سزا نہیں ملی بلکہ یہ اس کو اس کے اپنے فعل اضلال ( گمراہ کرنے ) کی سزا ملی نسأل الله العافيه ••• 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں -

   ♦️ولَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ 

العنكبوت 13 

ترجمہ : 

اور ان لوگوں کو قیامت کے دن اپنے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا اور اپنے بوجھ کے ساتھ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا 

                   🌹 اہل علم توجہ فرمائیں 🌹

یہ بہت حساس مقام ہے اہل علم کو نہایت درد مندی زیرکی اور بیدار مغزی کے ساتھ بلا خوف ملامت تمام اہل تحریف ، جمہوری ، سرکاری ، درباری ، رائیونڈی ، کی تحریفات کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔۔۔  اس میں سب کی خیر ہے خود علماء کی کہ فرض اتر جائے گا  ۔۔۔ مضِلین محرفین کی ۔۔۔ کہ ان کا بوجھ کم ہو جائے گا ۔۔۔ باقی امت کی کہ تحریف کی مضر اثرات سے بچ جائے گی ۔۔۔ مضلین ( گمراہی کے شکار لوگوں) کی ۔۔۔  کہ راہ راست پر آسکیں گے - آج بھی وقت ہے تدارک کیا جائے بلکہ مضبوط لگام دی جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب دارالافتاووں میں اس قسم کے سوال و جواب گردش کریں گے - 

   سوال: تبلیغی جماعت کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ 

جواب: موجودہ تبلیغی جماعت متعدد وجوہ کی بنا پر اہل سنت سے خارج ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے -

      اور خلاصہ بحث یہ ہے کہ: کسی کافر کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ بغیر کلمے کے کیوں مرا کیونکہ آج کی معلوم دنیا میں اسلام کی اجمالی دعوت ہر جگہ پہنچ چکی ہے اور صدیوں پہلے فقہاء کرام اس کی تصریح فرما چکے ہیں کہ آج دعوت ہر جگہ پہنچ چکی ہے اب قتال سے پہلے دعوت واجب نہیں مستحب ہے اگر دعوت کی صورت میں دشمن کی طرف سے نقصان کا خطرہ ہو تو بغیر دعوت ہی قتال شروع کیا جائے- چاروں مذاہب کی کسی بھی فقہی کتاب کو اٹھائیں کتاب الجہاد میں وہاں آپ کو یہ وضاحت مل جائے گی- گمراہ کنندگان سے گمراہ شد گان کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کو کیوں گمراہ کیا- تحریف اور خود ساختہ مسائل اور خود ساختہ احادیث متعدی گناہ ہیں ان سے جو لوگ گمراہ ہوتے ہیں ان کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کو کیوں گمراہ کیا ؟

جی ہاں پوچھا جائے گا- کہ مظلوم بندوں کی مدد کیوں نہیں کی- بے یار و مددگار کیوں چھوڑا؟ 

♦️وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

سورة النساء الاية رقم 75


ترجمہ : 

اورتمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں اور ان بے سہارا مردوں ، عورتوں اوربچوں کے لئے قتال نہیں کرتے ، جو کہتے ہیں : ’ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لیجئے ، جس کے باشندے ظالم ہیں ، ہمیں اپنے پاس سے کوئی نگہبان عطا فرمائیے اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کر دیجئے ؟؟ ‘


🛑جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ ، وَأَبَا طَلْحَةَ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولَانِ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا مِنِ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ، وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ ؛ إِلَّا خَذَلَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ. وَمَا مِنِ امْرِئٍ يَنْصُرُ مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ ؛ إِلَّا نَصَرَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ نُصْرَتَهُ ".( أبوداود في الأدب ••باب من رد عن مسلم غيبة ) 

ترجمہ : 

 حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور ابوطلحہ بن سہل انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے کسی مسلمان کو کہیں بے یار ومددگار چھوڑا جہاں کہ وہ بے عزت کیا جا رہا تھا تو اللہ اسے ایسی جگہ بے یار ومددگار چھوڑے گا جہاں وہ چاہے گا کہ ( کاش ) اس کی مدد کی جائے ۔ اور جس نے کسی مسلمان کی مدد کی ( اور اس کا دفاع کیا ) جہاں اسے بے عزت اور ذلیل کیا جا رہا تھا تو اللہ اس کی ایسی جگہ مدد فرمائے گا جہاں وہ چاہے گا کہ اس کی مدد کی جائے ۔ “

       اب یہ آپ کی عجیب و غریب کرم فرمائیاں ہیں کہ جہاں پوچھا جاتا ہے اس کو تو زبان پر بھی لانے سے کتراتے ہو - اور جہاں نہیں پوچھا جاتا وہاں بوجھ خود ہی اپنے سر لینے کے لئے بے تاب ہوئے جارہے ہو  ۔۔۔


         ◀️ سوال ▶️


 اگر یہ کہا جائے کہ احباب کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ہر کافر تک کلمہ پہنچائیں اور اگر کوئی کافر اس حال میں مر جائے کہ اس تک کلمہ نہ پہنچا ہو تو وہ قیامت کو اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری شکایت لگائے گا اور ہمارا گریبان پکڑے گا - 


        ◀️ جواب ▶️

تو اس کا جواب یہ ہے کہ احباب کا یہ کہنا بھی درست نہیں - ہم اس کی تھوڑی سی تفصیل عرض کر دیتے ہیں اس مسئلے میں کافروں کو کئی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے - 

پہلی قسم: وہ کافر جو ایسے دور دراز علاقوں میں رہتے ہوں جہاں کے بارے میں کسی کو علم نہ ہو کہ وہاں کچھ لوگ رہتے ہیں یا وہاں تک بآسانی پہنچنا ممکن نہ ہو - تو ایسے لوگوں کے بارے میں احباب کا مذکورہ بالا قول درست نہیں ورنہ تو - والعیاذ باللہ اس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گناہ گار ٹھہر تے ہیں اور ان کے گریبان اللہ تعالیٰ کے حضور کافروں کے ہاتھوں میں ہوں گے - کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں لاکھوں دور دراز کے رہنے والے لوگ ایسے مرے ہیں کہ کلمہ ان تک نہیں پہنچا جیسے افریقہ چین ہندوستان سندھ وغیرہ کے علاقے تو کیا یہ لوگ قیامت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گریبان پکڑیں گے ؟؟؟ کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے طاقت سے زیادہ پابندی عائد کی ہے ؟؟؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے کے مشہور بادشاہوں کو خطوط بھیجے اور اپنی وسعت کے مطابق مختلف اطراف میں صحابہ بھیجے لیکن پھر بھی آپ کے زمانے میں لاکھوں لوگ بغیر کلمے کے گئے ہیں - ہاں! ایسے لوگوں کا گناہ اگر کسی مسلمان کو ہوگا تو اس مسلمان کو ہوگا جن کو ایسے لوگوں کے بارے میں علم ہو اور وہ بآسانی وہاں پہنچ سکتا ہو لیکن پھر بھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت نہ دے تو ایسا شخص یقیناً گناہ گار ہے -

دوسری قسم: وہ کافر جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں سن چکے ہیں - اگر چہ تفصیلی معلومات نہ رکھتے ہوں - تو ان پر اپنی معلومات کی وجہ سے حجت تام ہو گئی ہے - اور مسلمان پر واجب نہیں کہ جب بھی اس سے ملے اسے اسلام کی دعوت دے - اچھی بات تو ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن بات تو قیامت کو گریبان پکڑنے کی ہورہی ہے - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو ان کی مجالس اور محافل میں اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دی اور اس کے بعد یہ نہیں تھا کہ آپ جب بھی کسی کافر کو دیکھتے اسے اسلام کی دعوت دیتے - اس پر دسیوں احادیث شاہد ہیں - مثلاً لقد جئتکم بالذبح والی حدیث یا ابو جہل اور دیگر سرداران کو جو بد دعاء دی تھی جب انہوں نے حالت نماز میں آپ کی پیٹھ پر اوجھڑی لا کر رکھ دی تھی یا صلح حدیبیہ میں قریش کے قاصدوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو گفتگو ہوئی یا یہودیوں کے ساتھ خرید و فروخت اور دیگر معاملات تو ان مواقع اور ان جیسے بہت سے دیگر مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کافروں کو اسلام کی دعوت نہیں دی کیونکہ اسلام کی دعوت انہیں پہنچ چکی تھی - 

بہر حال! کوئی کافر قیامت کے دن کسی گناہ گار مسلمان کا گریبان نہیں پکڑ سکتا اور نہ مسلمان کے خلاف وہ صاحب حجت ہو سکتا ہے- بلکہ کافر ہی کے خلاف حجت قائم ہوگی- اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں سن چکا ہو- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں-  

🛑وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ، وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ".( مسلم في الايمان ••باب وجوب الايمان برسالة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم إلى جميع الناس) 


ترجمہ : 

اللہ کی قسم اس امت میں سے جو بھی میرے بارے میں سنے یہودی ہو یا نصرانی اور پھر وہ اس حال میں مرے کہ مجھ پر اس کا ایمان نہ ہو  تو جہنم میں جائے گا 


      اور یہ بات واضح اور بے غبار ہے کہ آج کی معلوم دنیا میں شائد ایسے کافر نہیں ہیں یا بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں جن کو اسلام کی کسی بھی طرح دعوت نہ پہنچی ہو ۔۔ 

تیسری قسم: جس متعین کافر کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ اسے اسلام کی دعوت نہیں پہنچی یا وہ اسلام کے بارے میں جاننےکے لئے آپ کے پاس آئے اور قرائن سے اس کا متعنت نہ ہونا معلوم ہوجائے تو ایسے شخص کو حسب صلاحیت دین کی دعوت دینا اور دین کی معلومات دینا واجب ہے اور اس سے غفلت یقینا گناہ ہے

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ کی عدالت میں مسلمان کے خلاف فریق بن کر آئے گا اور اسے گریبان سے پکڑے گا کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ، بلکہ یہ کافر اہل فترة کی طرح معذور قرار دیا جائے گا اور اس کے ساتھ غیر مکلفین مجنونوں پاگلوں اور بچوں جیسا معاملہ کیا جائے گا کیونکہ اس کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی لیکن خلاصے کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ باتیں تو احباب کرام موجودہ کافرین کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں جن کو یقیناً اسلام کی دعوت پہنچی ہے اور ان پر حجت تام ہوچکی ہے تو ایسوں سے متعلق ان کی یہ باتیں یقیناً غلط، بے دلیل اور سوء ادب ہیں- 

 🖋️اب بحث کے آخر می دونوں پر تھوڑا سا غور کرتے ہیں  ۔۔۔ 

1: یہ کافروں کو دعوت نہیں دیتے بلکہ ان کے بقول وہ وہاں مسلمانوں سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں - جب وہ خود کافروں کو دعوت نہیں دیتے تو اس قسم کی باتیں کیوں کرتے ہیں ؟؟؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا تم اس کو دعوت نہیں دیتے ؟؟؟ بلکہ دعوت نہ دینے کا اصول بنا ہے ۔۔۔ 

2: جس شخص کے بارے میں تمہارا یہ خیال ہو کہ اگر وہ بغیر کلمے کے مرے گا تو تجھ سے پوچھا جائے گا تو کیا تم اس شخص کو اپنے ہاتھوں قتل کرلو گے ؟؟؟ نہیں نا  ۔۔۔ اور اگر اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی ہو کہ اس سے اللہ تعالیٰ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہیں تو ؟؟؟ اور اگر اس کے ساتھ ساتھ تم یہ بھی کہتے ہو کہ مجھے اس کے کفر سے تو بیشک نفرت کرنی ہے لیکن خود اس سے نہیں کرنی تو ؟؟؟ بتاؤ کیا تم اس شخص کو قتل کرسکو گے ؟؟؟ خود تو قتل کیا کرو گے جو دوسرا کرے گا وہ بھی تمہیں برا لگے گا - امید ہے آپ بات سمجھ چکے ہوں گے - ان تمام باتوں کو خوب سوچیں - کافروں کو دعوت نہ دینا ان کا اصول ٹھہرا اور پھر بھی صبح شام یہی راگ کہ ہم سے پوچھا جائے گا ۔۔۔ جب کافروں کو دعوت نہ دینا ان کا اصول ہے تو پھر ان جملوں کا ضرر ہی رہ گیا جو جہاد کے لئے تیار کیا گیا ہے -تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ 

قسط 4 

       کیا بغیر کلمے کے مرنے والوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا ؟


       احباب کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر امریکہ میں بھی کوئی بغیر کلمے کے مرے گا تو ہم سے اس بارے میں پوچھ جائے گا - آچھا ہے تم سے پوچھا جائے- المرء يؤخذ بإقراره - مرتے تو روزانہ لاکھوں بغیر کلمے کے ہیں اس لئے جہنم کے لئے خود کو تیار کرلو تم کس کس کا جواب دے پاؤ گے - بھائی تمہاری بات صراحتاً قرآن کے خلاف ہے - جس ذات اقدس کو اسلام اور احکام اسلام پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی تھی اس سے خطاب فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں-

   ♦️إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلاَ تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ

سورة البقرة الآية رقم 119----

   ترجمہ: اے پیغمبر بیشک ہم نے تمہیں کو حق دے کر اس طرح بھیجا ہے کہ تم جنت کی خوشخبری دو اور جہنم سے ڈراؤ اور جہنم والوں کے بارے میں آپ سے پوچھا نہیں جائے گا 

       رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے لوگ بغیر کلمے کے گئے ہیں ابو طالب و ابو لہب ۔۔۔  صحابہ کے گھروں میں بھی لوگ بغیر کلمے کے مرے ہیں - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کے دور میں لاکھوں لوگوں کو جہنم پہنچایا گیا - اور یہ امت چودہ صدیوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول کے طریقے کے مطابق بغیر کلمے والوں کو جہنم بھیج رہی ہے ۔۔۔۔ سورة صبا آيت 25  میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں- 

    [قُل لَّا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ ]

ترجمہ : 

کہہ دیجئے کہ ہمارے اعمال کے بارے میں تم سے اور تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا 

    اس کے علاوہ بار بار قرآن میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ رسولوں کا کام پہنچانا ہے بس - 

ملاحظہ فرمائیں 


1️⃣ وَإِنْ تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ 

آل عمران 20


2️⃣ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ 

ماىٔدة  92


3️⃣مَّا عَلَى الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ 

ماىٔدة 99


4️⃣ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ 

الرعد 40


5️⃣ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلاَّ الْبَلاغُ المبين 

النحل 35


6️⃣ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ

 النحل 82


7️⃣ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ 

النور54


8️⃣ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

العنکبوت18


9️⃣ وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ 

یس 17


🔟 إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ

لشوری48


1️⃣1️⃣  فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ 

التغابن12 


        ان تمام آیات کا مضمون یہ ہے کہ رسولوں کا کام صرف پہنچانا ہے آپ کا کام صرف پہنچانا ہے  ۔۔۔ اس لئے ان آیات کے ترجمے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ اس سے خواہ مخواہ بات لمبی ہو جائے گی 

                            ♦️♦️♦️♦️

      نیز اللہ تعالیٰ نے بار بار وضاحت سے یہ بھی فرمایا ہے کہ کسی دوسرے کے عمل سے کسی کی پکڑ نہ ہوگی ہر کسی کا عمل اس کی ذات تک محدود ہے ----

                       ملاحظہ فرمائیں 

1️⃣ وَلاَ تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

الأنعام 164


ترجمہ : 

اور ( یاد رکھو ) ہرشخص جو عمل کرتا ہے ، اس کی ذمہ داری اسی پر ہے اور کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا ،


2️⃣ مَّنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى

الاسراء 15

ترجمہ : 

جو شخص سیدھے راستے پر چلتا ہے تو یقیناً وہ اپنے ہی فائدے کے لئے چلتا ہے اور جو گمراہی کو اختیار کرتا ہے ، اس کا نقصان اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا ۔۔۔ 


3️⃣ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

فاطر 18


4️⃣ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

الزمر 7

    اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر بھی نظر رہے 

♦️يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ 

المائدہ 105 

ترجمہ : 

اے ایمان والو ! تم پر تمہاری ذمہ داری ہے ، اگر تم خود راہ راست پر ہو ، تو جو گمراہ ہو ، وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔۔۔ 

      ہاں اس آیت کے ظاہر  پر تکیہ کر کے بیٹھنا نہیں چاہئے حق کا بول بولنا اور ظالموں کو حق پر مجبور کرنا بھی ضروری ہے اس کے بغیر کوئی ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی کی طرف توجو دلایا کرتے تھے ۔۔۔ 


  🖊️دوسروں کو گمراہ کرو گے تو ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ان کا بوجھ اٹھانا پڑے گا جو شخص ضلال (گمراہی) کے ساتھ اضلال ( گمراہ کرنے) کا بھی مرتکب ہو اس کو اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں کے گناہوں کی بھی سزا ملے گی - جنہیں اس نے گمراہ کیا ہو- جس طرح واٹساپ میں چیز آپ کے پاس بھی رہتی ہے اور وہی چیز پوری کی پوری دوسرے کے پاس بھی پہنچ جاتی ہے اس طرح ان لوگوں کو بھی اپنے گناہوں کی پوری کی پوری سزا ملے گی اور گمراہ کنندہ کو بھی ملے گی۔۔۔  ان کو دوسروں کے اعمال کی سزا نہیں ملی بلکہ یہ اس کو اس کے اپنے فعل اضلال ( گمراہ کرنے ) کی سزا ملی نسأل الله العافيه ••• 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں -

   ♦️ولَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ 

العنكبوت 13 

ترجمہ : 

اور ان لوگوں کو قیامت کے دن اپنے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا اور اپنے بوجھ کے ساتھ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا 

                   🌹 اہل علم توجہ فرمائیں 🌹

یہ بہت حساس مقام ہے اہل علم کو نہایت درد مندی زیرکی اور بیدار مغزی کے ساتھ بلا خوف ملامت تمام اہل تحریف ، جمہوری ، سرکاری ، درباری ، رائیونڈی ، کی تحریفات کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔۔۔  اس میں سب کی خیر ہے خود علماء کی کہ فرض اتر جائے گا  ۔۔۔ مضِلین محرفین کی ۔۔۔ کہ ان کا بوجھ کم ہو جائے گا ۔۔۔ باقی امت کی کہ تحریف کی مضر اثرات سے بچ جائے گی ۔۔۔ مضلین ( گمراہی کے شکار لوگوں) کی ۔۔۔  کہ راہ راست پر آسکیں گے - آج بھی وقت ہے تدارک کیا جائے بلکہ مضبوط لگام دی جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب دارالافتاووں میں اس قسم کے سوال و جواب گردش کریں گے - 

   سوال: تبلیغی جماعت کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ 

جواب: موجودہ تبلیغی جماعت متعدد وجوہ کی بنا پر اہل سنت سے خارج ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے -

      اور خلاصہ بحث یہ ہے کہ: کسی کافر کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ بغیر کلمے کے کیوں مرا کیونکہ آج کی معلوم دنیا میں اسلام کی اجمالی دعوت ہر جگہ پہنچ چکی ہے اور صدیوں پہلے فقہاء کرام اس کی تصریح فرما چکے ہیں کہ آج دعوت ہر جگہ پہنچ چکی ہے اب قتال سے پہلے دعوت واجب نہیں مستحب ہے اگر دعوت کی صورت میں دشمن کی طرف سے نقصان کا خطرہ ہو تو بغیر دعوت ہی قتال شروع کیا جائے- چاروں مذاہب کی کسی بھی فقہی کتاب کو اٹھائیں کتاب الجہاد میں وہاں آپ کو یہ وضاحت مل جائے گی- گمراہ کنندگان سے گمراہ شد گان کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کو کیوں گمراہ کیا- تحریف اور خود ساختہ مسائل اور خود ساختہ احادیث متعدی گناہ ہیں ان سے جو لوگ گمراہ ہوتے ہیں ان کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کو کیوں گمراہ کیا ؟

جی ہاں پوچھا جائے گا- کہ مظلوم بندوں کی مدد کیوں نہیں کی- بے یار و مددگار کیوں چھوڑا؟ 

♦️وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

سورة النساء الاية رقم 75


ترجمہ : 

اورتمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں اور ان بے سہارا مردوں ، عورتوں اوربچوں کے لئے قتال نہیں کرتے ، جو کہتے ہیں : ’ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لیجئے ، جس کے باشندے ظالم ہیں ، ہمیں اپنے پاس سے کوئی نگہبان عطا فرمائیے اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کر دیجئے ؟؟ ‘


🛑جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ ، وَأَبَا طَلْحَةَ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولَانِ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا مِنِ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ، وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ ؛ إِلَّا خَذَلَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ. وَمَا مِنِ امْرِئٍ يَنْصُرُ مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ ؛ إِلَّا نَصَرَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ نُصْرَتَهُ ".( أبوداود في الأدب ••باب من رد عن مسلم غيبة ) 

ترجمہ : 

 حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور ابوطلحہ بن سہل انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے کسی مسلمان کو کہیں بے یار ومددگار چھوڑا جہاں کہ وہ بے عزت کیا جا رہا تھا تو اللہ اسے ایسی جگہ بے یار ومددگار چھوڑے گا جہاں وہ چاہے گا کہ ( کاش ) اس کی مدد کی جائے ۔ اور جس نے کسی مسلمان کی مدد کی ( اور اس کا دفاع کیا ) جہاں اسے بے عزت اور ذلیل کیا جا رہا تھا تو اللہ اس کی ایسی جگہ مدد فرمائے گا جہاں وہ چاہے گا کہ اس کی مدد کی جائے ۔ “

       اب یہ آپ کی عجیب و غریب کرم فرمائیاں ہیں کہ جہاں پوچھا جاتا ہے اس کو تو زبان پر بھی لانے سے کتراتے ہو - اور جہاں نہیں پوچھا جاتا وہاں بوجھ خود ہی اپنے سر لینے کے لئے بے تاب ہوئے جارہے ہو  ۔۔۔


         ◀️ سوال ▶️


 اگر یہ کہا جائے کہ احباب کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ہر کافر تک کلمہ پہنچائیں اور اگر کوئی کافر اس حال میں مر جائے کہ اس تک کلمہ نہ پہنچا ہو تو وہ قیامت کو اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری شکایت لگائے گا اور ہمارا گریبان پکڑے گا - 


        ◀️ جواب ▶️

تو اس کا جواب یہ ہے کہ احباب کا یہ کہنا بھی درست نہیں - ہم اس کی تھوڑی سی تفصیل عرض کر دیتے ہیں اس مسئلے میں کافروں کو کئی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے - 

پہلی قسم: وہ کافر جو ایسے دور دراز علاقوں میں رہتے ہوں جہاں کے بارے میں کسی کو علم نہ ہو کہ وہاں کچھ لوگ رہتے ہیں یا وہاں تک بآسانی پہنچنا ممکن نہ ہو - تو ایسے لوگوں کے بارے میں احباب کا مذکورہ بالا قول درست نہیں ورنہ تو - والعیاذ باللہ اس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گناہ گار ٹھہر تے ہیں اور ان کے گریبان اللہ تعالیٰ کے حضور کافروں کے ہاتھوں میں ہوں گے - کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں لاکھوں دور دراز کے رہنے والے لوگ ایسے مرے ہیں کہ کلمہ ان تک نہیں پہنچا جیسے افریقہ چین ہندوستان سندھ وغیرہ کے علاقے تو کیا یہ لوگ قیامت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گریبان پکڑیں گے ؟؟؟ کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے طاقت سے زیادہ پابندی عائد کی ہے ؟؟؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے کے مشہور بادشاہوں کو خطوط بھیجے اور اپنی وسعت کے مطابق مختلف اطراف میں صحابہ بھیجے لیکن پھر بھی آپ کے زمانے میں لاکھوں لوگ بغیر کلمے کے گئے ہیں - ہاں! ایسے لوگوں کا گناہ اگر کسی مسلمان کو ہوگا تو اس مسلمان کو ہوگا جن کو ایسے لوگوں کے بارے میں علم ہو اور وہ بآسانی وہاں پہنچ سکتا ہو لیکن پھر بھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت نہ دے تو ایسا شخص یقیناً گناہ گار ہے -

دوسری قسم: وہ کافر جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں سن چکے ہیں - اگر چہ تفصیلی معلومات نہ رکھتے ہوں - تو ان پر اپنی معلومات کی وجہ سے حجت تام ہو گئی ہے - اور مسلمان پر واجب نہیں کہ جب بھی اس سے ملے اسے اسلام کی دعوت دے - اچھی بات تو ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن بات تو قیامت کو گریبان پکڑنے کی ہورہی ہے - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو ان کی مجالس اور محافل میں اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دی اور اس کے بعد یہ نہیں تھا کہ آپ جب بھی کسی کافر کو دیکھتے اسے اسلام کی دعوت دیتے - اس پر دسیوں احادیث شاہد ہیں - مثلاً لقد جئتکم بالذبح والی حدیث یا ابو جہل اور دیگر سرداران کو جو بد دعاء دی تھی جب انہوں نے حالت نماز میں آپ کی پیٹھ پر اوجھڑی لا کر رکھ دی تھی یا صلح حدیبیہ میں قریش کے قاصدوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو گفتگو ہوئی یا یہودیوں کے ساتھ خرید و فروخت اور دیگر معاملات تو ان مواقع اور ان جیسے بہت سے دیگر مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کافروں کو اسلام کی دعوت نہیں دی کیونکہ اسلام کی دعوت انہیں پہنچ چکی تھی - 

بہر حال! کوئی کافر قیامت کے دن کسی گناہ گار مسلمان کا گریبان نہیں پکڑ سکتا اور نہ مسلمان کے خلاف وہ صاحب حجت ہو سکتا ہے- بلکہ کافر ہی کے خلاف حجت قائم ہوگی- اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں سن چکا ہو- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں-  

🛑وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ، وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ".( مسلم في الايمان ••باب وجوب الايمان برسالة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم إلى جميع الناس) 


ترجمہ : 

اللہ کی قسم اس امت میں سے جو بھی میرے بارے میں سنے یہودی ہو یا نصرانی اور پھر وہ اس حال میں مرے کہ مجھ پر اس کا ایمان نہ ہو  تو جہنم میں جائے گا 


      اور یہ بات واضح اور بے غبار ہے کہ آج کی معلوم دنیا میں شائد ایسے کافر نہیں ہیں یا بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں جن کو اسلام کی کسی بھی طرح دعوت نہ پہنچی ہو ۔۔ 

تیسری قسم: جس متعین کافر کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ اسے اسلام کی دعوت نہیں پہنچی یا وہ اسلام کے بارے میں جاننےکے لئے آپ کے پاس آئے اور قرائن سے اس کا متعنت نہ ہونا معلوم ہوجائے تو ایسے شخص کو حسب صلاحیت دین کی دعوت دینا اور دین کی معلومات دینا واجب ہے اور اس سے غفلت یقینا گناہ ہے

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ کی عدالت میں مسلمان کے خلاف فریق بن کر آئے گا اور اسے گریبان سے پکڑے گا کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ، بلکہ یہ کافر اہل فترة کی طرح معذور قرار دیا جائے گا اور اس کے ساتھ غیر مکلفین مجنونوں پاگلوں اور بچوں جیسا معاملہ کیا جائے گا کیونکہ اس کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی لیکن خلاصے کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ باتیں تو احباب کرام موجودہ کافرین کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں جن کو یقیناً اسلام کی دعوت پہنچی ہے اور ان پر حجت تام ہوچکی ہے تو ایسوں سے متعلق ان کی یہ باتیں یقیناً غلط، بے دلیل اور سوء ادب ہیں- 

 🖋️اب بحث کے آخر می دونوں پر تھوڑا سا غور کرتے ہیں  ۔۔۔ 

1: یہ کافروں کو دعوت نہیں دیتے بلکہ ان کے بقول وہ وہاں مسلمانوں سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں - جب وہ خود کافروں کو دعوت نہیں دیتے تو اس قسم کی باتیں کیوں کرتے ہیں ؟؟؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا تم اس کو دعوت نہیں دیتے ؟؟؟ بلکہ دعوت نہ دینے کا اصول بنا ہے ۔۔۔ 

2: جس شخص کے بارے میں تمہارا یہ خیال ہو کہ اگر وہ بغیر کلمے کے مرے گا تو تجھ سے پوچھا جائے گا تو کیا تم اس شخص کو اپنے ہاتھوں قتل کرلو گے ؟؟؟ نہیں نا  ۔۔۔ اور اگر اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی ہو کہ اس سے اللہ تعالیٰ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہیں تو ؟؟؟ اور اگر اس کے ساتھ ساتھ تم یہ بھی کہتے ہو کہ مجھے اس کے کفر سے تو بیشک نفرت کرنی ہے لیکن خود اس سے نہیں کرنی تو ؟؟؟ بتاؤ کیا تم اس شخص کو قتل کرسکو گے ؟؟؟ خود تو قتل کیا کرو گے جو دوسرا کرے گا وہ بھی تمہیں برا لگے گا - امید ہے آپ بات سمجھ چکے ہوں گے - ان تمام باتوں کو خوب سوچیں - کافروں کو دعوت نہ دینا ان کا اصول ٹھہرا اور پھر بھی صبح شام یہی راگ کہ ہم سے پوچھا جائے گا ۔۔۔ جب کافروں کو دعوت نہ دینا ان کا اصول ہے تو پھر ان جملوں کا ضرر ہی رہ گیا جو جہاد کے لئے تیار کیا گیا ہے -تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ 

قسط 4 

       کیا بغیر کلمے کے مرنے والوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا ؟


       احباب کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر امریکہ میں بھی کوئی بغیر کلمے کے مرے گا تو ہم سے اس بارے میں پوچھ جائے گا - آچھا ہے تم سے پوچھا جائے- المرء يؤخذ بإقراره - مرتے تو روزانہ لاکھوں بغیر کلمے کے ہیں اس لئے جہنم کے لئے خود کو تیار کرلو تم کس کس کا جواب دے پاؤ گے - بھائی تمہاری بات صراحتاً قرآن کے خلاف ہے - جس ذات اقدس کو اسلام اور احکام اسلام پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی تھی اس سے خطاب فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں-

   ♦️إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلاَ تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ

سورة البقرة الآية رقم 119----

   ترجمہ: اے پیغمبر بیشک ہم نے تمہیں کو حق دے کر اس طرح بھیجا ہے کہ تم جنت کی خوشخبری دو اور جہنم سے ڈراؤ اور جہنم والوں کے بارے میں آپ سے پوچھا نہیں جائے گا 

       رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے لوگ بغیر کلمے کے گئے ہیں ابو طالب و ابو لہب ۔۔۔  صحابہ کے گھروں میں بھی لوگ بغیر کلمے کے مرے ہیں - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کے دور میں لاکھوں لوگوں کو جہنم پہنچایا گیا - اور یہ امت چودہ صدیوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول کے طریقے کے مطابق بغیر کلمے والوں کو جہنم بھیج رہی ہے ۔۔۔۔ سورة صبا آيت 25  میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں- 

    [قُل لَّا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ ]

ترجمہ : 

کہہ دیجئے کہ ہمارے اعمال کے بارے میں تم سے اور تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا 

    اس کے علاوہ بار بار قرآن میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ رسولوں کا کام پہنچانا ہے بس - 

ملاحظہ فرمائیں 


1️⃣ وَإِنْ تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ 

آل عمران 20


2️⃣ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ 

ماىٔدة  92


3️⃣مَّا عَلَى الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ 

ماىٔدة 99


4️⃣ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ 

الرعد 40


5️⃣ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلاَّ الْبَلاغُ المبين 

النحل 35


6️⃣ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ

 النحل 82


7️⃣ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ 

النور54


8️⃣ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

العنکبوت18


9️⃣ وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ 

یس 17


🔟 إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ

لشوری48


1️⃣1️⃣  فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ 

التغابن12 


        ان تمام آیات کا مضمون یہ ہے کہ رسولوں کا کام صرف پہنچانا ہے آپ کا کام صرف پہنچانا ہے  ۔۔۔ اس لئے ان آیات کے ترجمے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ اس سے خواہ مخواہ بات لمبی ہو جائے گی 

                            ♦️♦️♦️♦️

      نیز اللہ تعالیٰ نے بار بار وضاحت سے یہ بھی فرمایا ہے کہ کسی دوسرے کے عمل سے کسی کی پکڑ نہ ہوگی ہر کسی کا عمل اس کی ذات تک محدود ہے ----

                       ملاحظہ فرمائیں 

1️⃣ وَلاَ تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

الأنعام 164


ترجمہ : 

اور ( یاد رکھو ) ہرشخص جو عمل کرتا ہے ، اس کی ذمہ داری اسی پر ہے اور کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا ،


2️⃣ مَّنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى

الاسراء 15

ترجمہ : 

جو شخص سیدھے راستے پر چلتا ہے تو یقیناً وہ اپنے ہی فائدے کے لئے چلتا ہے اور جو گمراہی کو اختیار کرتا ہے ، اس کا نقصان اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا ۔۔۔ 


3️⃣ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

فاطر 18


4️⃣ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى 

الزمر 7

    اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر بھی نظر رہے 

♦️يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ 

المائدہ 105 

ترجمہ : 

اے ایمان والو ! تم پر تمہاری ذمہ داری ہے ، اگر تم خود راہ راست پر ہو ، تو جو گمراہ ہو ، وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔۔۔ 

      ہاں اس آیت کے ظاہر  پر تکیہ کر کے بیٹھنا نہیں چاہئے حق کا بول بولنا اور ظالموں کو حق پر مجبور کرنا بھی ضروری ہے اس کے بغیر کوئی ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی کی طرف توجو دلایا کرتے تھے ۔۔۔ 


  🖊️دوسروں کو گمراہ کرو گے تو ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ان کا بوجھ اٹھانا پڑے گا جو شخص ضلال (گمراہی) کے ساتھ اضلال ( گمراہ کرنے) کا بھی مرتکب ہو اس کو اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں کے گناہوں کی بھی سزا ملے گی - جنہیں اس نے گمراہ کیا ہو- جس طرح واٹساپ میں چیز آپ کے پاس بھی رہتی ہے اور وہی چیز پوری کی پوری دوسرے کے پاس بھی پہنچ جاتی ہے اس طرح ان لوگوں کو بھی اپنے گناہوں کی پوری کی پوری سزا ملے گی اور گمراہ کنندہ کو بھی ملے گی۔۔۔  ان کو دوسروں کے اعمال کی سزا نہیں ملی بلکہ یہ اس کو اس کے اپنے فعل اضلال ( گمراہ کرنے ) کی سزا ملی نسأل الله العافيه ••• 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں -

   ♦️ولَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ 

العنكبوت 13 

ترجمہ : 

اور ان لوگوں کو قیامت کے دن اپنے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا اور اپنے بوجھ کے ساتھ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا 

                   🌹 اہل علم توجہ فرمائیں 🌹

یہ بہت حساس مقام ہے اہل علم کو نہایت درد مندی زیرکی اور بیدار مغزی کے ساتھ بلا خوف ملامت تمام اہل تحریف ، جمہوری ، سرکاری ، درباری ، رائیونڈی ، کی تحریفات کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔۔۔  اس میں سب کی خیر ہے خود علماء کی کہ فرض اتر جائے گا  ۔۔۔ مضِلین محرفین کی ۔۔۔ کہ ان کا بوجھ کم ہو جائے گا ۔۔۔ باقی امت کی کہ تحریف کی مضر اثرات سے بچ جائے گی ۔۔۔ مضلین ( گمراہی کے شکار لوگوں) کی ۔۔۔  کہ راہ راست پر آسکیں گے - آج بھی وقت ہے تدارک کیا جائے بلکہ مضبوط لگام دی جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب دارالافتاووں میں اس قسم کے سوال و جواب گردش کریں گے - 

   سوال: تبلیغی جماعت کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ 

جواب: موجودہ تبلیغی جماعت متعدد وجوہ کی بنا پر اہل سنت سے خارج ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے -

      اور خلاصہ بحث یہ ہے کہ: کسی کافر کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ بغیر کلمے کے کیوں مرا کیونکہ آج کی معلوم دنیا میں اسلام کی اجمالی دعوت ہر جگہ پہنچ چکی ہے اور صدیوں پہلے فقہاء کرام اس کی تصریح فرما چکے ہیں کہ آج دعوت ہر جگہ پہنچ چکی ہے اب قتال سے پہلے دعوت واجب نہیں مستحب ہے اگر دعوت کی صورت میں دشمن کی طرف سے نقصان کا خطرہ ہو تو بغیر دعوت ہی قتال شروع کیا جائے- چاروں مذاہب کی کسی بھی فقہی کتاب کو اٹھائیں کتاب الجہاد میں وہاں آپ کو یہ وضاحت مل جائے گی- گمراہ کنندگان سے گمراہ شد گان کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کو کیوں گمراہ کیا- تحریف اور خود ساختہ مسائل اور خود ساختہ احادیث متعدی گناہ ہیں ان سے جو لوگ گمراہ ہوتے ہیں ان کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کو کیوں گمراہ کیا ؟

جی ہاں پوچھا جائے گا- کہ مظلوم بندوں کی مدد کیوں نہیں کی- بے یار و مددگار کیوں چھوڑا؟ 

♦️وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

سورة النساء الاية رقم 75


ترجمہ : 

اورتمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں اور ان بے سہارا مردوں ، عورتوں اوربچوں کے لئے قتال نہیں کرتے ، جو کہتے ہیں : ’ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لیجئے ، جس کے باشندے ظالم ہیں ، ہمیں اپنے پاس سے کوئی نگہبان عطا فرمائیے اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کر دیجئے ؟؟ ‘


🛑جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ ، وَأَبَا طَلْحَةَ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولَانِ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا مِنِ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ، وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ ؛ إِلَّا خَذَلَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ. وَمَا مِنِ امْرِئٍ يَنْصُرُ مُسْلِمًا فِي مَوْضِعٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ ؛ إِلَّا نَصَرَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ نُصْرَتَهُ ".( أبوداود في الأدب ••باب من رد عن مسلم غيبة ) 

ترجمہ : 

 حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور ابوطلحہ بن سہل انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے کسی مسلمان کو کہیں بے یار ومددگار چھوڑا جہاں کہ وہ بے عزت کیا جا رہا تھا تو اللہ اسے ایسی جگہ بے یار ومددگار چھوڑے گا جہاں وہ چاہے گا کہ ( کاش ) اس کی مدد کی جائے ۔ اور جس نے کسی مسلمان کی مدد کی ( اور اس کا دفاع کیا ) جہاں اسے بے عزت اور ذلیل کیا جا رہا تھا تو اللہ اس کی ایسی جگہ مدد فرمائے گا جہاں وہ چاہے گا کہ اس کی مدد کی جائے ۔ “

       اب یہ آپ کی عجیب و غریب کرم فرمائیاں ہیں کہ جہاں پوچھا جاتا ہے اس کو تو زبان پر بھی لانے سے کتراتے ہو - اور جہاں نہیں پوچھا جاتا وہاں بوجھ خود ہی اپنے سر لینے کے لئے بے تاب ہوئے جارہے ہو  ۔۔۔


         ◀️ سوال ▶️


 اگر یہ کہا جائے کہ احباب کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ہر کافر تک کلمہ پہنچائیں اور اگر کوئی کافر اس حال میں مر جائے کہ اس تک کلمہ نہ پہنچا ہو تو وہ قیامت کو اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری شکایت لگائے گا اور ہمارا گریبان پکڑے گا - 


        ◀️ جواب ▶️

تو اس کا جواب یہ ہے کہ احباب کا یہ کہنا بھی درست نہیں - ہم اس کی تھوڑی سی تفصیل عرض کر دیتے ہیں اس مسئلے میں کافروں کو کئی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے - 

پہلی قسم: وہ کافر جو ایسے دور دراز علاقوں میں رہتے ہوں جہاں کے بارے میں کسی کو علم نہ ہو کہ وہاں کچھ لوگ رہتے ہیں یا وہاں تک بآسانی پہنچنا ممکن نہ ہو - تو ایسے لوگوں کے بارے میں احباب کا مذکورہ بالا قول درست نہیں ورنہ تو - والعیاذ باللہ اس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گناہ گار ٹھہر تے ہیں اور ان کے گریبان اللہ تعالیٰ کے حضور کافروں کے ہاتھوں میں ہوں گے - کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں لاکھوں دور دراز کے رہنے والے لوگ ایسے مرے ہیں کہ کلمہ ان تک نہیں پہنچا جیسے افریقہ چین ہندوستان سندھ وغیرہ کے علاقے تو کیا یہ لوگ قیامت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گریبان پکڑیں گے ؟؟؟ کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے طاقت سے زیادہ پابندی عائد کی ہے ؟؟؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے کے مشہور بادشاہوں کو خطوط بھیجے اور اپنی وسعت کے مطابق مختلف اطراف میں صحابہ بھیجے لیکن پھر بھی آپ کے زمانے میں لاکھوں لوگ بغیر کلمے کے گئے ہیں - ہاں! ایسے لوگوں کا گناہ اگر کسی مسلمان کو ہوگا تو اس مسلمان کو ہوگا جن کو ایسے لوگوں کے بارے میں علم ہو اور وہ بآسانی وہاں پہنچ سکتا ہو لیکن پھر بھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت نہ دے تو ایسا شخص یقیناً گناہ گار ہے -

دوسری قسم: وہ کافر جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں سن چکے ہیں - اگر چہ تفصیلی معلومات نہ رکھتے ہوں - تو ان پر اپنی معلومات کی وجہ سے حجت تام ہو گئی ہے - اور مسلمان پر واجب نہیں کہ جب بھی اس سے ملے اسے اسلام کی دعوت دے - اچھی بات تو ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن بات تو قیامت کو گریبان پکڑنے کی ہورہی ہے - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو ان کی مجالس اور محافل میں اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دی اور اس کے بعد یہ نہیں تھا کہ آپ جب بھی کسی کافر کو دیکھتے اسے اسلام کی دعوت دیتے - اس پر دسیوں احادیث شاہد ہیں - مثلاً لقد جئتکم بالذبح والی حدیث یا ابو جہل اور دیگر سرداران کو جو بد دعاء دی تھی جب انہوں نے حالت نماز میں آپ کی پیٹھ پر اوجھڑی لا کر رکھ دی تھی یا صلح حدیبیہ میں قریش کے قاصدوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو گفتگو ہوئی یا یہودیوں کے ساتھ خرید و فروخت اور دیگر معاملات تو ان مواقع اور ان جیسے بہت سے دیگر مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کافروں کو اسلام کی دعوت نہیں دی کیونکہ اسلام کی دعوت انہیں پہنچ چکی تھی - 

بہر حال! کوئی کافر قیامت کے دن کسی گناہ گار مسلمان کا گریبان نہیں پکڑ سکتا اور نہ مسلمان کے خلاف وہ صاحب حجت ہو سکتا ہے- بلکہ کافر ہی کے خلاف حجت قائم ہوگی- اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں سن چکا ہو- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں-  

🛑وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ، وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ".( مسلم في الايمان ••باب وجوب الايمان برسالة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم إلى جميع الناس) 


ترجمہ : 

اللہ کی قسم اس امت میں سے جو بھی میرے بارے میں سنے یہودی ہو یا نصرانی اور پھر وہ اس حال میں مرے کہ مجھ پر اس کا ایمان نہ ہو  تو جہنم میں جائے گا 


      اور یہ بات واضح اور بے غبار ہے کہ آج کی معلوم دنیا میں شائد ایسے کافر نہیں ہیں یا بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں جن کو اسلام کی کسی بھی طرح دعوت نہ پہنچی ہو ۔۔ 

تیسری قسم: جس متعین کافر کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ اسے اسلام کی دعوت نہیں پہنچی یا وہ اسلام کے بارے میں جاننےکے لئے آپ کے پاس آئے اور قرائن سے اس کا متعنت نہ ہونا معلوم ہوجائے تو ایسے شخص کو حسب صلاحیت دین کی دعوت دینا اور دین کی معلومات دینا واجب ہے اور اس سے غفلت یقینا گناہ ہے

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ کی عدالت میں مسلمان کے خلاف فریق بن کر آئے گا اور اسے گریبان سے پکڑے گا کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ، بلکہ یہ کافر اہل فترة کی طرح معذور قرار دیا جائے گا اور اس کے ساتھ غیر مکلفین مجنونوں پاگلوں اور بچوں جیسا معاملہ کیا جائے گا کیونکہ اس کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی لیکن خلاصے کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ باتیں تو احباب کرام موجودہ کافرین کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں جن کو یقیناً اسلام کی دعوت پہنچی ہے اور ان پر حجت تام ہوچکی ہے تو ایسوں سے متعلق ان کی یہ باتیں یقیناً غلط، بے دلیل اور سوء ادب ہیں- 

 🖋️اب بحث کے آخر می دونوں پر تھوڑا سا غور کرتے ہیں  ۔۔۔ 

1: یہ کافروں کو دعوت نہیں دیتے بلکہ ان کے بقول وہ وہاں مسلمانوں سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں - جب وہ خود کافروں کو دعوت نہیں دیتے تو اس قسم کی باتیں کیوں کرتے ہیں ؟؟؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا تم اس کو دعوت نہیں دیتے ؟؟؟ بلکہ دعوت نہ دینے کا اصول بنا ہے ۔۔۔ 

2: جس شخص کے بارے میں تمہارا یہ خیال ہو کہ اگر وہ بغیر کلمے کے مرے گا تو تجھ سے پوچھا جائے گا تو کیا تم اس شخص کو اپنے ہاتھوں قتل کرلو گے ؟؟؟ نہیں نا  ۔۔۔ اور اگر اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی ہو کہ اس سے اللہ تعالیٰ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہیں تو ؟؟؟ اور اگر اس کے ساتھ ساتھ تم یہ بھی کہتے ہو کہ مجھے اس کے کفر سے تو بیشک نفرت کرنی ہے لیکن خود اس سے نہیں کرنی تو ؟؟؟ بتاؤ کیا تم اس شخص کو قتل کرسکو گے ؟؟؟ خود تو قتل کیا کرو گے جو دوسرا کرے گا وہ بھی تمہیں برا لگے گا - امید ہے آپ بات سمجھ چکے ہوں گے - ان تمام باتوں کو خوب سوچیں - کافروں کو دعوت نہ دینا ان کا اصول ٹھہرا اور پھر بھی صبح شام یہی راگ کہ ہم سے پوچھا جائے گا ۔۔۔ جب کافروں کو دعوت نہ دینا ان کا اصول ہے تو پھر ان جملوں کا ضرر ہی رہ گیا جو جہاد کے لئے تیار کیا گیا ہے -

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔