Tuesday 31 March 2020

ہجرت اور نصرت کے مفہوم میں تحریف... قسط 5



*.......... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟......... *

قسط 5

ہجرت اور نصرت کے مفہوم میں تحریف

 ❤️ تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ❤️

قسط 5

♦ہجرت اور نصرت کے مفہوم میں تحریف ♦

 

احبابِ کرام اکثر و بیشتر اس طرح کے جملے ارشاد فرماتے رہتے ہیں

( دین ہجرت اور نصرت سے پھیلا ہے. .. ہم نے ہجرت کی ہے آپ ہماری نصرت فرمائیں ... .. الله کے راستے میں نکلنے والی جماعتوں کی نصرت کریں ..... کہاں سے آ رہے ہو ؟ فلاں جگہ جماعت آئی ہے اس کی نصرت کرکے آرہا ہوں )


بہت خوب جناب ... مہاجرین بهی تم اور انصار بهی تم. . . . مجاہد بھی تم غازی بھی تم ... اللہ کے راستے میں بهی تم.... .... کون سی فضیلت ہے جو تم سے رہ گئی ہے ؟


ہجرت اور نصرت کا شریعت میں ایک خاص مفہوم ہے اس مفہوم سے اسے ہٹا کر کسی دوسری جگہ استعمال کرنا تحریف ہے جو یہودی صفت اور بہت بڑا گناہ ہے. ... شریعت میں ہجرت کا مفہوم ہے دارالحرب سے دارالاسلام منتقل ہونا ... یا اپنے علاقے کو فتنوں کی کثرت کی وجہ سے چھوڑ کر کسی ایسے علاقے چلے جانا جہاں نسبتاً فتنے کم ہوں


ذہن میں رہے کہ ہجرت کی وجہ اپنے دین کی حفاظت ہوتی ہے. .... یعنی کوئی شخص دار الحرب سے دارالاسلام منتقل ہونا ہے یا کثیر الفتن علاقے کو چھوڑ کر نسبتاً قلیل الفتن علاقے میں جاتا ہے تو اس میں اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے دین کو محفوظ کیا جائے. .. ..


دوسری بات جس کی طرف توجہ ضروری ہے یہ ہے کہ ہجرت میں وطن کو چھوڑا جاتا ہے ... سفر کرکے واپس آنے کو ہجرت نہیں کہتے. .... جو شخص وطن کو چھوڑے نہیں صرف سفر کرے اور مقصد اپنے دین کو لے کر بھاگنا نہیں ہوتا بلکہ کسی مدرسے میں پڑهنا یا پڑهانا ہوتا ہے یا وہاں لوگوں کو کسی ترتیب کیلئے وصول کرنا ہوتا ہے تو اسے ہجرت ہرگز نہیں کہا جاسکتا. .... ٹهیک ہے کہ پڑهنا پڑهانا دینی کام ہے اور اس سفر کا اجر بهی ملےگا ان شاء اللہ لیکن یہ ہجرت ہرگز نہیں اور اسے ہجرت کہنا دین کے مقرر کردہ خاص مفہوم کو تبدیل کرنا ہے جسے تحریف کہتے ہیں ....


اسی طرح نصرت کا ایک خاص دینی مفہوم ہے جسے بدلنا ظلم اور تحریف ہے ... نصرت کہتے ہیں مہاجرین کو پناہ دینا اور ان کی مدد کرنا ... چند مالٹے اور سیب لیکر کسی کی ملاقات کیلئے جانا نصرت ہرگز نہیں ... یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کا مذاق اڑانا ہے .....


اگر ہم ہر دینی مفہوم میں یوں فیاضی سے کام لیتے رہے تو ہم میں سے ہر شخص مجاہد بهی ہے مہاجر بهی اور انصاری بهی ... مبلغ بهی ہے اور داعی بهی .... کیونکہ ہر شخص تھوڑی بہت محنت کرتا ہے تو مجاہد ہوا ... مسجد جانے کیلۓ اپنے گھر کو چھوڑتا ہے مہاجر ہوا .... کسی نہ کسی کی کوئی نہ کوئی مدد کرتا ہے انصاری ہوا. ... کوئی نہ کوئی بات پہنچاتا ہے اور کسی نہ کسی چیز کی دعوت دیتا ہے مبلغ اور داعی ہوا .... بلکہ اگر کچھ مزید وسعت سے کام لیں تو روئے زمین پر موجود ہر شخص مومن ہے کیونکہ ایمان کہتے ہیں یقین کو ... تصدیق کو اور ہر شخص کسی نہ کسی چیز کا یقین کرتا ہے اور تصدیق کرتا ہے. .. مثلاً اس بات کا ہر کسی کو یقین ہے کہ دس پانچ سے زیادہ ہے اور اس کی بلا تامل تصدیق بهی کرتا ہے. .. لیکن آپ مجبور ہیں کہ کہہ دیں کہ بهئ ایمان ہر تصدیق کا نام نہیں اور مومن ہر تصدیق کرنے والے کو نہیں کہتے .... بلکہ ایمان اللہ تعالیٰ کو جملہ صفات کے ساتھ ماننے رسالت کا اقرار کرنے تمام انبیاء و کتب روز آخرت جزا و سزا ملائکہ اور تقدیر وغیرہ کی ویسی تصدیق کو کہتے ہیں جیسا کہ اسلام کہتا ہے .... اور اگر ہم ہر مفہوم میں وسعت سے کام لیتے رہے تو پھر دین کا کشمیر سے بهی بدتر حال ہوگا ...


بھائی میرے! دین کی جو مخصوص اصطلاحات ہیں ان کو لغوی معنی میں استعمال کرنا ظلم ہے بےدینی ہے .... ایمان ... بعث ... تقدیر ... صلاه زکوٰۃ صوم ... ہجرت. .. نصرت. .. جہاد. .. حج وغیرہ وغیرہ شرعی اصطلاحات ہیں ان کو ان شرعی معنوں میں استعمال کرنا ضروری ہے ورنہ آگے یہودیت اور دجالیت کی سرحد شروع ہوتی ہے ... ہاں بعض دفعہ قرائن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے :


وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ

سورة التوبة الاية رقم 103

ترجمہ :

اور انھیں دُعادیجئے ، بے شک آپ کی دُعا ان کے لئے طمانینت کا باعث ہے


إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

سورة الأحزاب الاية رقم 56

ترجمہ : 

بلاشبہ اللہ نبی پر رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے اس پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو 


یہاں جو عربی تعبیر اختیار کی گئی ہے اس سے اور سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صلاة سے نماز نہیں بلکہ دعا ، جنازہ، رحمت، استغفار اور درود مراد ہے


نیز


وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّا

سورة مريم الاية رقم 13


قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى

سورة الأعلى الاية رقم 14


قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا

سورة الشمس الاية رقم 9


ان آیات میں لفظ زکوٰۃ شرعی معنی میں نہیں بلکہ لغوی معنی یعنی پاکیزگی، صفائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب زکوٰۃ کے مسائل و فضائل کو پاکیزگی پر منطبق کیا جائے


اذان کے معنی کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں .. ہر مسلمان جانتا ہے کہ اذان کسے کہتے ہیں اور مؤذن کون ہوتا ہے .. لیکن لفظ اذان قرآن کریم میں سننے، سنانے آواز دینے اور اعلان کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے


وَنَادَى أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا قَالُواْ نَعَمْ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَن لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ

سورة الأعراف الاية رقم 44

ترجمہ : 

اور جنت والے دوزخ والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ’ ہمارے پروردگار نے ہم سے جو کچھ وعدہ کیا تھا ، ہم نے تو اس کو سچا پایا ، تو کیا تم لوگوں نے بھی اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ہے ‘ ؟ وہ کہیں گے : ہاں ، --- پھر ان کے درمیان ایک پکارنے والا پکارے گا کہ ظالموں پر اﷲ کی لعنت ہو 


فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ

سورة يوسف الاية رقم 70

ترجمہ : 

پھر جب اُن کا سامان تیار کردیا تو پانی پینے کا برتن اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا ، پھر ایک پکارنے والے نے اعلان کیا : اے قافلہ والو ! تم لوگ ضرور چوری کے مرتکب ہوئے ہو


وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ

سورة الحج الاية رقم 27


ترجمہ : 

اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو ، تمہارے پاس لوگ پیدل اور اونٹنیوں پر دور دراز راستے سے پہنچیں گے 

فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ

سورة البقرة الاية رقم 279

ترجمہ :

اگر تم سود کو نہیں چھوڑو گے تو سن لو ایک بہت بڑی جنگ کے بارے میں ، اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے 


وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ

سورة الأعراف الاية رقم 167

ترجمہ : 

اور جب تمہارے پروردگار نے خبردار کر دیا کہ وہ قیامت تک ان پر ایسوں کو مسلط کرے گا جو ان کو سخت سزائیں دیں گے یقینا تمہارا پروردگار بہت جلد حساب لینے والا ہے اور وہ غفور رحیم ہے 


وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ

سورة إبراهيم الاية رقم 7

ترجمہ : 

اور ( اس وقت کو یاد کرو ) جب آپ کے رب نے اعلان کیا کہ ہم قیامت کے دن تک ضرور یہودیوں پر ایسے لوگوں کو مسلط رکھیں گے ، جو ان پر بدترین عذاب ڈھائیں گے ، بے شک آپ کے رب جلد ہی سزا دے دیتے ہیں ، اور وہ معاف کرنے والے اور مہربان بھی ہیں ،


وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ

سورة الإنشقاق الاية رقم 2

ترجمہ : 

اور آسمان اپنے رب کی سنے گا اور اسے یہی لازم ہے  ۔۔۔ 


        دیکھیں ان تمام آیات میں اذان ، سننے سنانے خبردار کرنے اور اعلان کرنے کے معنی میں آیا ہے ۔۔۔ یہ تو ہم نے چند آیات نقل کر دیں ورنہ اس طرح کی آیات اور بھی ہیں ۔۔۔ 


اب کیا اذان کے فضائل و مسائل یہاں لے آئیں ؟؟ اور یہ کہہ دیں کہ جو بھی کوئی آواز دے گا .. کسی کو پکارے گا تو وہ مؤذن ہے اذان دے رہا ہے ؟ اور پھر اذان کے فضائل و مسائل ان کے لئے ثابت کر دیں ؟ ما لكم كيف تحكمون ؟


مسلمین کو معلوم ہے کہ مسجد کسے کہتے ہیں لیکن احادیث میں  " سجدے کی جگہ " یا " نماز کی جگہ " کو بھی مسجد کہا گیا ہے اگرچہ وہ حقیقت میں مسجد نہ ہو


عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّةُ زَيْنَبَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْدٍ فَاذْكُرْهَا عَلَيَّ قَالَ فَانْطَلَقَ زَيْدٌ حَتَّى أَتَاهَا وَهِيَ تُخَمِّرُ عَجِينَهَا قَالَ فَلَمَّا رَأَيْتُهَا عَظُمَتْ فِي صَدْرِي حَتَّى مَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَنْظُرَ إِلَيْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَهَا فَوَلَّيْتُهَا ظَهْرِي وَنَكَصْتُ عَلَى عَقِبِي فَقُلْتُ يَا زَيْنَبُ أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُكِ قَالَتْ مَا أَنَا بِصَانِعَةٍ شَيْئًا حَتَّى أُوَامِرَ رَبِّي فَقَامَتْ إِلَى مَسْجِدِهَا

مسلم في النكاح .. باب زواج زينب بنت جحش


       پورے ترجمے سے تو بات لمبی ہو جائے گی خلاصہ یہ ہے کہ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی طرف بھیجا کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغامِ نکاح پہنچا دیں  ۔۔۔ جب حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس وقت کچھ نہیں کر سکتی جب تک کہ اپنے رب سے مشورہ نہ کرلوں چنانچہ وہ اپنی مسجد کی طرف اٹھیں ۔۔۔ 

یہاں مسجد سے حقیقی مسجد مراد نہیں بلکہ نماز کی جگہ مراد ہے ۔۔۔ 


عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ جُوَيْرِيَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا بُكْرَةً حِينَ صَلَّى الصُّبْحَ وَهِيَ فِي مَسْجِدِهَا ثُمَّ رَجَعَ بَعْدَ أَنْ أَضْحَى وَهِيَ جَالِسَةٌ فَقَالَ مَا زِلْتِ عَلَى الْحَالِ الَّتِي فَارَقْتُكِ عَلَيْهَا قَالَتْ نَعَمْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ قُلْتُ بَعْدَكِ أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَوْ وُزِنَتْ بِمَا قُلْتِ مُنْذُ الْيَوْمِ لَوَزَنَتْهُنَّ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ .. مسلم في كتاب الذكر والدعاء .. باب في الذكر أول النهار


حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ ام المومنین جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے بعد ان کے ہاں سے نکلے اور وہ اپنی مسجد میں تھیں پھر چاشت کے وقت تشریف لائے اور وہ اسی جگہ میں بیٹھی ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تا آخر حدیث 

یہاں بھی نماز کی جگہ کے لیے مسجد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے 


عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالَ لِي انْطَلِقْ إِلَى الْمَنْزِلِ فَأَسْقِيَكَ فِي قَدَحٍ شَرِبَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُصَلِّي فِي مَسْجِدٍ صَلَّى فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ فَسَقَانِي سَوِيقًا وَأَطْعَمَنِي تَمْرًا وَصَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِهِ

البخاري في الاعتصام بالكتاب والسنة .. باب ما ذکر النبي صلى الله عليه وسلم وحض على اتفاق أهل العلم


حضرت ابوبرزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ جب میں مدینے آیا تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات ہوئی انہوں نے فرمایا کہ چلیں گھر چلتے ہیں آپ کو اس پیالے سے پلاؤں گا جس پیالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوش فرما چکے ہیں اور آپ اس جگہ نماز پڑھ لیں گے جس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے 

یہاں بھی نماز کی جگہ کو مسجد کہا گیا ہے 


اب کیا ہر نماز گاہ کے لئے مسجد کہہ کر مسجد کے فضائل و مسائل ثابت کر دیں ؟ أفلا تعقلون ؟


             ♦ سوال ♦

      کئی آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت و نصرت کے مفہوم میں وسعت ہے ۔۔۔  جیسے : 


1️⃣ قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْراهِيمُ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا 

سورة مريم الاية رقم 46

ترجمہ:

ابراہیم ( علیہ السلام ) کے باپ نے کہا : اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے پِھر گیا ہے ؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تم کو پتھر مار مارکر ہلاک کردوں گا اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ! 

دیکھیں یہاں چھوڑنے کے لئے لفظ ہجرت استعمال ہوا ہے ۔۔۔ 


2️⃣ وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا 

سورة المزمل الاية رقم 10

ترجمہ: 

اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں ، اس پر صبر کیجئے اور خوبصورتی کے ساتھ ان کو چھوڑ دیجئے ۔۔۔ 

دیکھیں یہاں بھی چھوڑنے کے لئے لفظ ہجرت استعمال ہوا ہے ۔۔۔ 


3️⃣ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ 

سورة المدثر الاية رقم 5

ترجمہ: 

اور بتوں کو چھوڑے رکھئے ۔۔۔

 یہاں چھوڑنے کے لئے لفظ ہجرت استعمال ہوا ہے ۔۔۔ 


4️⃣ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : " أَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ رَبُّكَ عَزَّ وَجَلَّ

سنن النسائي | كِتَابُ الْبَيْعَةِ  | هِجْرَةُ الْبَادِي ۔۔  مسند أحمد |مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. 

الحديث صحيح 

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا :  یا رسول اللّٰہ ! کونسی ہجرت افضل ہے ؟  آپ نے فرمایا : اپنے رب کی نافرمانیوں کو چھوڑنا  ۔۔۔ 


      غور فرمائیں یہاں گناہ چھوڑنے کو نہ صرف ہجرت کہا گیا ہے بلکہ ترکِ وطن سے افضل بھی قرار دیا ہے ۔۔۔ 


5️⃣ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ عُلْوِيٌّ جَرِيءٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا عَنِ الْهِجْرَةِ، إِلَيْكَ أَيْنَمَا كُنْتَ، أَوْ لِقَوْمٍ خَاصَّةً، أَمْ إِلَى أَرْضٍ مَعْلُومَةٍ، أَمْ إِذَا مُتَّ انْقَطَعَتْ ؟ قَالَ : فَسَكَتَ عَنْهُ يَسِيرًا، ثُمَّ قَالَ : " أَيْنَ السَّائِلُ ؟ " قَالَ : هَا هُوَ ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " الْهِجْرَةُ أَنْ تَهْجُرَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، ثُمَّ أَنْتَ مُهَاجِرٌ، وَإِنْ مُتَّ بِالْحَضَرِ "

مسند أحمد |مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.  

ترجمہ : 

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عوالی مدینہ کا ایک دیہاتی جو کہ سوال کرنے میں بہت جری تھا اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، پوچھا : یارسول اللہ ! ہمیں ہجرت کے بارے میں بتائیں ۔۔۔ آپ کی طرف ہوگی آپ جہاں بھی ہوں ؟  یا کسی خاص قوم کی طرف ؟ یا کسی معلوم زمین کی طرف ؟ یا آپ کی وفات سے ختم ہو جائے گی ؟ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کچھ دیر کے لئے خاموش رہے پھر فرمایا : سائل کہاں ہے ؟ اس نے کہا : یا رسول اللہ ! میں یہ رہا ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہجرت یہ ہے کہ تم ظاہری باطنی فواحش کو چھوڑ دو اور نماز قائم کرو زکوٰۃ دیتے رہو ، پھر تم مہاجر ہو خواہ تمہیں اپنے وطن میں موت آئے ۔۔۔ 

        دیکھئے اس حدیث نے تو سارا قصہ ہی صاف کر دیا  اور صاف صاف بتا دیا کہ ہجرت کے لئے وطن چھوڑنا ضروری نہیں ، لہذا تبلیغی عمل کو ہجرت کہنا درست ہے  ۔۔۔ 


        اس طرح نصرت کے مفہوم میں بھی وسعت ہے لہذا تبلیغی عمل کے لئے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ درج ذیل آیت کو دیکھیں 


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ 

سورة محمد الاية رقم 7


ترجمہ :

اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا ۔۔۔ 


        اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ نصرت کے مفہوم میں وسعت ہے اور وہ صرف ، تارکینِ وطن کی مدد کے ساتھ خاص نہیں ہے  ۔۔۔ 


           پس ثابت ہوا کہ تبلیغی حضرات  ہجرت اور نصرت کے الفاظ جو استعمال کر رہے ہیں وہ غلط نہیں ۔۔۔ 


                 ◀️ جواب ▶️


    جی نہیں ایسا بالکل نہیں ہے ۔۔۔ ہجرت اور نصرت دو خاص اصطلاحات ہیں جن کا معنی معلوم ہے اور اوپر بیان بھی کر دیا گیا  ۔۔۔ اور اسی خصوصیت کی وجہ سے ، مہاجرین کو مہاجرین اور انصار کو انصار کہا گیا ۔۔۔ اگر ہجرت کے لئے ترکِ وطن ضروری نہ ہوتا اور ہر مدد کو نصرت کہا جا سکتا تو پھر صحابہ میں مہاجرین و انصار کی یہ تقسیم نہ ہوتی  ۔۔۔ کیوں کہ ہر صحابی نے دین کی مدد کی تھی پھر ہر صحابی کو انصاری کہا جاتا  اور تمام صحابہ انصار ہوتے ۔۔۔ اسی طرح ہر صحابی نے جہاد کیلئے گھر چھوڑا تھا تو ہر صحابی کو مہاجر کہنا چاہئے تھا اور سب صحابہ مہاجرین ہوتے  ۔۔۔ اس طرح مہاجرین اور انصار کی وہ تمیز نہ ہونی چاہئے تھی ، جو تھی اور ہے ۔۔۔  لیکن ایسا نہیں ہوا  ۔۔۔ صحابہ میں مہاجرین کا گروہ الگ اور انصار کا گروہ الگ تھا یعنی الگ الگ تمیز تھی ۔۔۔ پس ثابت ہوا کہ ہر چھوڑنا ، ہجرت نہیں ۔۔۔ اور ہر مدد ، نصرت نہیں  ۔۔۔ اب آتے ہیں ان آیات اور احادیث کی طرف ۔۔۔  ان آیات و احادیث میں ہجرت و نصرت کے لفظی معنی بیان کئے گئے ہیں لہذا ان کو یہیں پر لفظی معنی میں لے لینا چاہئے اور ان کی وجہ سے اصطلاحات کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت نہیں ۔۔۔ جس طرح ایمان صلاۃ زکوۃ وغیرہ کے الفاظ قرآن کریم میں کئی بار لفظی معنی میں بھی استعمال ہوئے ہیں  لیکن اس کی وجہ سے ان کے شرعی معنی کو نہ تو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ اس میں خلط ملط کرنے کی گنجائش ہے ۔۔۔ اسی طرح ہجرت اور نصرت کے لفظی معنی کا استعمال بھی قرآن و سنت میں آیا ہے لیکن اس کی وجہ سے اصطلاحات پر تجاوز کی گنجائش نہیں دی جا سکتی  ۔۔۔ 


        نیز جو وسعت یہاں معلوم ہورہی ہے اسے تم خود بهی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ... ہر چھوڑنے کو تم بھی ہجرت کہنے کے لیے تیار نہیں  ۔۔۔ اسی طرح ہر مدد کو نصرت کہنے کے لئے بھی تیار نہیں  ۔۔۔ ورنہ تم ، لوگوں کے متعدد اعمال کو ہجرت اور نصرت سے تعبیر کرتے جیسے جہاد کے لئے جانا گھر چھوڑنا علم کے لئے گھر چھوڑنا کسی کی عیادت کے لئے گھر چھوڑنا حلال روزی کمانے کے لئے گھر چھوڑنا  ۔۔۔ اور ان سب اعمال کو نصرت بھی کہنا چاہئے تھا کیونکہ ان میں یا تو دین کی نصرت ہے یا اللہ کے بندوں کی ، لیکن آپ ایسا نہیں کہتے  ۔۔۔ معلوم ہوا کہ جو وسعت یہاں معلوم ہو رہی ہے خود آپ بھی اسے تسلیم نہیں کرتے ۔۔۔ مزید وضاحت کے لئے ایک مثال لیجئے  ۔۔۔  فرض کریں ایک شخص گهر بیٹها ہے اور آپ کی ترتیب میں شرکت نہیں کررہا ... آپ اس سے کہتے ہیں کہ دین ہجرت اور نصرت سے پھیلا ہے آپ چار مہینے کیلئے نکل جائیں دیکھو میں بهی گهر سے ہجرت کرکے آیا ہوں ... اور وہ یہ احادیث آپ کو سنا دے اور کہہ دے کہ گهر چھوڑنا ضروری نہیں .. بس گناہ چھوڑ دو اور وہ میں کر رہا ہوں .. لہٰذا میں مہاجر ہوں .... تو آپ اس شخص کے اس استدلال کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ اتنا مفہوم تو آپ کے ذہن میں بهی بیٹھ گیا ہے کہ ہجرت میں گهر کا چھوڑنا ایک لازمی چیز ہے ...


       اب سنیں آیات و احادیث کا مطلب : 


       تینوں آیات میں ہجرت کا لفظ ، اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔۔۔ اس طرح سوال میں مذکور  سب سے آخری آیت میں جو نصرت کا لفظ ہے وہ بھی لفظی معنی میں ہے   ۔۔۔ اور باقی رہی احادیث تو ان میں مہاجرین کو مخاطب کیا گیا ہے کہ تم جو دین کو بچانے کیلئے گهر بار چھوڑ آئے ہو تو اس انتہائی تکلیف دہ عمل کا مقصد دین کی حفاظت تھا  یہاں آکر اس مقصد سے غافل نہ ہونا کہیں نفس و شیطان تمہیں دھوکے میں نہ ڈالیں ... اصل مہاجر تو وہ ہے جو حقیقی معنوں میں دین کو محفوظ کرلے ... یہ نہیں کہ دین کی حفاظت کی خاطر گهر بار چھوڑ آیا اور پھر اپنے ہی ہاتھوں اسی متاع گراں کو لٹاتا رہا. .. حقیقی مہاجر وہی ہے جو ہجرت کے ساتھ ساتھ گناہوں کو بھی چھوڑ دے تاکہ مقصد اچھی طرح حاصل ہو جائے ۔۔۔ اس کے قریب قریب ایک اور حدیث ہے جس سے اس کی وضاحت اچھی طرح ہو جاتی ہے  ۔۔۔ اور وہ یہ ہے ۔۔۔ ⬇️ 

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ : " إِنَّ الْمُهَاجِرَ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ، وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ". 

مسند أحمد |مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.  

ترجمہ : 

فرمایا مہاجر وہ ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے اور مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمین محفوظ رہیں 


  اس حدیث کے شروع میں جو المهاجر کا لفظ ہے اس پر توجہ رکھیں کہ اس میں ہجرت کا مادہ موجود ہے لہٰذا ہجرت والے سے بات ہورہی ہے گهر بیٹھے افراد اس کو گھر بیٹھنے کی دلیل نہیں بنا سکتے کہ اصل مہاجر تو وہ ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے اس کے لئے گھر چھوڑنا کوئی ضروری نہیں ... اگر کوئی ایسا کرےگا تو یقیناً ظلم کرےگا ۔۔۔ 


مزید دو مثالوں سے سمجھ لیں ... رسول الله صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں :المسلم من سلم المسلمون من لسانه و یدہ والمومن من امنه الناس علی دمائہم و اموالہم ... مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان و مال کے معاملے میں بےخوف ہوں .... اب اگر کوئی کافر آ کر تم سے تمہاری بیٹی یا بہن کا رشتہ طلب کرے اور تم اس سے کہو کہ تم تو کافر ہو ... اور آگے سے وہ یہی حدیث پڑھ دے کہ میں مسلمان ہوں کیونکہ میری زبان اور ہاتھ سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی اور لوگ مجھ سے اپنی جان و مال کے معاملے میں بالکل نہیں ڈرتے .... تو کیا آپ اس کے اس استدلال کو مان لیں گے ؟؟؟نہیں نا ... ظاہر ہے آپ کا جواب یہی ہوگا کہ یہاں تو بات ہی ان لوگوں سے ہورہی ہے جو اسلام و ایماں کی دولت سے مالامال ہیں ان سے کہا جارہا ہے کہ اپنے اسلام و ایمان کو مکمّل کرلو ... جس کے پاس سرے سے اسلام ہی نہیں وہ اس حدیث کو کیسے پیش کر سکتا ہے


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : المجاهد من جاهد نفسه فی طاعة الله. .. احمد ابن حبان طبرانی ترمذی وغیرہ ... یہاں اگر کوئی کہے کہ میں مجاہد ہوں حالانکہ وہ محاذ کی طرف کبھی نہیں گیا تو اسے کہا جائے گا کہ بھائی یہ بات تم سے ہو ہی نہیں رہی اس کے پہلے لفظ پر غور کرو المجاهد ... اس کا مخاطب مجاہد ہے کہ بهئ تم تو آگئے جان کی قربانی دے کر لیکن نفس سے غافل نہیں ہوتا کامل مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کو الله تعالی کی اطاعت میں استعمال کرے ....


اگر کوئی استاد طلبہ سے کہے کہ طالب علم تو وہ ہے جو تہجد پڑهے تو ظاہر ہے کہ کسی جاہل کو محض تہجد کی وجہ سے طالب علم قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس کا مخاطب ہی طالب علم ہے کہ کامل طالب علم وہ ہے جو تہجد پڑهے .....


امید ہے بات سمجھ میں آ چکی ہوگی...


        تو ہجرت کی حدیث کا ایک جواب تو ہو گیا کہ اس کے مخاطبین مہاجرین تھے  ۔۔۔ اس کا ایک اور جواب بھی ہے جس سے سوال میں نمبر 5️⃣ پر ذکر کردہ  حدیث کا جواب بھی ہو جائے گا  ۔۔۔ اور وہ یہ کہ ان احادیث میں  تقوی اور اعمال صالحہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔۔۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے اور اعمال صالحہ کرنے پر ہجرت کا ثواب ملے گا  ۔۔۔ اسے الحاقی فضیلت کہتے ہیں جس کا قاعدہ یہ ہے کہ یہیں پر رک جاؤ ۔۔۔ بس اتنا مان لو جتنا حدیث میں ہے آگے مت جاؤ ۔۔۔ یعنی نہ تو مزید فضائل ثابت کرو اور نہ  کسی اور جگہ ہجرت کا لفظ استعمال  کرو اور نہ  وہاں پر اس کے فضائل فٹ کرو ۔۔۔ 


        اس بات کو اچھی طرح سمجھانے کے لئے ایک مثال ذکر کرتے ہیں  ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد طلوع شمس تک بیٹھ کر ذکر کرنے اور پھر دو رکعت پڑھنے پر مکمل حج اور عمرے کی خوشخبری سنائی ہے  ۔۔۔ لیکن کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں کہ اس عمل کو حج کہا جائے یا اس عمل کرنے والے کو حاجی صاحب کہا جائے ۔۔۔ کیوں کہ یہ الحاقی فضیلت ہے بس اتنا ہی بیان کیا جائے گا  ۔۔۔ تجاوز کرنے کی اجازت نہیں کہ اب حج کے جملہ فضائل کو یہاں پر فٹ کیا جائے جیسے یہ کہہ دیا جائے کہ وہ گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو گیا جیسا پیدائش کے دن تھا وغیرہ وغیرہ   ۔۔۔ اب لیجئے وہ حدیث جس میں طلوع شمس تک بیٹھنے اور دو رکعت پڑھنے کے اجر کو حج و عمرے کے برابر قرار دیا گیا ہے  ⬇️ 


عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ ". قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ ".


        اس طرح رمضان میں عمرہ کرنے والے کو حاجی صاحب نہیں کہا جا سکتا اگرچہ رمضان کے عمرے کو حدیث میں حج کہا گیا ہے کیونکہ یہ ایک الحاقی فضیلت ہے ۔۔۔ بس اتنا کہا جائے گا جتنا حدیث میں ہے مزید کسی کاروائی کی اجازت نہیں ۔۔۔ 


بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہجرت اور نصرت شریعت کی خاص اصطلاحات ہیں  ۔۔۔ یک روزے سہ روزے چالیس دن اور  چار مہینوں کیلئے نکلنے کو ہجرت  ، اور مالٹے لیکر کسی کی ملاقات کرنے کو نصرت نہیں کہتے ..... یہ خالص مروجہ تبلیغی تحریف ہے اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے ہیں ۔۔۔


1 comments:

عیاض احمد نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میرا سوال یہ ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ جو ہندستان تشریف لے آئے کیا اس کو ہجرت کہ سکتے ہیں۔ اسی طرح باقی بزرگوں کے بارے میں۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔