Tuesday 31 March 2020

جان مال اور وقت کا لگانا ...قسط 6

* ......... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ..........*

قسط 6
🔯 جان مال اور وقت کا لگانا 🔯 
* ......... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ..........*
قسط 6
 ◀️ جان مال اور وقت کا لگانا ▶️
احباب کی زبانی آپ اکثر و بیشتر سنیں گے کہ
( جب تک اللہ کے راستے میں جان مال وقت نہیں لگائیں گے تب تک دین دنیا میں نہیں پھیلے گا .... صحابہ نے اللہ کے راستے میں جان مال اور وقت لگایا تو دین دنیا میں پھیلا .... صحابہ نے اللہ کے راستے میں جان مال کی قربانی دی تب دین دنیا میں پھیلا .... اللہ کے راستے میں جان مال اور وقت کی قربانی دو ... )
       اللہ کا راستہ کیا ہے ؟ اس پر تو ہم اگلی کسی قسط میں بات کریں گے ان شاء اللہ. ... اس سے پہلے دو چیزوں پر بات کرتے ہیں ان شاء اللہ .... 1 جان کی قربانی کسے کہتے ہیں ..... 2 دین کے پھیلانے، عام کرنے اور غالب کرنے میں کیا فرق ہے اور مطلوب کیا ہے ... وباللہ التوفیق
سب سے پہلے آپ یہ سمجھ لیں کہ یہ خاص تعبیر جان مال لگانا یا خرچ کرنا وغیرہ یہ انہوں نے جاهدوا باموالکم و انفسکم ... یجاهدون باموالہم و انفسهم سے لی ہے البتہ اس پر وقت کا اضافہ کیا ہے. ...
ہر عقل مند بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ کسی چیز کی قربانی دینا یا خرچ کرنا یا لگانا کسے کہتے ہیں ... آپ کی جیب میں دس روپے ہیں اگر یہ دس سال بهی آپ کی جیب میں پڑے رہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے وہ دس روپے خرچ کر دئے یا لگا دئے ہاں جونہی آپ اس سے کوئی چیز خریدیں گے اور اس کو اپنی جیب اور ملکیت سے نکال لیں گے تب آپ کہہ سکیں گے کہ میں نے وہ دس روپے خرچ کر دئے یا لگا دئے . ... اب سمجھیں جان کی قربانی. ... جان کی قربانی اسے کہتے ہیں کہ بندہ خود کو قتل کیلئے پیش کرے اب اللہ تعالٰی کی مرضی کہ اسے اسی موقع پر شہادت نصیب کرے یا اسے مزید زندگی عطا فرمائے .... اور آپ جانتے ہیں کہ یہ صرف جہاد میں ہوتا ہے یا وہاں جہاں کلمہ حق کہنے کی پاداش میں جان جانا یقینی یا ظن غالب کے درجے میں ہو .... اور جہاں کوئی شخص 80 کلو جائے اور 85 کلو واپس آئے وہاں کیلئے جان کی قربانی یا جان لگانے کے الفاظ استعمال کرنا لغت و ادب اور عقول و نفوس کا مذاق اڑانا ہے ..
⬅ قابل غور
            یہاں صرف یہ نہیں کہ جہادی آیات و احادیث کو اپنے اوپر فٹ کرتے ہیں بلکہ پورے نظام جہاد پر قبضہ ہے ۔۔۔  عمل جہاد کے علاوہ ... الفاظ و تعبیرات تک جہاد کے استعمال کئے جارہے ہیں تاکہ پوری طرح سے جہاد سے ذہنوں کو موڑ لیا جائے جب جہاد کے فضائل بھی اس کام کیلئے ہوں اور الفاظ و تعبیرات بھی  ، تو کون ہوگا جو جہاد کے فضائل پڑھ یا سن کر جہاد میں جائے گا ؟؟؟... اگر تم کہو کہ کفار اور کفار کے دوستوں کا ظلم و ستم ... تو اس خطرے سے نمٹنے کیلئے بھی انہوں نے پیشگی انتظام کیا ہوا ہے .... کہ ان افغانستان عراق فلسطین وزیرستان والوں کو اپنے اعمال کی سزا مل رہی ہے ....... اور وہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ انہوں نے کافروں سے نفرت نہیں کرنی اور کافروں کے بارے میں ان سے پوچھا بھی جائے گا ... ... بات آئی کچھ سمجھ شریف میں ؟؟ .. یہ وہ نکتے ہیں جن پر سنجیدگی ، ہوشیاری اور زیرکی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے ..
◼جہاد کے معنی میں تحریف 
◼ جہاد کے فضائل کو اپنے خود ساختہ کام پر فٹ کرنا 
◼ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے جہادی واقعات کو جماعتوں کا نکلنا کہنا 
◼ جہادی تعبیرات کو اختیار کرنا جیسے جان و مال کی قربانی .. ہجرت اور نصرت .. امیر .. وغیره وغیره 
◼ کافروں سے نفرت نہ کرنے کا درس دینا
◼️ یہ کہنا کہ اللہ تعالی انسان سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت رکھتا ہے 
◼️ یہ کہنا کہ اگر کافروں کو مارا گیا تو وہ جہنم میں جائیں گے 
◼️ یہ کہنا کے بغیر کلمہ کے مرنے والوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا 
◼️ یہ کہنا کہ انبیاء مارنے کے لئے نہیں بلکہ ہدایت کے لئے آتے تھے 
◼️ یہ کہنا کہ ہزاروں کو مار کر جہنم میں جانے والے بنانا بہتر ہوگا یا کسی ایک کو ہدایت دے کر جنت میں جانے والا بنانا 
◼️ اللہ کے راستے کو اپنے کام کے لئے خاص کرنا 
 ◼کافروں کے ظلم و ستم کے شکار مظلوم مسلمانوں کے بارے میں کہنا کہ انہیں اپنے اعمال کی سزا مل رہی ہے .. 
        کیا یہ سب کچھ محض اتفاقی طور پر ہو گیا ؟؟؟
خیر ! میرے ناقص مطالعے میں اس جماعت کے وجود سے پہلے کسی نے بھی کسی غیر جہادی دینی عمل کیلئے جان و مال کی قربانی کی تعبیر استعمال نہیں کی. ..... یہ ان لوگوں کا کارنامہ ہے کوئی اور اسے انجام نہ دے سکا...
پهر یہ جو کہا جاتا ہے کہ : صحابہ نے جان مال اور وقت لگایا تو دین دنیا میں پھیلا .. تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی محنت اسی طرح تهی ؟؟؟ کیا یہ تاثر دے کر کہ صحابہ ہماری طرح جماعتوں میں نکلے تھے یہ جهوٹ اور دهوکے کے زمرے میں نہیں آتا ؟
سوال : قرآن کریم اور سنت میں جان مال کی قربانی کے ساتھ وقت کی قربانی کا ذکر کیوں نہیں ؟
جواب : وقت کی قربانی کا اضافہ ایک فضول اور لغو اضافہ ہے. .... آپ جس کام میں بھی ہوں گے وقت خود بخود گزرتا جائے گا یہاں تک کہ سونے میں بهی اور بیت الخلا میں بهی .... اگر آپ کسی کو صرف اتنا کہہ دیں کہ جہاد میں جان اور مال لگاو تو وقت اس کا خود بخود لگے گا .... ایسے ہی اگر آپ کسی سے کہتے ہیں کہ حج پر چلے جائیں تو آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وقت لگائیں بلکہ وقت اس کا خود بخود لگے گا .. اگر آپ کسی سے نماز پڑھنے کا کہہ دیں تو وقت اس کا خود بخود لگے گا آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وقت لگائیں اس لئے قرآن و سنت نے اسے نظرانداز کر دیا ..
اور چونکہ وقت کا یہ مخصوص مروجہ نظام ان کا خود ساختہ ہے اس لئے ان کو اس لاحقے کی ضرورت پڑتی ہے
رہ گئی دوسری بات کہ دین کے عام کرنے اور غالب کرنے میں کیا فرق ہے اور مطلوب کیا ہے تو اسے اگلی قسط کیلئے اٹھا رکھتے ہیں ... ان شاء اللہ
x


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔