Tuesday 31 March 2020

مقصد آمد نبیﷺ دین کا پھیلانا ہی ہے؟۔۔۔قسط 7

.......... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟.......... *
قسط 7  

   مقصد آمد نبیﷺ دین کا پھیلانا ہی ہے؟

 یا غالب کرناہے ؟

.......... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟.......... *

قسط 7  

   مقصد  دین کا پھیلانا ہے یا غالب کرناہے ؟

احبابِ کرام کے زبان زد جملوں میں سے یہ جملے بھی کافی مشہور ہیں اور دن میں کئی دفعہ بولے جاتے ہیں

( ہماری محنت اس لئے ہے کہ پوری انسانیت جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والی بن جائے ..... ہماری اور آپ کی فکر یہ ہونی چاہئے کہ یہ دین دنیا میں عام ہو جائے / پھیل جائے .... وغیره وغیره )

اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتے ہوئے ہم آج اس پر بحث کریں گے کہ دین کے عام کرنے / پھیلانے اور غالب کرنے میں کیا فرق ہے اور مطلوب کیا ہے .... تو سنیں میرے بھائی! ایک ہے دین کا عام کرنا اور ایک ہے دین کا غالب کرنا ... مطلوب دین کا غالب کرنا ہے. .. الله تعالی فرماتے ہیں


1️⃣ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

سورة التوبة الاية رقم 33

ترجمہ : 

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے ؛ تاکہ اسے تمام مذاہب پر غلبہ عطا فرمائے، اگر چہ شرک کرنے والوں کو یہ بات بری لگے


2️⃣ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا

سورة الفتح الاية رقم 28

ترجمہ : 

وہی ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے ؛ تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب رکھے اور اللہ کی گواہی کافی ہے


3️⃣ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

سورة الصف الاية رقم 9

ترجمہ :

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے ؛ تاکہ اسے تمام مذاہب پر غلبہ عطا فرمائے، اگر چہ شرک کرنے والوں کو یہ بات بری لگے


4️⃣ إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

سورة التوبة الاية رقم 40

ترجمہ :

اگر تم رسول کی مدد نہیں کروگے تو (یاد رکھو) اللہ ہی نے ان کی مدد کی تھی ، جب کہ کفر کرنے والوں نے ان کو (وطن سے) نکال دیا تھا ، دو میں سے دوسرا جب کہ وہ دونوں غار میں تھے ؛ کہ وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے : گھبراؤ مت ، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہیں ؛ چنانچہ اللہ نے ان پر اپنی طرف سے سکون و طمانینت اتاری ، اللہ نے ان کو ایسے لشکر سے تقویت پہنچائی ، جن کو تم نے نہیں دیکھا ، کفرکرنے والوں کی بات کو اللہ نے نیچا کر دیا اور اللہ ہی کا کلمہ غالب رہا اوراللہ زبردست وحکمت والے ہیں ۔


اس میں "وكلمة الله هي العليا " سے دین کا غلبہ مراد ہے


5 وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

سورة النور الاية رقم 55

ترجمہ :

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے کام کئے ، اللہ ان سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ زمین میں ان کو اسی طرح حکومت عطا فرمائیں گے ، جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حکومت دی تھی اور جس دین کو اللہ نے ان کے لئے پسند کیا ہے ، ان کے لئے اس دین کو طاقت عطا فرمائیں گے ، اور وہ جس خوف سے دوچار ہیں ، بعد میں ضرور اس کو امن سے بدل دیں گے ؛ (بشرطیکہ ) وہ میری بندگی کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، جو شخص اس کے بعد بھی ناشکری کرے گا تو دراصل وہی لوگ نافرمان ہیں ۔ 


اس میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے وعدے کے ساتھ ساتھ پسندیدہ دین کی قوت و غلبے کا بهی وعدہ فرمایا ہے ...


6 وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

سورة الأنفال الاية رقم 39

ترجمہ : 

ان سے جنگ کرتے رہو ، یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور پورا کا پورا دین اللہ کے لئے ہوجائے ،  پھر اگر وہ اس سے رُک جائیں تو (جان لیں کہ ) بے شک اللہ ان کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں


آپ حضرات ان آیات کے تحت تفاسیر ملاحظہ فرمائیں خاص طور پر تفسیر ابن کثیر جنہوں نے احادیث نبویہ سے ان آیات کی دلنشیں تشریح فرمائی ہے ....


الله تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردے .... چنانچہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اسلام کو تمام ادیان پر غالب کردیا ... اگرچہ آپ کی حکومت میں ہزاروں کافر بھی رہتے تھے مگر غلبہ ، اسلام ہی کا تھا فیصلے قرآن و سنت ہی کے تھے .... پوری انسانیت جنت میں جانے والی نہیں تھی اس معنی میں اسلام عام نہیں تھا مگر غالب تھا .... ایسے ہی خلفاۓ راشدین رضی اللہ عنهم کے دور میں اور دیگر ادوار میں بھی اسلام عام نہیں تھا کیونکہ ہزاروں لاکھوں کافر اسلامی حکومتوں میں رہتے تھے لیکن غالب تھا. .... دور کیوں جاتے ہو ہندوستان کو دیکھ لو یہاں مسلمانوں نے تقریباً ہزار سال حکومت کی ہے مسلمان تھوڑے تھے اور کفار زیادہ. ... تو دین عام نہیں تھا پوری انسانیت جنت میں جانے والی نہیں تھی لیکن دین غالب تھا اور ہندوستان دارالاسلام تھا اور ہمیں آج بھی اس دور پر فخر ہے. ... آج دیکھیں .... رائیونڈ مرکز کی مثال لے لیں کہ وہاں ان کے بقول دین عام ہے کیونکہ ان کے بقول وہاں ہمیشہ دین کی بات ہوتی ہے نیز ہر وقت ذکر تلاوت نوافل دعائیں مگر وہاں دین غالب نہیں .... اگر وہاں دو آدمیوں میں کوئی لڑائی ہو جائے اور بات کورٹ تک پہنچ جائے تو ان کا فیصلہ قرآن نہیں انگریز کا قانون کرے گا جج یہ کبھی نہیں پوچھے گا کہ تم رات کو کتنا روئے ہو اور تم نے کل رات کیسے تہجد پڑهی ہے اور کتنے پارے تلاوت کی ہے .... نہیں نہیں .... وہ تو انگریزی قانون کے مطابق فیصلہ سنائے گا چاہے دونوں نے رات بھر رو کر تہجد پڑهی ہو ..... اسی طرح اگر دو شیخ الحدیثوں اور شیخ الاسلاموں کا بهی فیصلہ ہوگا تو انگریزی قانون کے مطابق ہوگا .... اب آیا کچھ سمجھ میں ...... میرے بهائیو دوستو اور بزرگو! یہ قرآن آج مظلوم ہے مقہور ہے مغلوب ہے ..... یہ حاکم بننے کے لئے آیا ہے محکوم بننے کے لئے نہیں. ...


اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری انسانیت کا جنت میں جانے والی بننا بہت اچھی بات ہے مگر یہ کسی کے بس میں نہیں اور جو چیز بس میں نہیں ہوتی الله تعالی اس کا حکم نہیں دیتے .... اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بس میں کیوں نہیں ؟؟؟ اس لئے کہ ہدایت الله تعالی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے .... رسول الله صلى الله عليه وسلم بهی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے ...


إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

سورة القصص الاية رقم 56


ترجمہ : 

( اے رسول !) آپ جس کو چاہیں ، ہدایت پر نہیں لاسکتے ہیں ؛ لیکن اللہ جسے چاہتے ہیں ہدایت سے نوازتے ہیں اور اللہ ان لوگوں سے خوب واقف ہیں جو ہدایت کو قبول کریں گے 


.... اس لئے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بهی جنت میں جانے والے نہیں بنے ... اور اس سے نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی کمی آئی اور نہ آپ پر کوئی عتاب ہوا ....

پوری انسانیت کا جنت میں جانا اچھی بات ہے مگر یہ ہو نہیں سکتا. ..... متعدد دلائل سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جہاد تا قرب قیامت جاری رہے گا اور اس سے پہلے ایسا زمانہ نہیں آسکتا کہ جس میں دین عام ہو جائے اور پوری انسانیت جنت میں جانے والی بن جائے اور جہاد موقوف ہو جائے ۔۔۔ اور __ عیاذا باللہ ___ اللہ اور رسول جھوٹے ثابت ہو جائیں  .... اگر پوری انسانیت جنت میں جانے والی بن جائے تو جہاد کس سے ہوگا. ... جہاد تو موقوف ہو جائے گا اور یہ نہیں ہو سکتا ...


قرآن و سنت کے متعدد دلائل سے ثابت ہے کہ کفر رہے گا اور کفر سے جنگ بهی...


* وَلاَ يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىَ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ

سورة البقرة الاية رقم 217

ترجمہ : 

یہ لوگ تم لوگوں سے لڑتے ہی رہیں گے، تاکہ اگر ان کا بس چلے تو تم کو تمہارے دین ہی سے پھیردیں 

        یہ آیت تقریباً ویسی  ہے جیسے حدیث میں آیا ہے کہ جہاد تا زمانہ دجال جاری رہے گا ۔۔۔ 


         اس کے بعد جو آیات آنے والی ہیں  ۔۔۔ ان سب کا مقصد اور مضمون ایک ہے ۔۔۔ اس لئے ہر آیت کا الگ الگ ترجمہ پیش نہیں کیا جائے گا بس تمام آیات کا مقصد پیش کیا جارہا ہے جو یہ ہے کہ اگر آپ کا رب چاہتا تو پوری انسانیت کو جنت میں جانے والا بنا دیتا ، مگر ایسا نہیں ہے ۔۔۔ کچھ لوگ مسلم ہوں گے اور کچھ لوگ کافر ۔۔۔ 


* وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لآمَنَ مَن فِي الأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ

سورة يونس الاية رقم 99


* وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ

سورة هود الاية رقم 118


* وَعَلَى اللّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَآئِرٌ وَلَوْ شَاء لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ

سورة النحل الاية رقم 9


* وَلَوْ شَاء اللّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلكِن يُضِلُّ مَن يَشَاء وَيَهْدِي مَن يَشَاء وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

سورة النحل الاية رقم 93


* وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ

سورة الحج الاية رقم 55


* وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ

سورة السجدة الاية رقم 13


* وَلَوْ شَاء اللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِن يُدْخِلُ مَن يَشَاء فِي رَحْمَتِهِ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

سورة الشورى الاية رقم 8


* قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ 💠 لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ

سورة ص الاية رقم 84 .. و .. 85


💠 احادیث 💠


* الْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ .. أبوداود في الجهاد .. باب الجهاد مع أئمة الجور


       جہاد مسلسل جاری رہے گا میری بعثت کے زمانے سے لے کر دجال کے زمانے تک کہ جس سے میری امت کا آخری لشکر لڑے گا  ۔۔۔ نہ تو کسی بد کی بدی جہاد کو ختم کرسکتی ہے اور نہ کسی نیک کی نیکی  ۔۔۔۔ 


* عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ يَخْذُلُهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ ..

 الترمذي في الفتن .. باب ما جاء في الأئمة المضلين


      میری امت کا ایک گروہ حق پر ظاہر ہو کر رہے گا جو لوگ ان کو بے یار و مددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے  ۔۔۔ 


       ان تمام آیات و احادیث کا حاصل یہ ہے کہ پوری انسانیت کا جنت میں جانے والا بننا یا باالفاظ دیگر تمام دنیا کے انس و جن کا جنت میں جانے والا بننا ممکن نہیں ہے  ۔۔۔ کفر رہے گا کفار رہیں گے اور جہاد رہے گا ۔۔۔ 


سوال : کیا دین کا غالب کرنا ہمارے بس میں ہے ؟؟؟


جواب : جی ہاں .... جبهی تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا مکلف کیا ہے ... وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة و يكون الدين كله لله .... انفال ....

متعدد بار اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ایمان و تقویٰ کے ساتھ جہاد کروگے تو میں تمہاری مدد کروں گا .... رسول الله صلى الله عليه وسلم ، خلفائے راشدین اور دیگر امراء و سلاطین کو الله تعالی نے یہ مدد دکھا دی. .. ابدان و اجسام پر قبضہ کیا جا سکتا ہے قلوب و اذہان پر نہیں ..... اور یہ جو ہمارے دین میں جزیہ رکھا گیا ہے اس کا سوائے اس کے کیا مطلب لیا جاسکتا ہے کہ دین عام نہیں کرسکتے ہو سب کو مسلمان نہیں بنا سکتے ... دل تمہارے قبضے میں نہیں. .. پوری انسانیت جنت میں جانے والی نہیں ہوگی کچھ جزیے اور جہنم والے بهی ہوں گے. ...


ہاں


حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانے میں دین عام ہو جائے گا کیونکہ وہ فرمائیں گے زندہ رہنا ہے تو مسلم بن کر رہ ، ورنہ ہماری تلوار تمہیں جہنم پہنچا دے گی .... حضرت عیسٰی علیہ السلام کو خصوصی پیکیج دیا گیا ہے کہ جزیہ ختم .... یا مسلم رہو یا جہنم جاو .... حضرت کے زمانے میں دین عام بهی ہوگا اور غالب بهی ...


خلاصہ یہ ہے کہ دین کا عام کرنا نہ بس میں ہے نہ مطلوب ہے اور نہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانے سے پہلے ممکن ہے ... اور دین کا غالب کرنا ہمارے بس میں ہے مطلوب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین اور دیگر امراء و سلاطین کر چکے ہیں ۔۔۔


سوال : اس دعا کا کیا حکم ہے کہ یا اللہ پوری انسانیت کو ہدایت دے دے ... ہدایت کو ہواوں کی طرح عام کر ؟


جواب : مجھے اس کے جواز میں تردد ہے کیونکہ دعا کے احکام میں یہ ہے کہ کوئی ایسی دعا نہ مانگی جائے جو اللہ تعالٰی کے کسی فیصلے کے خلاف ہو .... اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوا کہ تا زمان عیسی علیہ السلام ہدایت عام نہیں ہوسکتی بایں معنی کہ پوری انسانیت جنت میں جانے والی بن جائے ...

پہلے میں نے یہ بات اپنے ناقص علم کے مطابق کہی تھی .. بعد میں مجھے تفسیر ابن عاشور سورة البقرة الاية رقم 128 سے بهی اس کی تائید مل گئی جو درج ذیل ہے .. فالحمد لله على ذلك

<< و " من " في قوله من ذريتنا للتبعيض ، وإنما سألا ذلك لبعض الذرية جمعا بين الحرص على حصول الفضيلة للذرية وبين الأدب في الدعاء لأن نبوءة إبراهيم تقتضي علمه بأنه ستكون ذريته أمما كثيرة وأن حكمة الله في هذا العالم جرت على أنه لا يخلو من اشتماله على الأخيار والأشرار فدعا الله بالممكن عادة وهذا من أدب الدعاء وقد تقدم نظيره في قوله تعالى قال ومن ذريتي >>

اور تفسیر جلالین میں اسی مقام پر ہے

<< ومن للتبعيض وأتى به لتقدم قوله لا ينال عهدي الظالمين >>

اور یہی بات علامہ قرطبي رحمہ اللہ نے بهی لکهی ہے

مذکورہ عبارات کا خلاصہ یہی ہے کہ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے ارشاد " لا ينال عهدي الظالمين " سے معلوم ہو گیا تھا کہ ان کی اولاد میں ظالم یعنی مشرک بهی ہوں گے اس لئے انہوں نے کچھ اولاد کے مسلمان ہونے کی دعا کی ..

یہاں بھی ایسا ہی ہے کہ متعدد نصوص قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ کفر اور کفار رہیں گے اور ان سے جنگ بهی .. لہٰذا الله تعالی کے اس فیصلے کے خلاف دعا کم از کم خلاف ادب تو ضرور ہے     ۔۔۔۔


⏹️ مذکورہ گردان کا نقصان : قابلِ غور ⏹️


            جب کسی کے دل میں یہ بیٹھ جائے کہ مجھے اس لئے محنت کرنی ہے کہ پوری انسانیت بلکہ انس و جن ، جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والے بن جائیں تو کیا وہ جہاد کرسکتا ہے ؟ جہاد کی وجہ سے تو کافر جہنم میں جانے والے بنتے ہیں  ۔۔۔ وہ نہ تو خود جہاد کر سکتا ہے نہ دوسرے کے جہاد کو پسند کر سکتا ہے  ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو دنیا بھر کے مجاہدین سے بغض ہوتا ہے ۔۔۔ ان کو ہر جگہ مجاہدین میں کیڑے نظر آتے ہیں ۔۔۔ ان کے کام میں کسی کی مخالفت نہیں مگر مجاہدین کی مخالفت ہے  ۔۔۔  میں نے ان کے جتنے بھی بڑے بوڑھے پکے تبلیغی دیکھے ہیں جہاد مجاہدین کے بارے میں ٹیڑھے دیکھے ہیں الا ماشاء اللہ ۔۔۔ 


      ⏹️ کیا یہ محض اتفاق ہے ؟ ⏹️


        ایک دفعہ پھر قارئین کرام کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ کیا یہ محض اتفاق ہے ؟

◼جہاد کے معنی میں تحریف یعنی یہ کہنا کہ جہاد قتال کو نہیں کہتے بلکہ جہاد کے معنی ہیں کوشش 

◼ جہاد کے فضائل کو اپنے خود ساختہ کام پر فٹ کرنا 

◼ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے جہادی واقعات کو جماعتوں کا نکلنا کہنا 

◼ جہادی تعبیرات کو اختیار کرنا جیسے جان و مال کی قربانی .. ہجرت اور نصرت .. امیر .. وغیره وغیره 

◼ کافروں سے نفرت نہ کرنے کا درس دینا

◼️ یہ کہنا کہ اللہ تعالی انسان سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت رکھتا ہے 

◼️ یہ کہنا کہ اگر کافروں کو مارا گیا تو وہ جہنم میں جائیں گے 

◼️ یہ کہنا کے بغیر کلمہ کے مرنے والوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا 

◼️ یہ کہنا کہ انبیاء مارنے کے لئے نہیں بلکہ ہدایت کے لئے آتے تھے 

◼️ یہ کہنا کہ ہزاروں کو مار کر جہنم میں جانے والے بنانا بہتر ہوگا یا کسی ایک کو ہدایت دے کر جنت میں جانے والا بنانا 

◼️ اللہ کے راستے کو اپنے کام کے لئے خاص کرنا 

◼کافروں کے ظلم و ستم کے شکار مظلوم مسلمانوں کے بارے میں کہنا کہ انہیں اپنے اعمال کی سزا مل رہی ہے .. 

◼️ اپنی محنت کا ہدف یہ بتانا کہ ساری انسانیت جنت میں جانے والی بن جائے 

        کیا یہ سب کچھ محض اتفاقی طور پر ہو گیا ؟؟؟ 

کہیں ایسا تو نہیں کہ  ان جملوں کا زہر جہاد کے لئے تیار رکھا گیا ہو ؟

       اچھا ذرا اس پر بھی غور فرمائیں کہ اس جماعت سے پہلے آپ کو کہیں کسی صحابی ، تابعی ، امام کے قول میں اس طرح کے جملے ملتے ہیں کہ پوری دنیا کے انس و جن جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والے بن جائیں ؟

        کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دین کو غالب کرنے کی تعبیر کے بجائے دین کو عام کرنے اور پھیلانے کی تعبیر زبانوں پر چڑھا دی گئی ؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔