Tuesday 31 March 2020

یہ مکی دور ہے مکی دور میں جہاد نہیں تھا۔۔۔۔ قسط 9


* .... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ... *
قسط 9
( یہ مکی دور ہے مکی دور میں جہاد نہیں تھا )

* .... تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ ... *

قسط 9


        احباب یہ بھی فرماتے رہتے ہیں کہ : 

( یہ مکی دور ہے مکی دور میں جہاد نہیں تھا ) 

     پتا نہیں یہ کون ہے جس پر وحی آئی کہ زمانہ ساڑھے چودہ سو سال پیچھے چلا گیا اور مکی دور شروع ہو گیا ؟؟؟ یا جس نے خدائی لہجے میں زمانے کو حکم دیا کہ


دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو


     اگر مکی دور ہے تو کیا گدھے کھانا شروع کر دیں ؟ کیونکہ مکی دور میں تو گدھے کا کھانا حرام نہیں تھا ۔۔ 

      اگر مکی دور ہے تو شراب نوشی شروع کر دی جائے ؟ کیونکہ مکی دور میں شراب نوشی حرام نہیں تھی ۔۔۔ 

     اگر مکی دور ہے تو رمضان کے روزے چھوڑ دیں ؟ کیونکہ مکی دور میں رمضان کے روزے فرض نہیں تھا ۔۔۔ 

      اگر مکی دور ہے تو کیا پردے کی فرضیت کو ختم کر دیں ؟ کیونکہ یہ بھی تو مکی دور میں نہیں تھی ۔۔۔ 

      اگر مکی دور ہے تو کیا سود کھانا شروع کر دیں ؟ 

       لیکن ظاہر ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہوگا  ۔۔۔ کیونکہ صرف جہاد کے لئے زندگی مکی بن جاتی ہے  ۔۔۔ 


        مکی دور میں لاکھوں کے اجتماعات کہاں تھے ؟؟؟ .... چوتھے نمبر ( اکرام ) کی یہ چلت پهرت کہاں تهی ؟؟؟ مکی دور میں کفار کے ممالک میں یہ آنیاں جانیاں کہاں تھیں ؟ ... مکی دور میں تو بلال کی طرح انگاروں پر لوٹنا تھا .... صہیب کی طرح گرم سلاخوں کو سہنا تھا ... یاسر اور سمیہ کی طرح شہید ہونا تھا رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ... مکی دور میں تو کافروں کو دعوت دینا تھا جو تمہارے اصولوں کے خلاف ہے ... یعنی دور ہے مکی ، لیکن کافرین کو دعوت دینا ان کے اصولوں کے خلاف ہے  ۔۔۔ اور ہے یہ پھر بھی انبیاء کا کام ، کلمے والی محنت ۔۔۔ ان شاء اللہ ان لوگوں کے تضادات پر مستقل قسط آنے والی ہے  ۔۔۔ 


     مکی دور ہے تو تمہیں بہت سے کام کرنے ہوں گے اور بہت سے چھوڑنے ہوں گے جس کے لئے تم تیار نہیں ... یہ جماعتوں کی شکل میں مسجد مسجد گھومنا مکی دور میں کبھی نہیں تها .... چھوڑ دو .... لیکن تمہاری ساری بہانے بازیاں تو جہاد کیلئے ہیں بس ... الله سے ڈرو اور دین کے معاملے میں یہ دخل اندازیاں اور حیلہ سازیاں چھوڑ دو .... میرے بهائیو دوستو اور بزرگو!  کیا تم کسی کی متعہ کی خواہش اس دلیل پر برداشت کر سکو گے کہ مکی دور ہے ؟؟؟


      مکی دور میں آپ کی طرح منت سماجت نہیں تهی .. دین کی درست محنت تهی .. کفر کے سرغنوں کو ڈانٹا بهی تها .. یہ دیکهیں حدیث : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کو ڈانٹ پلائی ہے

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَجَاءَ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَبَرَهُ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا بِهَا نَادٍ أَكْثَرُ مِنِّي فَأَنْزَلَ اللَّهُ ( فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ) فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللَّهِ لَوْ دَعَا نَادِيَهُ لَأَخَذَتْهُ زَبَانِيَةُ اللَّهِ .. الترمذي في تفسير سورة العلق ..


     یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ و السلام نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں  ابو جہل آیا اور کہا کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ ۔۔۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو  ابو جہل کو سخت ڈانٹ پلا دی جس پر ابو جہل نے کہا کہ تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ مکہ میں جتنی بڑی مجلس میری ہے کسی کی نہیں جس پر اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری ( فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ) یعنی وہ اپنی مجلس والوں کو بلائے  ہم بھی زبانیہ ( سخت پکڑ والے ملائکہ ) کو بلائیں گے  ۔۔۔۔ 


       دیکھا آپ نے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مولوی ابو جہل کو ڈانٹ پلائی ہے ۔۔۔ جو وہاں کا نہ صرف مولوی تھا بلکہ شیخ الکل اورحاکم بھی تھا ۔۔۔ 

       مکی دور میں کفار و مشرکین کے پورے جتھے کو ذبح اور قتل کی دھمکیاں بهی تھیں ... لیجۓ دلیل

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ قُلْتُ لَهُ مَا أَكْثَرَ مَا رَأَيْتَ قُرَيْشًا أَصَابَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ فِيمَا كَانَتْ تُظْهِرُ مِنْ عَدَاوَتِهِ قَالَ حَضَرْتُهُمْ وَقَدْ اجْتَمَعَ أَشْرَافُهُمْ يَوْمًا فِي الْحِجْرِ فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا مَا رَأَيْنَا مِثْلَ مَا صَبَرْنَا عَلَيْهِ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ قَطُّ سَفَّهَ أَحْلَامَنَا وَشَتَمَ آبَاءَنَا وَعَابَ دِينَنَا وَفَرَّقَ جَمَاعَتَنَا وَسَبَّ آلِهَتَنَا لَقَدْ صَبَرْنَا مِنْهُ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ أَوْ كَمَا قَالُوا قَالَ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ يَمْشِي حَتَّى اسْتَلَمَ الرُّكْنَ ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ طَائِفًا بِالْبَيْتِ فَلَمَّا أَنْ مَرَّ بِهِمْ غَمَزُوهُ بِبَعْضِ مَا يَقُولُ قَالَ فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ مَضَى فَلَمَّا مَرَّ بِهِمْ الثَّانِيَةَ غَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ مَضَى ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ الثَّالِثَةَ فَغَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا فَقَالَ تَسْمَعُونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِالذَّبْحِ فَأَخَذَتْ الْقَوْمَ كَلِمَتُهُ حَتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا كَأَنَّمَا عَلَى رَأْسِهِ طَائِرٌ وَاقِعٌ حَتَّى إِنَّ أَشَدَّهُمْ فِيهِ وَصَاةً قَبْلَ ذَلِكَ لَيَرْفَؤُهُ بِأَحْسَنِ مَا يَجِدُ مِنْ الْقَوْلِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَقُولُ انْصَرِفْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ انْصَرِفْ رَاشِدًا فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ جَهُولًا قَالَ فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ اجْتَمَعُوا فِي الْحِجْرِ وَأَنَا مَعَهُمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ذَكَرْتُمْ مَا بَلَغَ مِنْكُمْ وَمَا بَلَغَكُمْ عَنْهُ حَتَّى إِذَا بَادَأَكُمْ بِمَا تَكْرَهُونَ تَرَكْتُمُوهُ فَبَيْنَمَا هُمْ فِي ذَلِكَ إِذْ طَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَثَبُوا إِلَيْهِ وَثْبَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ فَأَحَاطُوا بِهِ يَقُولُونَ لَهُ أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ كَذَا وَكَذَا لِمَا كَانَ يَبْلُغُهُمْ عَنْهُ مِنْ عَيْبِ آلِهَتِهِمْ وَدِينِهِمْ قَالَ فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ أَنَا الَّذِي أَقُولُ ذَلِكَ قَالَ فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ أَخَذَ بِمَجْمَعِ رِدَائِهِ قَالَ وَقَامَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ دُونَهُ يَقُولُ وَهُوَ يَبْكِي ( أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ ) ثُمَّ انْصَرَفُوا عَنْهُ فَإِنَّ ذَلِكَ لَأَشَدُّ مَا رَأَيْتُ قُرَيْشًا بَلَغَتْ مِنْهُ قَطُّ ..مسند احمد من حدیث عبد اللہ بن عمرو

مسند احمد

ترجمہ:

   " عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عمرو ؓ سے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ سخت واقعے کے متعلق بتائیں جو مشرکین نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ روا رکھا ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن اشراف قریش حطیم میں جمع تھے میں بھی وہاں موجود تھا وہ لوگ نبی کریم ﷺ کا تذکرہ کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے اس آدمی کو جیسا برداشت کیا ہے کسی کو نہیں کیا ہے  اس نے ہمارے عقلمندوں کو بیوقوف کہا، ہمارے آباؤ اجداد کو برا بھلا کہا ہمارے دین میں عیوب نکالے ہماری جماعت کو منتشر کیا اور ہمارے معبودوں کو برابھلا کہا ہم نے اس کے معاملے میں بہت صبر کرلیا اسی اثناء میں نبی کریم ﷺ بھی تشریف لے آئے نبی کریم ﷺ چلتے ہوئے آگے بڑھے اور حجر اسود کا استلام کیا اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے اس دوران وہ نبی کریم ﷺ کی بعض باتوں میں عیب نکالتے ہوئے ایک دوسرے کو اشارے کرنے لگے مجھے نبی کریم ﷺ کے چہرے مبارک پر اس کے اثرات محسوس ہوئے جب دوسری دفعہ ان کے پاس سے گزرے انہوں نے پھر وہی باتیں کیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے گروہ قریش تم سنتے ہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے میں تمہیں ذبح کرنے آیا ہوں لوگوں کو نبی کریم ﷺ کے اس جملے نے جکڑ کر رکھ لیا ۔۔۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہر ایک کے سر پر پرندہ بیٹھا ہو  یہاں تک کہ ان میں سخت موقف رکھنے والے یہ کہتے پائے گئے کہ ابوالقاسم  آپ خیر و عافیت کے ساتھ تشریف لے جائیں واللہ آپ جاہل نہیں ہیں چناچہ نبی کریم ﷺ واپس چلے گئے۔  اگلے دن وہ لوگ پھر حطیم میں جمع ہوئے میں بھی ان کے ساتھ تھا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم تو ان حالات کا تذکرہ کر رہے تھے جو تمہیں اس کی وجہ سے اور اسے تمہاری وجہ سے درپیش تھے یہاں تک کہ اس نے جب تمہیں وہ سنائیں جو تمہیں ناپسند ہیں تو تم نے اسے چھوڑ دیا ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نمودار ہوئے وہ سب اکٹھے ہو کر ان کی طرف اٹھے اور انہیں گھیرے میں لے کر کہنے لگے کیا تم ہی ہو جو یوں کہتا ہے اور یوں کہتا ہے یعنی وہ اپنے دین اور اپنے خداؤں کی برائی کے بارے میں کہہ رہے تھے  آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں بالکل ! میں ایسا کہتا ہوں ۔۔۔  راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے نبی کریم ﷺ کی چادر کو گریبان کی جگہ سے پکڑ لیا  ۔۔۔ یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر ؓ نبی کریم ﷺ کو بچانے کے لئے کھڑے ہوئے وہ روتے ہوئے کہتے جا رہے تھے کیا تم ایک آدمی کو صرف اس وجہ سے قتل کردو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اس پر وہ لوگ واپس چلے گئے یہ سب سے سخت اذیت تھی جو کفار قریش کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو پہنچی تھی۔ " 


     اس حدیث میں اس جملے پر غور فرمائیں : " والذي نفس محمد بيده لقد جئتكم بالذبح " اللہ اللہ کس شان کا یہ جملہ ہے ۔۔۔ قسم ہے اللہ کی میں تمہیں ذبح کرنے آیا ہوں  ۔۔۔ 


     مکی دور میں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وہ للکار بهی تو ہے کہ میں ہجرت کرنے جا رہا ہوں .. جو اپنے بچوں کو یتیم ، بیوی کو بیوہ کرنا چاہے وہ مکہ کے باہر میرا مقابلہ کرے

مکی دور میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا پوری قوت سے ابوجہل کے سر پر کمان مار کر اسے لہولہان کرنا ہے ..


     مکی دور میں طاغوت کا انکار ہے .. کفر اور شرک ، کفار اور مشرکین سے اظہار بیزاری ہے جو تمہارے اصولوں میں حرام ہے .. تمہیں کیا لینا دینا ہے مکی دور سے .. ٹھیک ہے مکی دور میں جہاد نہیں تھا لیکن بےغیرتی بهی تو نہ تھی .. لیکن تم نے مکی دور کا مفہوم صرف سر جھکا کر جینا متعین کیا ہے


ارے بھائی ! ہمارے دین میں احکام کی تقسیم مکی مدنی کی نہیں محکم اور منسوخ کی ہے .... جو حکم محکم ہوگا ماننا پڑے گا چاہے مکی ہو یا مدنی جیسے ایمانیات اور جہاد .... ایمانیات یعنی عقائد مکی دور سے چلے آ رہے ہیں بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے چلے آرہے ہیں  منسوخ نہیں ہوئے اور نہ منسوخ ہو سکتے تھے ہم نہ صرف مان رہے ہیں بلکہ نہ ماننے والوں کو کافر سمجھتے ہیں. ... اور جو حکم منسوخ ہوگا چھوڑنا پڑے گا چاہے وہ مکی ہو یا مدنی جیسے شراب سود وغیرہ کہ یہ مکی بهی ہیں اور مدنی بهی .... مدنی بایں معنی کہ ایک عرصے تک مدینہ منورہ میں بھی اس کی حلت برقرار رہی یا جیسے نماز میں بات کرنا مکی بھی ہے اور مدنی بھی لیکن چونکہ منسوخ ہے اس لئے اس پر عمل کرنے کی اجازت نہیں. ... الله تعالی حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے. ....


     سورتوں کی مکی اور مدنی تقسیم ایک الگ چیز ہے اور جو بات ہم نے عرض کی وہ بالکل ایک الگ چیز .... دونوں اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں ایک کا دوسرے سے کوئی تصادم نہیں ....


     ہاں ایک بات مکی اور مدنی دور میں ہے .... مکی دور میں مسلمان پٹ رہے تھے ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے تھے ان پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا تھا جبکہ مدنی دور میں مسلمانوں کی زندگی بدل گئی ان کے سر ، بلند ہو گئے وہ ظالموں کا احتساب کر رہے تھے .... کیا آپ کا خدانخواستہ یہ مطلب تو نہیں کہ مسلمان مظلوم و مقہور رہیں ؟؟؟


       بھائی ! اگر مکی دور ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم کمزور ہیں جہاد نہیں کر سکتے اور اسے بالفرض مان بھی لیا جائے  تو تم نے طاغوت کا انکار کیوں چھوڑ دیا ؟ ۔۔۔ تم نے جہاد کے خلاف ذہن سازی کیوں شروع کر دی ؟؟ تم نے کافرین سے نفرت نہ کرنے کا درس دینا کیوں شروع کر دیا ؟ جب تم مکی دور میں ہو تو ہجرت اور نصرت پر قبضہ کیوں کر دیا ؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔