Sunday 29 March 2020

" گناه سے نفرت کرو گناہ گار سے نفرت نہ کرو۔مفتی عبدالمعزصاحب (دامت برکاتہم)قسط نمب2


★ ........ تبلیغی جماعت کیا ہے ......... ★

 قسط 2

 

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟

 قسط نمبر 2


احباب کرام فرماتے ہیں کہ ہمیں کافروں سے نہیں ، کفر سے نفرت ہونی چاہئے ، فاسقوں سے نہیں ، فسق سے نفرت ہونی چاہئے - 

           اس کو اختصار کے ساتھ یوں بھی کہتے ہیں کہ: گناہ سے نفرت کرو گناہ گار سے نفرت نہ کرو ۔۔۔۔ 

      یہ جملے بظاہر بڑے خوشنما ہیں لیکن بظاہر جتنے خوشنما ہیں درحقیقت اتنے یا اس سے زیادہ زہر سے بھرے ہوئے ہیں - یہ قرآن و سنت کے تو خلاف ہیں ہی عقل کے بھی خلاف ہیں - اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ اتنے عام کیسے ہوئے ۔۔۔ اس کا جواب یہ ہے کہ  دراصل ہوتا یہ ہے کہ جب ایک چیز کو زیادہ لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں تو سوچے اور تحقیق کئے بغیر اس کی صداقت دل میں بیٹھ جاتی ہے گو فی نفسہ وہ صداقت سے کتنی ہی دور کیوں نہ ہو - افسوس ہو رہا ہے کہ اتنی غیر معقول اور قرآن و سنت کے خلاف بات کی تردید میں وقت صرف کرنا پڑ رہا ہے ۔۔۔  اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے اصحابِ جبہ و دستار بھی اسی فلسفے کے اسیر ہیں - ارے بھائی! جب تک کافر و فاسق سے نفرت نہیں کرو گے کفر و فسق سے نفرت عملاً ممکن ہی نہیں - وہ صرف تمہارے دماغ شریف میں تشریف فرما ایک بے جان و بے اثر فلسفہ ہو گا اور بس ۔۔۔ کفر ایک صفت ہی تو ہے جو موصوف کے بغیر نہیں پائی جاسکتی ۔۔۔ ایک معنی ہے جس کا تحقق ذات کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔۔۔ کفر کو موجود کرنے والا یہی کافر ہی تو ہوتا ہے -

اللہ تعالیٰ جہنم میں کفار و فساق کو ڈالے گا کفر و فسق کو نہیں - حدود و قصاص چوروں ڈاکوں زانیوں اور قاتلوں پر جاری کرنے کا حکم ہے ان کے اعمال پر نہیں - 

تمام دنیا میں بدلہ مارنے والے سے لیا جاتا ہے مار سے نہیں - کل جو آیتیں قسط نمبر 1 میں ذکر کی تھیں ان پر غور کریں - لا یحب الکافرین ••• لا یحب الخائنین ••• لا یحب المفسدین ••• لا یحب المعتدین ••• لا یحب المسرفین••• لا یحب المستکبرین•••• اور دیگر تمام آیات جو کل عرض کی گئیں دوبارہ پڑھیں- ان کے علاوہ بھی سینکڑوں آیات واحادیث ہیں جن میں کفار و فساق پر لعنتیں غضب دشمنیاں نفرت کے پیرائے میں ذکر عذاب وغیرہ وغیرہ کا ذکر ہے ۔۔۔ 


       قرآن کریم ایک معجز کتاب ہے ۔۔۔ وجوہِ اعجاز بہت ہیں ۔۔۔ لیکن ایک وجہ بہت شاندار ہے اور جتنی وہ شاندار ہے اتنی اس سے غفلت ہے ۔۔۔ عام طور پر اس وجہ کی طرف توجہ نہیں ہے  ۔۔۔ اور جتنی وہ شاندار ہے اتنی ہی وہ عام فہم ہے  ۔۔۔ ہر شخص اس کو سوچ کر اپنا ایمان تازہ کر سکتا ہے ۔۔۔ اور وہ یہ کہ قرآن ہر فتنے کا مقابلہ ایسے کرتا ہے جیسے وہ اسی فتنے کی سرکوبی کے لئے اترا ہو ۔۔۔ ہر نئے سے نئے فتنے کا توڑ قرآن کریم کے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے ۔۔۔ مثلا آپ جمہوریت کو لے لیں ۔۔۔ قرآن کریم کے تقریبا ہر صفحے میں آپ کو جمہوریت کا ایسا رد ملے گا  کہ آپ حیران رہ جائیں گے ۔۔۔ یہی حال جدید الحاد کا ہے ۔۔۔ یہی حال تبلیغی جماعت کا ہے ۔۔۔ لیکن کاش کوئی سمجھے ۔۔۔ سمجھنا آسان ہے لیکن کاش کوئی اپنی آنکھوں سے تعصب کی پٹی اتارے ۔۔۔ اب آتے ہیں اپنے مقصد کی طرف ۔۔۔ قرآن کریم کے اس اعجاز کو دیکھیں ۔۔ اللہ تعالی نے لا يحب الكفر نہیں فرمایا بلکہ  لا يحب الكافرين فرمایا  ۔۔۔ تاکہ چودہ سو سال بعد کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم گناہ سے تو نفرت کریں گے گنہگار سے نہیں  ۔۔۔  لا يحب الاعتداء نہیں فرمایا بلکہ لا يحب المعتدين فرمایا تاکہ چودہ سو سال بعد جب یہ فتنہ سر اٹھائے کہ گناہگار سے نفرت نہیں کرنی تو اس کا توڑ قرآن کریم میں موجود ہو ۔۔۔  لا يحب الخيانة نہیں فرمایا بلکہ لا يحب الخائنين فرمایا  ۔۔۔ لا يحب الظلم نہیں فرمایا بلکہ لا يحب الظالمين فرمایا تاکہ لوگوں کا عقیدہ درست رہے کہ جب اللہ تعالی خائنین سے محبت نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خیانت بری چیز ہے اور جب اللہ تعالیٰ ظالمین سے محبت نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ظلم بری چیز ہے  ۔۔۔ خلاصہ یہ ہوا کہ گناہ بری چیز ہے  گنہگار سے نفرت کی جائے گی  ۔۔۔ کفر کی وجہ سے کافر سے دشمنی کی جائے گی ۔۔۔ 

      کیا یہ عجیب بات نہیں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ تو کافرین کو اپنا دشمن قرار دیں اور ہم ان سے نفرت نہ کریں ؟؟؟  پھر کس منہ سے اللہ اور اس کے رسول سے محبت کے دعوے؟؟؟ 

        بحث کو سمیٹے ہوئے چند آیات و احادیث کا مختصراً بطورِ اشارات ذکر کرتے ہیں


♦️قَاتِلُوا الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوۡلُهٗ وَلَا يَدِيۡنُوۡنَ دِيۡنَ الۡحَـقِّ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ حَتّٰى يُعۡطُوا الۡجِزۡيَةَ عَنۡ يَّدٍ وَّهُمۡ صٰغِرُوۡنَ  

سورة التوبة الآية رقم 29

        بے ایمانوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ ذلیل ہو کر جزیہ نہ دیں- 

دیکھ بھائی! لڑنا نفرت اور دشمنی کے بعد ہوتا ہے اس لئے ہم کافرین سے نفرت بھی کریں گے دشمنی بھی کریں گے اور لڑیں گے بھی - 

        اور جب وہ جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں تو بھی ان کو ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔۔۔ وھم صاغرون ۔۔۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ جزیہ لیتے وقت ایسی صورت اختیار کریں گے جس میں ان کی ذلت ہو مثلاً مسلمان بیٹھا ذمی کھڑا ہو - 

جیسا کہ آج دفاتر میں یہ صورت مسلمین کے ساتھ اختیار کی جاتی ہے - 

حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا -


♦️اِرۡجِعۡ اِلَيۡهِمۡ فَلَنَاۡتِيَنَّهُمۡ بِجُنُوۡدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمۡ بِهَا وَلَـنُخۡرِجَنَّهُمۡ مِّنۡهَاۤ اَذِلَّةً وَّهُمۡ صٰغِرُوۡنَ ۞ 

سورة النمل الآية رقم 37

ذلیل اور سرنگوں کر کے نکالیں گے -


محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار • سورة فتح کی آخری آیت - کفار پر سخت - یہ نہیں فرمایا کہ کفر پر سخت - بلکہ یہ فرمایا کہ کفار پر سخت ۔۔۔ 

یہ صحابہ کی شان ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے ۔۔۔ اور یہ چیز تو جناب ! نفرت اور دشمنی کے بعد ہوتی ہے - 

ذیل کی آیت غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ کفار سے نفرت ہے کہ نہیں - 


♦️قَدۡ كَانَتۡ لَـكُمۡ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ فِىۡۤ اِبۡرٰهِيۡمَ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗ‌ۚ اِذۡ قَالُوۡا لِقَوۡمِهِمۡ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنۡكُمۡ وَمِمَّا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ  كَفَرۡنَا بِكُمۡ وَبَدَا بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمُ الۡعَدَاوَةُ وَالۡبَغۡضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَحۡدَهٗۤ اِلَّا قَوۡلَ اِبۡرٰهِيۡمَ لِاَبِيۡهِ لَاَسۡتَغۡفِرَنَّ لَـكَ وَمَاۤ اَمۡلِكُ لَـكَ مِنَ اللّٰهِ مِنۡ شَىۡءٍ ‌ؕ رَبَّنَا عَلَيۡكَ تَوَكَّلۡنَا وَاِلَيۡكَ اَنَـبۡنَا وَاِلَيۡكَ الۡمَصِيۡرُ ۞ 

سورة الممتحنة الآية رقم 4 


اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے ۔۔۔  آگے بتایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کھل کر براءت کی اور کھل کر ہمیشہ کے لئے دشمنی اور نفرت کا اظہار کیا - 

البتہ اگر وہ شرک چھوڑ کر اکیلے اللہ پر ایمان لے آئیں گے تو نفرت اور دشمنی ختم ہو جائے گی - 

        کفار اور فساق سے نفرت کے صحابہ وتابعین اور ائمہ اسلاف کے واقعات تو بے شمار ہیں - 


ذیل کی حدیث ملاحظہ فرمائیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو بعض گناہ گاروں کے سلام کے جواب دینے تک کے روا دار نہیں تھے  ۔۔۔ لیجئے ایک مثال ۔۔۔ 

      🛑 أَنَّ ابْنَ عُمَرَ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ : إِنَّ فُلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ. فَقَالَ لَهُ : إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ، فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَلَا تُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ ؛ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوْ فِي أُمَّتِي - الشَّكُّ مِنْهُ - خَسْفٌ أَوْ مَسْخٌ أَوْ قَذْفٌ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ ".

الترمذي في القدر باب ما جاء في الرضا بالقضاء 

        اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بدعتی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو سلام بھیجا تھا لیکن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی بدعت کی وجہ سے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا ۔۔۔ تو کیا یہ بدعتی ( گناہ گار }  سے نفرت نہیں ہے ؟؟؟  ۔۔۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ وہ بدعت اعتقادی تھی ۔۔۔ 

       بعض حضرات تو مبتدعین کی مساجد میں نماز تک پڑھنے سے گریز کرتے تھے - لیجئے دلیل

🛑 عنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ ، فَثَوَّبَ رَجُلٌ فِي الظُّهْرِ أَوِ الْعَصْرِ، قَالَ : اخْرُجْ بِنَا ؛ فَإِنَّ هَذِهِ بِدْعَةٌ •• 

(ابوداود فى الاذان •• باب التثويب) 


       خلاصہ یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے گئے تھے کہ مسجد کے مؤذن یا امام نے تثویب کی یعنی لوگوں کو نماز کے لئے بلایا  ۔۔۔ یہ بات خواہ کتنی ہی اچھی نیت سے اور اچھے مقصد کے لئے کی گئی تھی لیکن دین میں ایک نئی بات تھی جس کی وجہ سے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس مسجد میں نماز پڑھنا گوارا نہ فرمایا  ۔۔۔ یعنی بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا گوارا نہ فرمایا  ۔۔۔ کیا یہ بدعتی ( گناہ گار ) سے نفرت نہیں تھی ؟؟؟ 

          امام احمد رحمہ اللہ  کے بارے میں مشہور ہے کہ  جب کسی یہودی یا نصرانی کو دیکھتے تو آنکھیں بند کر لیتے تھے کسی نے پوچھا کہ حضرت! یہ کیوں ؟ تو فرمایا کہ میں ایسے لوگوں کو نہیں دیکھ سکتا جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور افتراء کیا - 

    طبقات الحنابلة •• ترجمة الإمام أحمد رحمه الله••   

🖍️گناہ سے نفرت ہو گناہ گار سے نفرت نہ ہو تو اللہ کا عذاب آتا ہے ۔۔۔ حدیث میں آتا ہے کہ بنی اسرائیل کے تنزل کا آغاز اس طرح ہوا کہ  کوئی شخص کسی گنہگار سے ملتا تو کہتا کہ اللہ سے ڈر اور اس عمل کو چھوڑ ، کیوں کہ یہ تمہارے لئے جائز نہیں  ( وہ بدستور اپنے عمل پر قائم رہتا ) پھر کل کو اسی شخص کے ساتھ اسی گناہ کے ساتھ ملاقات کرتا ، کھاتا پیتا اور اپنے معاملات بدستور قائم رکھتا ۔۔۔ جب انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا تو اللہ تعالی کا ایسا عذاب آیا کہ ان کے دلوں کو خلط ملط کر دیا ۔۔۔ 

   

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ الرَّجُلُ يَلْقَى الرَّجُلَ فَيَقُولُ : يَا هَذَا، اتَّقِ اللَّهَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ ؛ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لَكَ. ثُمَّ يَلْقَاهُ مِنَ الْغَدِ فَلَا يَمْنَعُهُ ذَلِكَ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَهُ وَشَرِيبَهُ وَقَعِيدَهُ، فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ ضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ ". ثُمَّ قَالَ : { لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ } إِلَى قَوْلِهِ : { فَاسِقُونَ }. ثُمَّ قَالَ : " كَلَّا وَاللَّهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَلَتَأْخُذُنَّ عَلَى يَدَيِ الظَّالِمِ، وَلَتَأْطُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا، وَلَتَقْصُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ قَصْرًا ".

سنن أبي داود | أَوَّلُ كِتَابِ الْمَلَاحِمِ  | بَابٌ : الْأَمْرُ وَالنَّهْيُ 


         یہاں پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بنی اسرائیل گناہ سے نفرت کرتے تھے جب ہی تو اس شخص سے کہتے تھے کہ اللہ سے ڈر اور اسے گناہ سے باز رکھنے کی کوشش کرتے تھے  ۔۔۔ لیکن گنہگاروں سے نفرت نہیں کرتے تھے ۔۔۔ ان کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھتے  ۔۔۔ ان کا یہ طرز عمل اللہ تعالی کو پسند نہیں آیا اور ان پر عذاب بھیج دیا ۔۔۔ پس ثابت ہوا کہ یہ فلسفہ غلط ہے کہ ہم گناہ سے نفرت کریں گے گناہ گار سے نہیں  ۔۔۔ 


          یہی حدیث ترمذی اور مسند احمد میں بھی آئی ہے اور اس میں بھی یہ صراحت ہے کہ علماء ان کو منع کرتے ، وہ باز نہ آتے ، لیکن پھر بھی یہ لوگ ان کے ساتھ مجالس میں شرکت کرتے کھانے پینے میں شریک ہوتے  ۔۔۔ اسی وجہ سے ان پر عذاب آیا ۔۔۔ لیجئے حدیث ۔۔۔ 


      عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَمَّا وَقَعَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ فِي الْمَعَاصِي فَنَهَتْهُمْ عُلَمَاؤُهُمْ، فَلَمْ يَنْتَهُوا، فَجَالَسُوهُمْ فِي مَجَالِسِهِمْ، وَوَاكَلُوهُمْ وَشَارَبُوهُمْ، فَضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ، وَلَعَنَهُمْ { عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ } " قَالَ : فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَقَالَ : " لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى تَأْطِرُوهُمْ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا "

الترمذي ... أبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  | بَابٌ : وَمِنْ سُورَةِ الْمَائِدَةِ 


       اس حدیث کا خلاصہ یہی ہے کہ بنی اسرائیل گناہ سے نفرت کرتے تھے گناہ گار سے نہیں- گناہ سے منع کرتے تھے لیکن گناہ گار سے اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا ترک نہیں کرتے تھے- یعنی تعلقات متاثر نہیں ہونے دیتے تھے اس وجہ سے مستحق عذاب ٹھرے  ۔۔۔ کیونکہ صرف منع کرنا کافی نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے آگے ایک درجہ اور بھی ہوتا ہے یعنی دوستی ختم کر دینا  ۔۔۔ جو انہوں نے نہیں کیا ۔۔۔ تو صرف منع کرنے نے ان کو فائدہ نہیں پہنچایا ۔۔۔ 


       ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک گاؤں کو ہلاک کرنے کا حکم فرمایا فرشتے نے عرض کیا فلاں نیک بندہ؟ ••• فرمایا: به فابدأ فانه لم يتمعر وجهه فى ساعة قط•• ( رواه الطبرانى في الاوسط والبيهقى في الشعب ) 

      نیک بندے سے ہلاکت کی ابتدا کرنے کا فرمایا- وجہ؟ اللہ کے لئے چہرہ نہیں بگڑا - ارے بھائی یہ گناہ گار سے نفرت کے اظہار کے لئے ہوتا ہے چہرے کا بگاڑنا - 

🛑لا تبدأوا اليهود و النصارى بالسلام وإذا لقيتموهم في الطريق فاضطروهم إلى أضيقه •• ( رواه مسلم) 

        کافر کو ابتدا بالسلام نہیں کرنا - راستے میں آمنا سامنا ہو جائے تو تنگ راستہ چلنے پر مجبور کرنا ہے - یہ ان لوگوں کے ساتھ معاملہ ہے جو آپ کی ماتحتی قبول کرچکے ہوں یعنی ذمی ۔۔۔۔ اور آج یہ حضرات ، حربی بدمعاشوں سے بھی نفرت کے قائل نہیں - 

           اب چند ایسی احادیث ذکر کرتے ہیں  جن میں اللہ تعالیٰ کے بغض اور نفرت کا ذکر ہے  ۔۔۔ جن سے اللہ کی نفرت ان سے ہماری نفرت  ۔۔۔۔ جیسا کہ   تخلقوا باخلاق الله کا تقاضا ہے ۔۔۔


 ثلاثة يبغضهم الله ••• والثلاثة الذين يبغضهم الله الشيخ الزانى والفقیر المختال والغنى الظلوم ••••( النسائى والترمذي) - 

        🛑ألأنصار لا يحبهم إلا مؤمن ولا يبغضهم إلا منافق فمن أحبهم أحبه الله ومن أبغضهم أبغضه الله ••• ( البخارى ومسلم) 

      🛑 إن الله ليبغض الفاحش البذى ••• ( الترمذى) 

🛑ان الله يبغض البليغ من الرجال الذي يتخلل بلسانه كما تتخلل البقرة ••• ( الترمذى ابوداود أحمد) 

           دین میں تو کفار فساق و فجار سے اس قدر نفرت کی تعلیم دی گئی ہے  کہ کھانے پینے لباس پوشاک عبادات وغیرہ میں میں ان کے ساتھ  تشبہ کو ممنوع  قرار دیا گیا ہے  ۔۔۔  ان کی مخالفت کا حکم  دیا گیا ہے ۔۔۔ 

     صحیح بات یہ ہے کہ ہم کفر اور فسق کی وجہ سے کافرین اور فاسقین سے نفرت کرتے ہیں - یہ اللہ کا حکم ہے جب تک وہ کفر و فسق پر ہیں ہمیں ان سے نفرت ہے ہاں کسی بھی حال میں حد سے تجاوز اور نا انصافی نہیں کریں گے - 

       جب کافرین سے نفرت نہیں ہوگی تو ان کے خلاف جہاد کیسے ہوگا ؟؟ سوچنے کا مقام ہے - اس قسم کی باتیں وہ ہزاروں دفعہ کہہ اور سن چکے ہوتے ہیں اس لئے غیر محسوس طریقے سے جہاد سے دور ہوتے جاتے ہیں کافروں کو بد دعاء تک دینے سے کتراتے ہیں حالانکہ حضرات : نوح علیہ السلام موسی علیہ السلام اور ہمارے نبی علیہ السلام سے ثابت ہے صحابہ و تابعین کیا کرتے تھے - 

          آپ امتحان لے لیں - یہ جو کافرین  اور فاسقین سے نفرت نہ کرنے کا کہتے ہیں - آپ ان کے سامنے حاجی عبد الوہاب صاحب ، مولانا سعد صاحب ، مولانا الیاس صاحب ، مولانا زکریا صاحب پر جائز تنقید کرکے دیکھ لیں کہ وہ آپ سے نفرت کرتے ہیں کہ نہیں - ہم  نے تو بعض مواقع پر مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ سے اس کی تنقیص کئے بغیر ان کو گالی دئے بغیر کوئی ثقیل لفظ استعمال کئے بغیر محض علمی اختلاف کیا تو برداشت نہیں کیا گیا - عجیب بات ہے کہ یہ لوگ کافرین سے نفرت نہ کرنے کا درس دے رہے ہیں - 

     ان لوگوں کا عقیدہ ولاء وبراء - بس کیا کہوں  ۔۔۔


              ◀️ سوال ▶️


         ہم میں سے تو کوئی بھی معصوم نہیں سب گناہگار ہیں پھر تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سب ایک دوسرے سے تعلقات ختم کر دیں پھر یہ دنیا کیسے چلے گی ؟


           ◀️ جواب ▶️


         سب سے پہلے کفار پر بات کرتے ہیں ان کے خلاف تو جہاد کا حکم ہے  ... وہ اللہ تعالی کے دشمن ہیں ۔۔۔ لہذا یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہم ان سے نفرت نہیں کریں گے ۔۔۔ 

          مسلمین میں گناہگاروں کی دو قسمیں ہیں  ۔۔۔ ایک وہ جو کھلے عام فاسق ہوں  ۔۔۔ جن کا فسق متعدی ہو ۔۔۔ اور جن کا فسق مشہور ہو  ۔۔۔ جیسے اجرتی قاتل ، ڈاکو ، ظالم ، فحاشی کے اڈے چلانے والے ، بدعات کو عام کرنے والے ، بدعات کے دفاع کرنے والے ، دین پر اعتراضات کرنے والے اور دین کا مذاق اڑانے والے ملحدین ۔۔۔ صحابہ پر تبرا کرنے والے ۔۔۔  جادوگر وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ان کی فہرست طویل ہے لیکن خلاصہ یہ ہے کہ ایسے بڑے گناہ جو کھل کر کئے جاتے ہوں جو دین کے لئے نقصان دہ ہوں  یا جن سے لوگوں کی جان مال عزت متاثر ہوتے ہوں  ۔۔۔ ایسے عام گناہگار جن کی وجہ سے مسلم معاشرہ بے چینی کا شکار ہو  ۔۔۔ ان سے قطع تعلق اور بغض دین کا تقاضا ہے  ۔۔۔  اور رہے وہ عام لوگ جو کھل عام فاسق نہ ہوں اور جن سے دین کو یا مسلمین کے عام مفادات کو خطرہ نہ ہو ۔۔۔ جو گناہ کے رسیا نہ ہوں ۔۔۔  جن سے کبھی کبھار گناہ ہوتے ہوں تو ان کے بارے میں حسبِ حالات چشم پوشی بھی کی جا سکتی ہے ۔۔۔ پردہ پوشی بھی کی جا سکتی ہے بلکہ پردہ پوشی کی بہت ترغیب دی گئی ہے  ۔۔۔ کسی مجلس میں مثلاً جھوٹ بولیں یا غیبت کریں تو مناسبِ حال نصیحت پر اکتفاء کی گنجائش ہے  ۔۔۔ کسی غفلت یا سستی کی وجہ سے کسی فریضے کو چھوڑ دیں تو مناسب حال سزا پر اکتفاء کی گنجائش ہے جیسے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے دو ساتھیوں کے ساتھ معاملہ کیا گیا جب وہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے ۔۔۔ 

لیکن یہاں پر یہ واضح رہے کہ یہاں دو اور دو چار کی طرح کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بیان کیا جا سکتا  ۔۔۔ گناہ کے درجات بھی مختلف ہوتے ہیں  ۔۔۔ گناہ کرنے والے بھی مختلف ہوتے ہیں ۔۔۔ جن حالات میں گناہ کیا جاتا ہے وہ بھی مختلف ہوتے ہیں  ۔۔۔ اس لئے اس مسئلے کی پیش آنے والی مختلف صورتوں کے بارے میں دین کے محقق علماء حق سے بار بار رجوع کرنا چاہئے   ۔۔۔ 


         لیکن یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ کفار ، مرتدین ، ملحدین ،  علانیہ اور عادی فساق و فجار سے حسب حالات قطع تعلق اور بغض و نفرت دین کا تقاضا ہے  ۔۔۔ 

کیونکہ اگر کفار اور مرتدین سے نفرت نہ کی گئی تو دین کی بنیادیں ہل جائیں گی  ۔۔۔ اور دین کی تعلیمات محض ایک فسانہ بن جائیں گی ۔۔۔ ارتداد کے دروازے چوپٹ کھل جائیں گے 

        اگر ملحدین کے ساتھ نفرت کا معاملہ نہ ہو تو وہ اسلام کا مذاق اڑانے میں مزید شیر ہو جائیں گے  ۔۔۔ پھر رفتہ رفتہ اسلام بازیچہ اطفال بن جائے گا ۔۔۔ 

       اگر ظالمین سے نفرت نہ ہوگی تو مظلومین کی مظلومیت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور ان کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جائے گا  ۔۔۔ مسلمین کے مال و جان خطرے میں پڑ جائیں گے ۔۔۔ وقس على هذا  ۔۔۔ لہذا ان جیسے گنہگاروں سے نفرت صرف دین کا نہیں عقل کا بھی تقاضا ہے ۔۔۔ 


          ◀️ خلاصہ ▶️


      علی الاطلاق یہ قاعدہ کہ ہم گنہگار سے نہیں ، صرف گناہ سے نفرت کریں گے قرآن و سنت کے خلاف ہے ۔۔۔ اور ناممکن بھی ہے کیونکہ گناہ کا الگ سے کوئی وجود نہیں ہوتا ۔۔۔ یہ خود ساختہ نظریہ جہاد کے خلاف سازش ہے ۔۔۔ کیونکہ جب کفار و مرتدین اور ملحدین کے خلاف نفرت نہ ہوگی تو پھر دشمنی اور جہاد کون کرے گا ۔۔۔ اللہ تعالی ہمیں عافیت نصیب فرمائے آمین ۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔