Monday 10 December 2018

جماعتی اصطلاحات میں لفظوں کی توھین.۔۔۔ رضوان احمد قاسمی قسط 3

جماعتی اصطلاحات میں لفظوں کی توھین
از.... رضوان احمد قاسمی
قسط 3       فی سبیل اللہ اور جہاد
    ہرجماعتی ساتھی کی زبان سے یہ سننے کو ضرور ملتا ہے کہ اللہ کے راستے میں نکلو.. اللہ کے راستے میں نکلنا ہے....وہ اللہ کے راستے میں چل رہاہے. اور اللہ کے راستے میں اتناوقت لگا ہے..... وغیرہ وغیرہ.

اسی طرح یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ اللہ کے راستے میں نکلنا جہاد ہے بلکہ سب سے بڑا جہاد یہی ہے کہ اللہ کے راستے میں نکلا جائے... گویا فی سبیل اللہ اور جہاد کا لفظ ہمارے ساتھیوں کی نوک زبان پر ہے اس لیے آئیے اب ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں لفظ جہاد بھی تو اپنی توھین پہ ماتم کناں نہیں ہے؟ اور لفظ فی سبیل اللہ بھی تو اپنی تذلیل پہ شکوہ نہیں کررہا ہے؟     تو اصل بات یہ ہے کہ جہاد کا لغوی معنی ہے کوشش کرنا. اور فی سبیل اللہ کا لغوی معنی ہے اللہ کے راستہ میں.یعنی اللہ کے راستہ میں نکلنا.....گویا ان دونوں کے لغوی معنی میں بے پناہ عموم ہے. اور اسی عموم کی وجہ سے فقہاء ومحدثین نے بھی بہت ساری چیزوں کو ان دونوں الفاظ کے تحت شمار کرایا ہے.لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاد کااعلی ترین درجہ جہاد بالسیف اور قتال فی سبیل اللہ ہے ان کے علاوہ 
جتنی چیزیں ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی حقیقۃً جہاد نہیں ہیں بلکہ جہاد کے حکم میں ہیں اسی طرح فی سبیل اللہ سے مراد حقیقۃً جہاد کے لیے نکلنا اور میدان جہاد کی طرف سفر کرنا ہے البتہ دوسرے نیک اسفار کو بھی یقیناً فی سبیل اللہ کا ایک جزء مانا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے اسفار کابھی مقام و مرتبہ وہی ہے جو جہادی سفر کا ہےبلکہ یوں کہا جائے گا کہ سفر قتال تو حقیقت ہے اور دوسرے اسفار مجاز ہیں یا اس طرح کہہ لیجئے کہ سفر قتال تو فی سبیل اللہ کا اعلیٰ درجہ ہے اور بقیہ اسفار ادنیٰ درجے کے ہیں. گویا نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ غایتِ شفقت ہے کہ ادنیٰ درجے کے اسفار کو بھی آپ نے وہی حکم دے دیا ہے جو اعلیٰ درجہ کا تھا اور ہم جیسے کمزوروں پہ آپ نے رحم فرمایاہے         مگر یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہم نے اصل کو اور اصل کے حکم میں ہونے کو ایک ہی سمجھ لیا. حالانکہ یہ دونوں بالکل الگ الگ چیز ہے اصل ہونا اور بات ہے اور اصل کے حکم میں ہونا اور بات ہے. یہ تو نبی رحمت کا رحم وکرم ہے کہ ادنی چیزوں کو بھی اعلی کی صف میں شامل فرمادیاہے مثلاً تکبیر تحریمہ سے جماعت میں شامل رھنے والے کی فضیلت اپنی جگہ مسلم ہے . مگر آخری رکعت میں شامل ہونے والا بھی جماعت کی فضیلت سے محروم نہیں رھتا. تو کیا شروع سےشریک جماعت رھنے والے اور اخیر میں شامل ہونے والے دونوں برابر ہوسکتےہیں ؟....... پورے قرآن پاک کی تلاوت کی جو فضیلت ہے اس سے کون واقف نہیں؟ مگر نبی رحمت کی شفقت دیکھئے کہ سورہ اخلاص کو ثلث قرآن کا درجہ عطا کردیا یعنی جو بھی ایک مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے گا اسے ایک تہائی( دس پارہ) قرآن پڑھنے کا ثواب ملے گا اور اگر کوئی تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لے تو وہ پورے قرآن کی تلاوت کرنے والا کہلائیگا... تو کیا مکمل قرآن کی تلاوت کرنے والا اور تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنے والا دونوں ایک درجہ کا ہوسکتا ہے ؟....... صحیح حدیث میں سورہ فاتحہ کا ایک نام قرآن عظیم بھی ہے..... تو کیا صرف سورہ فاتحہ مکمل قرآن مجید کے برابر ہوسکتی ہے؟........ فتح مکہ سے پہلے جولوگ مسلمان ہوئے وہ بھی صحابی ہیں اور جو بعد میں مسلمان ہوئے وہ بھی صحابی ہیں اس کے باوجود قرآن مجید نے دونوں کا الگ الگ درجہ متعین کیا ہے..... تو کیامحض نام کے اشتراک سے دونوں دور کے صحابہ برابر ہوسکتے ہیں؟..... ہمارے عرف اور شریعت دونوں میں خالہ کو ماں اور چچا کووالد کے مانند سمجھا گیا ہے تو کیا واقعۃً خالہ ماں ہوسکتی ہے ؟ یا چچا باپ بن سکتا ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں....نہ تو خالہ ماں ہوسکتی ہے اور نہ چچا باپ بن سکتا ہے اسی طرح نہ تو فتح مکہ کے بعد والے صحابہ پہلے والے صحابہ کے برابر ہوسکتے ہیں. نہ ہی سورہ فاتحہ پورا قرآن ہوسکتی ہے اور نہ ہی سورہ اخلاص کا ایک مرتبہ پڑھنا دس پارہ تلاوت کے برابر ہوسکتا ہے اس لیے کہ یہ دونوں الگ الگ چیز ہے            اسی طرح جہاد تو درحقیقت قتال بالسیف کا نام ہے اور خروج فی سبیل اللہ بھی حقیقۃً سفر جہاد کے لئے نکلنا ہے البتہ نبی رحمت نے طلب علم کے سفر کو اور ہرطرح کے نیک اسفار کوبھی فی سبیل اللہ کا حکم دے دیا ہے اور نیکی کی تمام جدوجہد کو بھی جہاد بالسیف کا درجہ عطا کردیا ہے. ایسےموقع سے ہمارا تو فرض یہ تھا کہ نبی رحمت کی اس رافت وشفقت پر ہزاروں جان سے قربان ہوجاتے اور ادنیٰ کو بھی اعلیٰ کا درجہ دیئے جانے پر ہم اپنے آپ کو نثار کردیتے... مگر ہائے رے حرماں نصیبی! کہ ہم نے کسی کی رعایت نہیں رکھی اور اصل ونقل کے سارے حدود مٹاڈالے ہیں اسی لئے صرف مروجہ طریقہ تبلیغ کو سراسر جہاد کہتے اور فی سبیل اللہ کو جماعتی سفر میں محدود رکھتے ہیں.   جماعتی ساتھیوں سے مجھے یہ کہہ لینے دیجئے کہ لغوی اشتراک سے دھوکہ نہ کھائیے اور 
معنوی ارتباط سے کوئی فیصلہ نہ کیجئے. بلکہ یہ دیکھئے کہ بغیر کسی قرینہ کے جب بھی شریعت نے لفظ جہاد کا تکلم کیا ہے. اس وقت اس کی کیا مراد رہی ہے؟ اور جب بھی خروج فی سبیل اللہ کا لفظ علی الإطلاق استعمال ہوا ہے اس وقت جمہور امت نے کون سا سفر مراد لیا ہے؟ظاہر ہے کہ اس وقت فی سبیل اللہ اور جہاد سے بالاتفاق وہی اسفار مراد ہوتے ہیں جن میں جانوں کاسودا ہوتا. ہتھیلیوں پہ سر ہوتے اور تڑپتی ہوئی لاشوں کا تصور ابھرتا ہے. نہ کہ وہ سفر مراد ہوتاہے جس میں أنواع واقسام کے کھانے بھی ہیں. عیش وآرام کے سامان بھی. عزت واکرام کا استقبال بھی ہے. سیروسیاحت کا پرکیف انداز بھی.    اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں دعوتی اسفار کو بھی فی سبیل اللہ کہا گیا ہے اس لیے ہم اپنے سفر کو اگر اللہ کے راستے میں نکلنا کہتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے؟ اسی طرح نفس امارہ کے ساتھ مجاہدہ کرنے کو بھی جہاد کہا گیا ہے اس لیے اگر ہم اپنی محنتوں کو جہاد کہتے ہیں تو اس میں کیا خرابی ہے؟............ تو اے میرے دوست! شاید آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کے اس طرح کے تکلم سے اسلام کی کتنی دیواریں شق ہورہی ہیں؟ اور شریعت کے کن کن پہلوؤں پہ کاری ضرب لگ رہی ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں؟ کہ جہاد اور فی سبیل اللہ کا جملہ خالص اسلامی اصطلاح ہے؟ اور کسی بھی اصطلاح کے نہ تو عموم کو خاص کیا جاسکتا. اور نہ ہی اس کے خصوص کو عام کیا جاسکتا ہے. اگر ہم نے کسی عام کو خاص کردیا یا کسی خاص کو عام کردیا تو یہ اسلام وشریعت کی سراسر تحریف ہوگی. ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کے تمام غزواتی اسفار کو آپ حضرات جماعت میں نکلنا کہتے ہیں اور سارے لشکراسلام کو آپ حضرات جماعت سے تعبیر کرتے ہیں تاکہ عوام کودھوکہ دیا جائےاور ہزاروں ہزار افراد کے جہادی خروج کو جماعتی خروج کہہ کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے.حالانکہ اس وقت اگر کوئی یہ پوچھ دے کہ صحابہ کے غزواتی اسفار اگردعوتی اسفار تھے توجہاد بالسیف کا سفر کبھی ہوا بھی یا نہیں؟ اگر مجاہدین کا لشکر یہی تبلیغی جماعت تھی تو لشکر اسلام کا وجود شریعت اسلامیہ میں ہے بھی یا نہیں؟ تو سوائے بغلیں جھانکنے کے آپ کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا     یاد رکھئے کہ نماز کے لئے مساجد جانا.تعلیم کے لیے سفر کرنا. جائز کسب معاش کے لیے دوردراز نکل جانا. کسی کی امداد کے لئے رخت سفر باندھنا. جنازہ میں شرکت کے لئے اپنے گھروں سے نکلنا اور کسی بھی حکم شرعی کی تعمیل کے لیے باہر جانا یہ سب کے سب فی سبیل اللہ ہیں اور رضائے خداوندی کا ہر متلاشی یقیناً اسلام کا مجاہد ہے اس کے باوجود شریعت نے ان میں سے کسی کا نام مجاھد نہیں رکھا کیونکہ اس سے لفظ جہاد کی توھین ہے اور فی سبیل اللہ کی عظمت مجروح ہوتی ہے . اسی لیے نام تو کچھ اور رکھا البتہ ثواب کے اعتبار سے ان سبھوں کو بھی وہی درجہ دے دیا جو درجہ جہاد اور فی سبیل اللہ کا ہے. اس لئے خدارا شرعی اصطلاح پہ ڈاکہ نہ ڈالئے اور کسی دوسرے کے نام کو اپنے اوپر ہرگز فٹ نہ کیجئے.. ورنہ تحریف اصطلاح اور تبدیلی اسلام کے گناہ سے کوئی بچانہیں سکتا            نوٹ :اگلی قسط میں مذکورہ دونوں اصطلاح سے متعلق نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے گفتگو ہوگی. ان شاء اللہ             (جاری)        

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔