Saturday 8 December 2018

جماعتی اصطلاحات میں لفظوں کی توھین ۔۔۔قسط نمبر 2


جماعتی اصطلاحات میں لفظوں کی توھین
از.... رضوان احمد قاسمیٓ
  قسط 2     
 اصطلاح امیر کا بقیہ
   جس طرح ہر کپڑا ہرایک پہ نہیں جچتا. ہر بول ہرکسی کوزیب نہیں دیتا اور ہر لفظ ہرشخص پہ فٹ نہیں ہوتا اسی طرح اصطلاحات والقاب بھی ہیں کہ سب کی الگ الگ شان ہے ایک نئی عمر کا عالم دین اگر شیخ وقت کہلانے لگے تو عجیب سا محسوس ہوگا.ایک نوخیز انسان اگر پیر مغاں کہلائے تو حیرت ہوگی اور ایک شاگرد اگر اپنے اساتذہ کا بھی قائد بننے لگے تو گرانی ہوگی کیونکہ ہر لفظ کا ایک مقام ہوتا ہے اور ہراصطلاح کی ایک عظمت ہوتی ہے جس کے لئے علم وعمل کے ساتھ عمر بھی چاہیے. تجربہ اور سلیقہ کے ساتھ بڑوں کااعتماد بھی حاصل ہونا چاہیے          ماضی قریب میں جھانک کر دیکھئےتو پتہ چلےگا کہ صاحب القاب پر ان کے القاب واقعی فٹ بیٹھتے اور مکمل جچتے تھے جیسے شیخ الحدیث کا لفظ شیخ زکریا. شیخ یونس. شیخ نصیر خاں اور شیخ عبدالحق کے لیے جتنا اچھا لگتا کسی اور کے لئے اس قدر اچھا نہیں لگتا. امیرشریعت کا لفظ جس طرح مولانا منت اللہ رحمانی پہ فٹ ہوتا کسی اور پہ فٹ نہیں ہوتا. مفکر اسلام کا لفظ جس طرح مولانا علی میاں ندوی کو زیب دیتا کسی اور کو زیب نہیں دیتا. قاضی کا لفظ جس طرح مولانا مجاہدالاسلام قاسمی کے لئے موزوں تھا کسی اور کے لئے ابھی تک نہیں ہے اسی طرح حضرت جی کا لفظ جس طرح مولانا الیاس. مولانا یوسف اور مولانا انعام کے لیے اچھا لگتا تھا کسی اور کے لئے ہرگز اچھا نہیں لگتا اس کے باوجود مولانا سعد صاحب کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ حضرت جی کہلانے کو بیتاب نظر آتے اور امیر کہے جانے کو بےچین ہیں حالانکہ ہرچیز اپنے وقت پہ اچھی لگتی ہے جب وقت آتا ہے تو منوائے بغیر ماننے پہ لوگ مجبور ہوجاتےہیں         امارت کے تعلق سے مولانا سعد کی جانب منسوب دعووں کو سن کر ھنسی بھی آتی ہے کہ ایساکیسے ہوسکتا ہے؟ مثلاً مولانا سعد نے شاید یہ کہا ہے کہ جو مجھے امیر نہ مانے وہ جہنم میں جائے. اب اس جملہ کو اگر ہم محاورہ پہ محمول کرلیں تب تو کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ حدیث پاک میں رغم أنف ابی ذر بھی ہے یعنی ابوذر کی ناک خاک آلود ہو. ظاہر ہے کہ یہ کوئی بددعا نہیں بلکہ ایک محاورہ ہےجیسے ہمارے سماج میں بھی یہ بول دیا جاتا ہے کہ میاں چھوڑو. جائے وہ جہنم میں....لہٰذا یہ ایک محاورہ ہوا جس پر کوئی گرفت نہیں ہوسکتی لیکن اسی تعلق سے مولانا سعد کے دوسرے دعووں کو اگر سامنے رکھا جائے تو پھر اسے محاورہ پہ ہرگز محمول نہیں کیا جاسکتاہے       مثلاًمولانا سعد کی جانب یہ منسوب ہے کہ میں خدا کی طرف سے امیر منتخب ہوں. اسی طرح یہ جملہ بھی ہے کہ میں قیامت تک کے لیے امیر ہوں. اگر یہ دونوں جملے واقعۃً انھوں نے کہےہیں جیساکہ متعدد ذرائع اس کی تصدیق کرتے ہیں تب تو یہ کہنا ہوگا کہ انہوں نےبڑا ہی خطرناک دعویٰ کردیا ہے اور تاویل کی گنجائش ہونے کےباوجودظاہر الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ انھوں نے دبی زبان میں مہدیت ونبوت کے دروازہ پہ دستک دےدی ہے کیونکہ خدا کی طرف سے امیر منتخب ہونے کا مطلب آخر یہی تو ہوگا؟ کہ وحی والہام کے ذریعہ مجھے امارت سونپی گئی ہے. ورنہ اگر یہ مطلب لیا جائے کہ دنیا میں جوکچھ بھی ہوتا ہے سب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اس لیے میری امارت بھی اللہ کی طرف سے ہے. اگر یہ مراد ہے تب تو ہرزناکار کو یہ کہنے کا حق ہوگا. ہر غنڈہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے اور ہرمجرم کا یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ زناکاری. یہ غنڈہ گردی اور یہ جرائم کا ارتکاب سب اللہ کی طرف سے ہے (العیاذباللہ)...... اس لئے مولانا سعد کے جملہ سے یہ مراد تو ہونہیں سکتی اور جب یہ مراد نہیں ہے تو پھر دوسری صورت وحی والہام ہی کی بچتی ہے گویا مولانا کا یہ دعویٰ ہے کہ میں ملہم من اللہ ہوں اور میرے پاس وحی آتی ہے. میری امارت خدائی فیصلہ ہے جواسے نہیں مانے گا وہ جہنم کا مستحق ہوگا اسی طرح مولانا نے اپنے آپ کو خاتم الامراء قرار دیا ہے کیونکہ جب ان کی امارت قیامت تک کے لیے ہے تو گویا آپ کے بعد کوئی دوسرا امیر جماعت نہیں ہوسکتا. اب پتہ نہیں ان کے لڑکوں کو اس جملہ کی نزاکت کا احساس ہے یا نہیں؟ ان کے لڑکوں کو غور کرنا چاہیے کہ ان کے اباجان نے تو سبھوں کے لئے امارت کا عہدہ ہی ختم کردیا ہے اس لیےکہ آئندہ جوبھی ہوگا نائب ہی ہوگا اصل امیر نہیں ہوسکتا. تبھی تو قیامت تک ان کی امارت چلے گی.         اگر ان تمام منسوب جملوں کا تجزیہ درست ہےتو پھر مولانا سعد نے نہ صرف یہ کہ لفظ امیر کی توھین کررکھی ہے بلکہ لفظ امیرکا گلا گھونٹ کر اسے مھدی اور نبی کا لبادہ بھی اوڑھادیا ہے.یعنی جو امیر ہے وہ مھدی بھی ہےاور جو عالمی امیر ہوگا وہ عالمی مھدی بھی ہوگا. مگر مولانا سعد نے شاید اس طرف غور ہی نہیں کیا کہ امام مھدی کا ظہور تو خود ہی قیامت کی بڑی علامتوں میں سے ایک ہے پھر قیامت تک امیر ہونے کا دعویٰ کیسا؟ جب علامت کبری شروع ہوگئی تو قیامت تک کا کوئی مطلب ہی نہیں رھتا.... اور شاید فتنہ شکیلیت کا آغاز بھی کچھ ایسی ہی خوش فہمیوں اور سازشوں کا نتیجہ ہے کیونکہ شکیل بن حنیف بھی برسوں دہلی میں رہا ہے. تبلیغی ذمہ داروں سے اس کے گہرے مراسم رہے ہیں اور اس نے بھی اپنے مھدی ہونے کا اعلان سب سے پہلے دہلی ہی میں کیا ہےپھر جب اسے ماربھگایا گیا اور مہاراشٹر کے بعض علاقے اس کی دعوتوں کا مرکز بن گئے تو پھر دہلی خالی ہوگئی. اس لیے ایک اور صاحب نے وہی دعویٰ کردیاہے. مگرہوشیاری کے ساتھ. اپنے مھدی ہونے کا اعلان کردیاہے مگر دبے لفظوں کے ساتھصاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں           ابھی حال ہی میں ایک اورویڈیوکلپ سننے کو ملی ہے جس میں اسی امیر صاحب نے انبیاء کرام کے لیے بھی نازیبا الفاظ استعمال کیا ہے اور یوں کہا ہےکہ اے میرے ساتھیو! تمہاری آزمائش اختیاری ہے جبکہ انبیاء کرام کی آزمائش اضطراری تھی. 
     اسی طرح اس ویڈیو میں یہ بھی ہے کہ ہرنبی کو ایک نہ ایک دعاء مستجاب دی گئی تھی لیکن اس دعاء مستجاب کو نبی کریم کے علاوہ سارے انبیاء نے اپنی امت کی ہلاکت کے لئے استعمال کیا....     
 شان نبوت میں یہ گستاخیاں کیوں ہیں؟ اسی لئے نا؟کہ امیر کہلانے والے شخص پہ امارت کا لفظ فٹ نہیں ہے . اگر لفظ امارت ان کے لیے مناسب ہوتا تو ہرگز ایسی گستاخ زبان استعمال نہ ہوتی. ذرا پہلے جملہ پہ غور کیجئے کہ انبیاء کرام کی آزمائش اضطراری تھی اور تم لوگوں کی آزمائش اختیاری ہے.......... یہ ہے مولانا سعد کا جملہ. اب اس سے آپ خود ہی نتیجہ نکال لیجیے کہ درجے کس کے بلند ہیں؟ اختیاری والوں کےیااضطراری والوں کے؟ظاہر ہے کہ اضطرار میں ہمارا تو کوئی دخل ہی نہیں اس لئے اضطراری میں درجات کی بلندی کا کوئی مطلب ہی نہیں. درجات تو بلند ہونگے اس وقت جبکہ ہمارے کسب واختيار کا بھی اس میں کچھ دخل ہو اس لئے بالفاظ دیگر یہ کہا جارہا ہے کہ اے چلت پھرت کرنے والے ساتھیو! تمہارا مقام و مرتبہ تو انبیاء کرام سے بھی بلند ہے (العیاذباللہ)............. اسی طرح یہ کہنا کہ سارے ہی انبیاءکرام نے اپنی اپنی دعاء مستجاب کو امت کی ہلاکت کے لیے استعمال کیا ہے یہ کتنی بڑی گستاخی. بےادبی اور دیدہ دلیری ہے؟ بلکہ تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے......ان ساری گستاخ جرآت وہمت کی بنیاد وہی لفظ امارت ہے....... کاش لفظ امارت کی توھین نہ ہوئی ہوتی تو شاید ہمارے کانوں کو ایسی گستاخیاں بھی سننے کو نہ ملتیں.کاش یہ لفظ امیر کسی بےباک وبےادب پر فٹ نہ کیا جاتا تو جیتے جی ہم اپنے انبیاء کرام کے لیے ایسے بیہودہ کلمات نہ سنتے.. 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔