Saturday 8 December 2018

جماعتی اصطلاحات میں لفظوں کی توہین....قسط نمبر 1





جماعتی اصطلاحات میں لفظوں کی توہین
از.... رضوان احمد قاسمی مہتمم جامعہ اسلامیہ محفوظ العلوم للبنات منورواشریف سمستی پور بہارہند  
قسط
1
توھین تو توھین ہے. چاہے جاندار کی ہو یا بےجان کی.کسی کی بھی توھین قابلِ مذمت ہے اور توھین کرنے والے کی حوصلہ افزائی ہرگز نہیں کی جاسکتی ہے.البتہ اگر کسی کی توھین کا شریعت ہی نے حکم دیا ہو تووہ ایک الگ بات ہے ورنہ عام حالات میں اس کی اجازت نہیں      بےوقوف کو عقلمند کہنا. جاہل کو عالم کہنا اور گمراہ کو ھادی ومھدی کہنا یہ سب لفظوں کا غلط استعمال اور تعبیر کی غلطی ہے. یہ تعبیری غلطیاں کبھی مفردات میں ہوتی ہیں . کبھی مرکبات میں.. کبھی تشریح وتفہیم میں ہوتی ہیں . کبھی اصطلاح وتسمیہ میں. اور ایسی غلطیاں کبھی جان بوجھ کر ہوتی ہیں کبھی انجانے میں.کبھی دوسروں کو دھوکہ دینا ہوتا ہے اور کبھی اپنے آپ کو........ بہرحال لفظوں کا غلط استعمال... غلط ہےتو غلط ہے..... چاہے جیسے بھی ہو اور جب بھی ہو کیونکہ اس سے بہت سارے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں. فریب در فریب کا طویل سلسلہ چل پڑتا ہےاور من گھڑت فضائل ومناقب کے طومار کھڑے ہونے لگتے ہیں      :امیر: جماعتی اصطلاحات میں سب سے پہلی اصطلاح امیر کو لے لیجئے کہ امیر جماعت کے بارے میں جماعتی ساتھیوں کا تصور کیا ہے؟ اور ان کے مقام ومرتبہ پر کیسے کیسے استدلال کئے جاتے ہیں؟       اسلامی تاریخ میں امیرالمومنین کو بے پناہ تقدس حاصل ہےاور سمع وطاعت کے جتنے پہلو ہوسکتے ہیں وہ سب کے سب ان کے قدموں پہ نچھاور ہیں کیونکہ کلام الہی نے انھیں اولی الامر کے پرشکوہ خطاب سے یاد کیا ہےاور خدا و رسول کے بعد اطاعت وفرمانبرداری میں انھیں تیسرا مقام دیا گیا ہے. احادیث رسول میں بھی جہاں جہاں اپنےامیر سے سرتابی پہ وعیدیں آئی ہیں ان ساری جگہوں پہ وہی امیرالمومنین مراد ہے جسے ہم اپنی زبان میں بادشاہ کہتے ہیں. عربی میں انہیں سلطان کہا جاتا ہے اور اسلامی اصطلاح میں وہ امیرالمومنین اور خلیفۃ المسلمین کہلاتے ہیں. گویا امیرالمومنین وہ ہے جن کے پاس لشکری طاقت بھی ہو اور احکامات نافذ کرنے کی قوت بھی. جلوت میں بادشاہ ہو اور خلوت میں شب بیدار. رعایا کی تکلیف پہ تڑپتا ہو اور اپنی تکلیف پہ مسکراتا ہو.ریا ونمود سے دور ہو اور کسی کی بھی نصیحت سے مسحور ہو. الغرض زہدو قناعت. علم و معرفت اور لشکری طاقت وقوت میں جوشخص سچا اور پکا نائب رسول ہو اسی کو اسلام نے امیرالمومنین کہا ہے اور اسی امیرالمومنین کو مختلف احادیث میں اختصاراً صرف امیر کہا گیا ہے. ایسے ہی امیر کی اطاعت سے روگردانی بغاوت ہے اور ایسے ہی امیر کے اوامر کو بجالانا لازم ہے      اس کے برخلاف حدیث پاک میں آتا ہے کہ دوران سفر اپنے رفقاء میں سے کسی کو امیر بنالو. کوئی اجتماعی کام کرنا چاھتے ہو تو کسی کو امیر چن لو. کوئی نشست منعقد ہورہی ہو تو کسی کو امیر منتخب کرلو. اور کوئی مشورہ کی محفل ہوتو کسی کو امیر طے کرلو. الغرض متعدد مواقع پر نگراں. سرپرست. ذمہ دار. صدر اور ناظم وغیرہ کو لفظ امیر سے تعبیر کیا گیا ہے اب اگر ان سب امراء کو بھی وہی درجہ دے دیا جائے جو درجہ امیرالمومنین کا ہے تو یقیناً لفظ امیر کی توھین اور حددرجہ ناانصافی کی بات ہوگی     مروجہ تبلیغی جماعت میں تقسیم سے پہلے بھی کوئی نہ کوئی امیر جماعت ہوا کرتا تھا مگر اس امیر کو امیرالمومنین باور کرانے کا کوئی تصور نہ تھا لیکن جب سے تقسیم ہوئی ہے اور تبلیغی جماعت دو حصوں (شوریٰ و امارت) میں منقسم ہے تب سے امارت والوں نے اپنے امیر کو وہ درجہ دے رکھا ہے جو امیرالمومنین کا درجہ ہوا کرتا ہے اور امیرالمومنین کے تعلق سے جتنے ارشادات رسول ہیں ان سب کو اپنے امیر جماعت مولانا سعد صاحب کےاوپر منطبق کرتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ انہیں محسوس نہیں ہوتی ہے. ایسے میں بے زبان لفظِ امیر خود اپنا سر پیٹ رہا ہے کہ اے عقل و خرد کے اندھو! اور اے مادر زاد یتیمو! کہاں یہ تمہارا امیر اور کہاں امیرالمومنین؟ چہ نسبت خاک را با عالم پاک..........اےکورمغزو!ذرا غور تو کرو کہ جسکے ساتھ بھی لفظ امیر کا لاحقہ ہو اگر وہ سب امیرالمومنین ہے تو بتاؤ بیک وقت کتنے امراء ہوجائیں گے؟ شہر اور صوبہ تو کجا.... ایک محلہ میں دسیوں امیرالمومنین ہوں گے پھر امیرالمومنین کی عظمت ہی کیا رہے گی؟اور اس کی کیا حیثیت باقی رہے گی؟ حالانکہ یہ اسلامی تاریخ کا ایک انتہائی باوزن لفظ ہے. اس کی ھیبت سے کتنوں کے پتے پانی ہوجاتے تھے اور کتنوں کو سخت سردی میں بھی پسینہ آجاتا تھا مگر آج تم نے اسی لفظ کی یہ پوزیشن بناڈالی ہے کہ خود اپنے گھر پہ اس کا کنٹرول نہیں. اس کے باوجود تم کہتے ہو کہ جولوگ تم سے علیحدہ ہوگئے وہ باغی ہیں اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی بنگلہ والی مسجد کو مرکزیعنی دارالسلطنت کہتے ہوئے نہیں تھکتے.     یاد رکھو کہ الفاظ کی بھی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے۔بعض تو حکومت کےلئے ہوتے ہیں اور بعض غلامی کےلئے. کچھ الفاظ حفاظت کرتے ہیں۔اور کچھ وار کیا کرتے ہیں. ہر لفظ کا اپنا ایک وجود ہوتا ہے. الفاظ صرف معنی ہی نہیں رکھتے، بلکہ دانت بھی رکھتے ہیں۔ جن سے کاٹ کھاتے ہیں. یہ ہاتھ بھی رکھتے ہیں، جن سے گریبان پھاڑ دیتے ہیں۔یہ پاؤں بھی رکھتے ہیں جن سے ٹھوکر دیتے رھتے ہیں۔ الفاظ کے ہاتھوں میں لہجہ کا اسلحہ بھی ہے جن سے وجود کو چھلنی چھلنی کردیتے ہیں۔ ۔ ۔اس لئے اپنی اصطلاحات کی تفہیم میں "محتاط" ہو جاؤ، ورنہ یہ تمہیں کرچی کرچی کر کے بکھیر دیں گے۔ اور اپنے لفظ امیر کو صرف اپنے گروہ تک محدود رکھو ورنہ شریعت کی برھنہ تلوار بھی اپنی تمام تابانیوں کے ساتھ چمک رہی ہے. کہیں ایسا نہ ہو کہ امیر المومنین کہلانے کے شوق میں امیرالمحرفین. امیرالمدلسین اور امیرالشیاطین سے ملقب ہوجاؤ.        ھندوستان کے مختلف صوبوں میں کچھ لوگ امیرشریعت بھی تو ہیں اور بعض کو امیرالھند بھی کہا جاتا ہے مگر ان حضرات نے کہاں اپنے کو امیرالمومنین باور کروایا؟ نہ تو ان کے ماننے والے ہی انہیں امیرالمومنین کا درجہ دیتے ہیں اور نہ وہ خود اپنے آپ کو ایسا سمجھتے ہیں اس لئے ان کے لئے لفظ امیر کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ وہ لوگ حق بجانب ہیں. مگر امارتی تبلیغیوں نے لفظ امیر کا جو حال بنا رکھا ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا حق بجانب ہے کہ وہاں لفظ امیر کا انطباق ہی نہیں ہوتابلکہ اس لفظ کی سراسر توھین ہوتی ہے اس لیے خدارا اپنے اصولوں میں اکرام الفاظ کو بھی شامل کرلو. ویسے اب تو اکرام مسلم کا خانہ بھی برائے نام ہی ہے تاہم جیسا بھی ہے کم از کم تاریخ کا حصہ تو ہے. اسی طرح اکرام الفاظ کوبھی اپنے چیپٹر میں شامل کرلو تاکہ تمہاری تاریخ میں یہ خانہ بھی خالی نہ رہے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔