Saturday 8 December 2018

مروجہ تبلیغی جماعت....اکابر علماء کی نظر میں ۔۔۔ قسط12

مروجہ تبلیغی جماعت....اکابر علماء کی نظر میں
====================  
 از......... رضوان احمد قاسمی منوروا شریف سمستی پور بہار
       قسط12    
گذشتہ سے پیوستہ   
فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی سے کسی نے یہ سوال کیا کہ کیا تبلیغ تعلیم سے افضل ہے؟
تو آپ نے جواب دیا کہ یہ خیال اصول تبلیغ کے بھی خلاف ہے یعنی علم چھوڑ کر تبلیغ میں جانا غلط ہے الخ...... فتاویٰ محمودیہ ج4 ص241..... اب یہاں حضرت کے جوابی جملے پہ غور فرمائیے کہ یہ خیال اصول تبلیغ کے بھی خلاف ہےیعنی تعلیم تو ہرحال میں افضل ہے اگر کوئی تبلیغی اپنی تبلیغ کو تعلیم سے افضل کہتا ہے تو اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جس اصول تبلیغ کا وہ پیروکار ہے اس کے مطابق بھی تعلیم ہی افضل ہے نہ کہ تبلیغ.......گویا فقیہ الامت کے نزدیک بھی تعلیم وتعلم کا درجہ دعوت وتبلیغ کے درجہ سےافضل ہے .....     کسی سائل نے یہ سوال کیا کہ جس طرح آجکل مسلمانوں میں چل پھر کر تبلیغ ہوتی ہے کیا اس طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی مسلمانوں میں چل پھر کر تبلیغ کی ہے؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسا کوئی ثبوت ہو تو حدیث کی کتابوں سے حوالہ عنایت فرمادیں.....تو جواباً حضرت فقیہ الامت نے فرمایا کہ کوفہ اور قرقیسیہ میں جماعت صحابہ کا تبلیغ کے لیے جانا فتح القدیر کتاب الزکوۃ میں مذکور ہے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت کے ساتھ کوفہ بھیجا الخ......... فتاویٰ محمودیہ ج 4 ص 202.....
 یہاں سوال وجواب پہ ذرا دھیان دیجئے کہ سوال تو اس کا ہے کہ رسول اللہ سے ثابت ہے یا نہیں؟ اور جواب ہے کہ صحابہ سے ثابت ہے.سائل نےجواز وعدم جواز کا سوال نہیں کیا ہے اور یہ بھی نہیں پوچھا ہے کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟بلکہ براہ راست رسول اللہ سے ثابت ہونے کی دلیل مانگی ہے اس کے باوجود حضرت فقیہ الامت نے صرف شرعی دلیل پیش کی ہےاور صحابہ کرام سےثابت ہونا بتلایا ہے. پتہ چلا کہ آپ کے نزدیک ایسا کوئی جزئیہ موجود نہیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ بذات خود رسول اللہ نے بھی مسلمانوں میں چل پھر کر اس طرح تبلیغ کی ہے ..........اس تجزیہ کی روشنی میں اہل جماعت کو سوچنا پڑے گا کہ جس طریقہ کو وہ نبیوں والا طریقہ کہتے ہیں اور جس چلت پھرت کو وہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسليم سے جوڑتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں وہ تو خود ان کے وکیل وترجمان کے نزدیک ثابت نہیں.............       البتہ اگر کسی کو یہ اعتراض ہو جائے کہ خود فقیہ الامت نے بھی تو اسےنبیوں والا کام مانا ہے؟ اور مختلف جگہوں پہ اس کا اقرار کیا ہے؟ تو اس معترض دوست کو حضرۃ الأستاذ فقیہ الامت ہی کی خدمت میں ہم لے چلیں گےتاکہ دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہو جائے. چنانچہ ہم نےحضرۃ الأستاذ کے دروازے پہ دستک دی اور فتاویٰ محمودیہ میں اسی اعتراض کا جواب ڈھونڈھا کہ آخر آپ کے نزدیک یہ طریقہ نبیوں والا طریقہ کیسے ہے؟ تو یہ جواب ملا کہ میں نے اسے جو نبیوں والا کام کہا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود آپ سے بھی مسلمانوں میں چل پھر کراس طرح کی تبلیغ ثابت ہے بلکہ صرف اس وجہ سے کہا ہے کہ دین سیکھنے سکھانے کا طریقہ رسول اللہ کے یہاں بھی زبانی تھا اور اہل جماعت کے یہاں بھی سیکھنے سکھانے کا طریقہ زبانی ہے لہذا تشبیہاً اسے نبیوں والا طریقہ بھی کہا جا سکتا ہے       
چنانچہ خود حضرۃ الأستاذ کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے . وہ لکھتے ہیں کہ لہذا یہ کہنا بھی درست ہے کہ یہ نبیوں والا کام ہے یعنی بغیر مدرسہ وکتاب کے زبانی دین سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کرنا اور اپنی زندگی کو اس کے لیے وقف کر دینا طریقہ انبیاء ہے مگر دین سیکھنے کے جو دوسرے طریق ہیں ان کو ناجائز کہنا جائز نہیں اور اصول تبلیغ کے بھی خلاف ہے اس سے پورا پرھیز لازم ہے اور ہرمسلم کا اکرام اور علمی ودینی خدمت کرنے والوں کا اکرام بھی لازم ہے......... فتاویٰ محمودیہ ج 4 ص 207....     حضرۃ الأستاذ کا محض زبانی سیکھنے سکھانے کی بنیاد پر اسے نبیوں والا کام کہنا کیسا ہے؟ اس سے کوئی بحث نہیں. ہمیں تو صرف یہ دکھلانا ہے کہ معترض کو اعتراض کا کوئی حق نہیں... کیوں کہ فقیہ الامت نے جس بنیاد پر اسے نبیوں والا کام بتلایا ہے اس کی توجیہ بھی آپ نے واضح کردی ہے. اس لئے یقین ہے کہ اب معترض کو تسلی مل چکی ہوگی کہ فقیہ الامت نے اسے نبیوں والا کام کہا ہے تو کیوں کہا ہے؟     مروجہ اہل جماعت کے لئے ان کے بڑوں نے ایک اصول بنارکھا ہے اور اسی کے دائرہ میں رھنے کی سختی سے تلقین کررکھی ہے. اسی تعلق سے حضرت فقیہ الامت نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اصول کی پابندی نہ کرنے اور اپنی حد سے بڑھ کر تقریر کرنے سے خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور بعضوں کے ذھن میں یہ بھی آجاتا ہے کہ اصل کام تو ہمارا ہی ہے باقی دوسرے طریقوں پر. مدارس. خانقاہیں. وعظ وتذکیر اور تصنیف وغیرہ کے ذریعہ جو دینی کام کیا جاتا ہے اس کو وہ لوگ معمولی کام بلکہ نااھل تو حقیر کام سمجھنے لگتے ہیں یہ ان کی غلطی اور فتنہ کی چیز ہے اہل علم ودانش کو ان کی نگرانی اور اصلاح ضروری ہے ورنہ یہ فتنہ متعدی ہوجائے گا...... فتاویٰ محمودیہ ج 4 ص 307.........      
  حضرت کے اس جوابی اقتباس کو بار بار پڑھئے اور موجودہ سنگین حالات کا جائزہ لیجئےکہ اصول جیسے بھی ہوں اگر اہل جماعت نے ان کی پابندی کرلی ہوتی تو ان کے عقیدے خراب نہ ہوئے ہوتے. ان کے اعمال میں عصبیت کا تعفن نہ آتا. وہ صرف اپنے کو دین کا خادم نہ سمجھتے اور دوسرے دینی خدام کی تحقیر نہ کرتے. حضرت فقیہ الامت کی دور بیں نگاہوں نے مدتوں پہلے یہ تاڑ لیا تھا کہ اہل جماعت کا طبقہ اپنے اصولوں سے تجاوز کر رہا ہے. اپنی تقریروں میں حدوں کو پارکر رہا ہے اور تبلیغ دین کے بجائے تحقیر دین کا مرتکب ہونے جارہا ہے اس لئے آپ نے اہل علم ودانش کو آواز دی ہےکہ ایسا ہوتے ہی فوراً آگے آئیے اور ان کی اصلاح کیجئے ورنہ یہ فتنہ متعدی ہوجائے گا   آج کی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے کہ واقعۃً یہ ایک فتنہ بن چکا ہے. داعیان دین اب خطرہ دین بن گئے ہیں اور اصلاح کا بیڑہ اٹھانے والے إفساد کی تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں.مگر چونکہ مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند نے اصلاح کی صدا لگا دی تھی اس لیے خود دارالعلوم دیوبند نے لبیک کہہ دیا اور غلطی وگمراہی پر ہاتھ رکھ دیا ہے. فالحمد للہ علی ذالک                  

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔