Monday 5 November 2018

*مروجہ تبلیغی جماعت....اکابر علماء کی نظر میں**قسط 11*



*مروجہ تبلیغی جماعت....اکابر علماء کی نظر میں*
====================
*از......... رضوان احمد قاسمی منوروا شریف سمستی پور بہار*
====================
*قسط 11*
_________________________

*فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند*
ولادت:1325ھ1907ء :وفات :1417ھ 1996ء
_________________________
فقیہ الامت نے حفظ قرآن کے بعد 1341ھ سے 1347ھ تک مظاھرعلوم سہارنپور میں تعلیم حاصل کی پھر 1348ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور مسلسل تین سالوں تک زیرِ تعلیم رہ کر 1350ھ میں سندفراغت حاصل کرلی.. مگر چونکہ آپ کو حدیث پاک کا شوق کچھ زیادہ ہی تھااس لئے دوبارہ آپ نے مظاہر میں دورہ حدیث پڑھی اور قاسمی کے ساتھ مظاھری بھی بن گئے.
فراغت کے بعد بحیثیت معین مفتی مظاھر علوم ہی میں آپ کا تقرر ہوا پھرآپ کانپور تشریف لے گئے اور 1385ھ مطابق 1965ء میں آپ کو دارالعلوم دیوبند بلا لیا گیا لیکن تقسیم دارالعلوم کے قضیہ سے آپ کی طبیعت جب اچاٹ رھنے لگی تو حضرت شیخ زکریا کے ایماء پر 1402ھ مطابق 1982ء میں آپ دوبارہ مظاھرعلوم آگئے اور جب حضرت شیخ زکریا کا انتقال ہو گیا نیز مظاھرعلوم کے حالات بھی بگڑ گئے تو پھر آپ 1405ھ مطابق 1985ء میں دوبارہ دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے اور زندگی کے آخری لمحے تک دارالعلوم کے صدر مفتی رہے
_________________________
تبلیغی جماعت کے تعلق سے حضرت فقیہ الامت کے بارے میں کچھ اور ہی تصور ہےاور وہ تصور غلط بھی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ حضرت شیخ زکریا کی حیات میں اور ان کے بعد بھی اگر کسی نے تبلیغی جماعت کو سب سے زیادہ فقہی مواد فراہم کیا ہے تو وہ آپ کی ذات ہے. اگر کسی نےالیاسی جماعت کی سب سےزیادہ فقہی ترجمانی کی ہے تو وہ حضرت فقیہ الامت ہیں اور مولانا الیاس کے دور سے لیکر مولانا انعام الحسن کی وفات تک اگر کسی نے مروجہ تبلیغ کی علمی وکالت کی ہے تو وہ دارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی ہیں اسی لئے ان کے علمی ذخائر کو ڈھونڈھتے رہ جائیے اور صفحات کے صفحات پلٹتے چلے جائیے کہیں بھی آپ کو مخالفت کی تحریر نہیں مل پائیگی اور مروجہ تبلیغ کے خلاف کسی بھی طرح کی لب کشائی عنقا نظر آئے گی لیکن چونکہ میں نے بھی حضرت فقیہ الامت سے نسائی شریف پڑھی ہے اور چھتہ مسجد کی مجلس میں کئی بار شرکت کی ہے اس لئے آپ کے رجحانات سے کسی قدر واقف ہونے کی وجہ سے مجھے یقین تھا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ملے گا اور موجودہ سلسلہ اقساط کے لائق کوئی نہ کوئی سراغ ضرور فراہم ہوگا چنانچہ ورق گردانی کے دوران کچھ باتیں ایسی دستیاب ہوگئیں جنہیں زیرِ نظر عنوان کے تحت ٹانکا جاسکتا ہے
مروجہ اہل جماعت کا عام مزاج یہ ہے کہ مدارس والے ہوں یا خانقاہ والے. سب لوگ اپنے کام کو چھوڑ کر ہمارے کام میں بھی وقت لگائیں جبکہ حضرت فقیہ الامت کا مزاج کچھ اور ہے اور وہ اس کے ہرگز قائل نہیں ہیں....... جیسا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا یوسف صاحب نے اپنے رفیق درس حضرت ہردوئی سے دوران ناشتہ یہ بات کہی تھی کہ مولانا! آپ جیسے حضرات کا اس کام میں لگنا باعثِ برکت ہے آپ کچھ وقت ہمارے اس کام کے لیے بھی فارغ کیجئے......... اتفاق سے اس دسترخوان پہ مولانا یوسف اور مولانا ہردوئی دونوں کے استاذ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی بھی شریک ناشتہ تھے. فقیہ الامت نے مولانا ہردوئی کے جواب سے پہلے خود ہی جواب دیا کہ *دیکھئے آپ ایک کام کررہے ہیں یہ ایک کام کررہے ہیں وہ بھی ضروری ہے یہ بھی ضروری ہے اس لیے یہ جماعت میں اس وقت جاسکتے ہیں جبکہ آپ ان کا مدرسہ سنبھالنے کے لئے آجائیں...... حضرت محی السنۃ. مؤلفہ مولانا عبد القوی ص 66*
یہ ہے جواب اس فقیہ الامت اور وکیل جماعت کا.... جن کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے.... کہ کسی مدرسہ والے کو کچھ وقت لگانے کے لئے کہا جائے.. کہنے والے بھی خود امیرثانی ہوں...... پھر بھی مفتی صاحب اتنا سخت جواب دیںگے. مگر کیا کیجیے؟ کہ حقیقت چھپائی نہیں جاسکتی. کیونکہ مفتی صاحب کے نزدیک جس طرح جماعت والے دین کا کام کررہے ہیں اسی طرح مدارس والے بھی دین کی تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں......... یہ تو آج کے غالیوں کا فضول دعویٰ ہے کہ جماعت والے ہی دین کا کام کررہے ہیں. کاش ان کور چشموں کو اپنے وکیل وترجمان کامذکورہ جواب نظر آجاتا کہ پہلے آپ اپنا کام چھوڑ کر ان کا کام سنبھالئے تو پھر یہ بھی آپ کا کام سنبھالنے کو جماعت میں نکل جائیں گے
مولانا فضل الرحمن اعظمی صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے *حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی اور جماعت تبلیغ* اس میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ مذکور ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دونوں واقعہ ایک ہی سفر کا ہے بس فرق اتنا ہے کہ پہلے واقعہ میں گفتگو دستر خوان پہ ہورہی ہے اور یہاں ملاقاتیوں کی بھیڑ میں ہے . اسی طرح پہلے واقعہ میں مولانا یوسف کا مطالبہ حضرت ہردوئی سے تھا جبکہ یہاں مطالبہ وشکایت خود حضرت مفتی صاحب سے ہےاور شکایت کی وجہ یہ ہے کہ مولانا یوسف صاحب اپنے والد کی چھیڑی ہوئی تحریک سے جڑنا نہیں چاہتے تھے اس لیے مولانا الیاس اور شیخ زکریا دونوں نے مفتی صاحب کو یہ ذمہ داری دی تھی کہ تم علمی دلائل سے یوسف کو اس طرف مائل کرو چنانچہ مفتی صاحب نے اپنے علمی دلائل کی روشنی میں مولانا یوسف کو ایسا مائل کیا کہ وہ امیر ثانی بھی بن گئے. جبکہ حضرت مفتی صاحب خانقاہ نشیں ہوگئے....... بہرحال ہردوئی اسٹیشن پر مولانا یوسف سے ملاقات کے لیے جہاں اور لوگ پہونچتے ہیں وہیں حضرت مفتی صاحب بھی موجود ہیں. مولانا یوسف صاحب نے جب مفتی صاحب کو دیکھا تو اپنی ضروری گفتگو کے بعد فرمایا کہ *پہلے تو ہمارے پیچھے پڑے رھتے تھے اور ہم کو ادھر لگا کر خود پیچھے ھٹ گئے. اب ہماری خبر نہیں لیتے. حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہمارے حوالے جو کام کیا گیا تھا ہم نے اس کو انجام دے دیا اور ہم اس میں کامیاب ہیں اور کسی ایک کو کونے میں پڑا رھنے دیجئے تاکہ کتابیں دیکھتے رہیں ورنہ کوئی مسائل بتانے والا بھی نہیں ملے گا....... حضرت مفتی صاحب اور جماعت تبلیغ ص 37*
لیجئے یہاں تو براہ راست حضرت مفتی صاحب کی تشکیل ہورہی ہے مگر مفتی صاحب ہیں کہ تشکیل کو صاف صاف رد کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ مجھے کونے میں بیٹھا رھنے دیجئے.یعنی میں جو کام کررہا ہوں وہی کرتا رہوں گا اور آپ کا جوکام ہے اس میں آپ لگے رھئے
کہاں ہیں تبلیغی جماعت کے شیدائی؟ جو مدارس میں پڑھنے پڑھانے والوں کو بھی جماعت میں لے جانے پر اصرار کرتے ہیں اور نہ جانے پر دین سے الگ سمجھتے ہیں اور اگر ٹکا سا جواب دے دیا جائے کہ میں نہیں جاتا توپھر اسے جماعت کا مخالف یا دین بیزاری کا طعنہ دیتے ہیں.......یہاں تو خود ان کے وکیل نے ٹکا سا جواب دیا ہے اس کے باوجود کسی میں ہمت نہیں کہ انہیں جماعت کا مخالف کہہ سکیں
فضل الرحمن اعظمی صاحب نے ایک اور جملہ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب کی روایت سے نقل کیا ہے کہ *حضرت مفتی محمود حسن صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم بم ساز ہیں اور تم بمبار ہو یعنی ہم لوگ مدارس میں افراد علماء تیار کرتے ہیں اور تم لوگ انہیں جگہ جگہ بھیج کر استعمال کرتے ہو....... مفتی صاحب اور جماعت تبلیغ ص 37*
فقیہ الامت کے اس جملہ کی گہرائی پہ غور کیجئے کہ پہلے بم کی تیاری ہوگی پھر اس کا استعمال ہوگا. ایسا نہیں ہوسکتا کہ تیار ہونے سے پہلے اس کا استعمال ہوجائے. گویا پہلے مدارس کی تعلیم ہے پھر جماعت میں جانے کا مرحلہ آئیگا ......... اسی طرح تعلیم کی تکمیل سے پہلے انہیں جماعت میں لے جانا ایسا ہی ہے جیسے بم کی تکمیل سے پہلے اس کا استعمال کرنا........ نیز اس جملہ نے تقسیم کار بھی کرڈالا ہے کہ ہمارا کام اور ہے تمہارا کام اور.............اب ایسے میں اہل جماعت سے کوئی پوچھے تو سہی........ کہ خود تمہارے ترجمان وپیشوا نے جب تقسیم کار کرڈالا ہے تو پھر اہل مدارس کے ساتھ مزاحمت کیوں کرتے؟........ اور خود فقیہ الامت نےجب پہلے نمبر پہ مدارس کو رکھا ہے جماعت کو نہیں.تو آج اگر کوئی عالم دین یہ کہتا ہے کہ پہلے مدرسہ کی تعلیم ہے پھر کوئی اور چلت پھرت.... اس وقت تمہارے انگ انگ میں ٹیس کیوں اٹھنے لگتی ہے؟......... اور تکمیل تعلیم سے پہلے طلبہ کو جماعت میں لے جانا کیا حماقت نہیں ہے؟ کیونکہ وہ تو ابھی زیرِ تکمیل ہیں. ابھی تو وہ بم بنے ہی نہیں ہیں پھر تم انہیں کیسے لے جاسکتے ہو؟ کیا یہ ناقص بم تمہیں اپنے مقصد میں ناکام نہیں کردےگا؟
*(نوٹ)مفتی صاحب سے متعلق مزید بارہویں قسط میں پڑھئے)*
(جاری)
_________________________
18 اکتوبر 2018ء مطابق 8 صفر 1440ھ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔