Monday 5 November 2018

*مروجہ تبلیغی جماعت....اکابر علماء کی نظر میں**قسط 10*



*مروجہ تبلیغی جماعت....اکابر علماء کی نظر میں*
====================
*از......... رضوان احمد قاسمی منوروا شریف سمستی پور بہار*
====================
*قسط 10*
______________
___________
*محی السنۃ حضرت مولانا شاہ محمد ابرارالحق صاحب حقی ہردوئی*
ولادت:1339ھ 1920ء وفات:1426ھ 2005ء
_________________________
حضرت ہردوئی کا آبائی وطن میرٹھ ہے مگر ان کے والد بزرگوار نے ہردوئی میں اقامت اختیار کر لی تھی اس لیے آپ کی ولادت وابتدائی تعلیم سب کچھ ہردوئی میں ہوئی. پھر 1349ھ میں جبکہ آپ کی عمر صرف دس سال تھی مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا اوروہیں سے 1356ھ میں دورہ حدیث کی تکمیل فرمائی.گویا صرف سترہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوگئے.
چمنستان تھانوی کے یوں تو سارے ہی پھول سدابہار ہیں اور ہر ایک کی مشکباری سے پوری فضا معطر وخوشگوار ہے لیکن محی السنہ حضرت مولانا ہردوئی کی خوشبو کچھ اور ہی محسوس ہوتی ہے اسی لئےتو صرف 22 سال کی عمر میں حضرت تھانوی نے آپ کو خلافت عطا کردی . اور اسے حسن اتفاق ہی کہیے کہ اگر آپ نے خلافت سب سے اخیر میں پائی ہے تو وفات میں بھی آپ سب سے آخری خلیفہ ہیں 
_________________________
حضرت ہردوئی کی پوری زندگی دعوت وتبلیغ کے لیے وقف رہی اور امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر آپ کا طرہ امتیاز رہا ہے اس کے باوجود مروجہ تبلیغی جماعت کی غالیانہ ذھنیت نے بارہا آپ کو ٹارچر کیا اور تھانوی مشن کو چھوڑ کر الیاسی تحریک سے جوڑنے کی کوشش کی ہے
شہر حیدرآباد دکن کے ایک مشہور عالم دین حضرت مولانا محمد عبد القوی صاحب ناظم مدرسہ اشرف العلوم نے *حضرت محی السنہ ذات. صفات.خدمات اورملفوظات* کے نام سے ایک جامع سوانح حیات لکھی ہے ابھی وہی کتاب میرے سامنے ہے. اس میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ کسی صاحب نے حضرت سے دریافت کیا کہ حضرت حکیم الامت اور حضرت مولانا الیاس کے کام میں کیا فرق ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ *حضرت تھانوی میں غیرت کا غلبہ تھا وہ چاہتے تھے کہ خواہ چند ہی آدمی بنیں مگر کامل بنیں. اور مولانا الیاس صاحب کے مزاج میں شفقت کا غلبہ تھا کہ چاہے تھوڑا ہی دین سیکھیں مگر سب سیکھیں چنانچہ غلبہ غیرت کا ثمرہ اصلاح تام کی صورت میں ظاہر ہوا اور غلبہ شفقت کا نتیجہ اصلاح عام کی شکل میں سامنے آیا..... حضرت محی السنۃ ص106*
یہ ہے حضرت ہردوئی کا مزاج اور آپ کی افتاد طبع. کہ دو بڑی شخصیت کے کاموں کا ایسا تجزیہ کرڈالا . کہ کسی کی ھتک شان بھی نہ ہوئی اور توازن واعتدال کا دامن بھی نہ چھوٹا.
*اس کے باوجود آپ کو حیرت ہوگی کہ چھوٹے تو چھوٹے ہیں ان کے بڑوں کے بڑے یعنی حضرت مولانا یوسف صاحب امیر ثانی نے بھی اپنے رفیق درس حضرت ہردوئی سے یہی کہا تھا کہ آپ ہمارے کام میں لگ جائیں* (انشاء اللہ اس واقعہ کا حوالہ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی والی قسط میں آئے گا)
اسی طرح حضرت ہردوئی نے اپنا ایک واقعہ خود بیان کیاہے کہ *ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ تبلیغ کا کام جب ہورہا ہے تو پھر آپ یہ دوسرا کام کیوں کررہے ہیں؟ آپ اسی میں کیوں نہیں لگ جاتے؟ میں نے کہا آپ حضرت تھانوی کو کیسا سمجھتے ہیں؟ کہنے لگے انہیں میں اہل حق اور بڑا عالم سمجھتا ہوں. میں نے کہا انہوں نے ہی تو یہ کام (دعوۃ الحق کا کام) شروع کیا ہے. انہوں نے دوسرے کاموں کو کافی نہیں سمجھا. جب آپ ان کو بڑا عالم مانتے ہیں تو ان کی بات کیوں نہیں مانتے؟ یعنی دعوۃ الحق کے کام میں میرے ساتھ لگ جائیں. بس چپ ہوگئے......... حضرت محی السنۃ ص 166*
الغرض ایک ایسا شیخ وقت جس کے یہاں ہر بڑے کا احترام ہے. ہردینی کام کرنے والے کا اکرام ہے اور ہر اصلاحی خدمات انجام دینے والے کی سراھنا ہے اسی شیخ وقت پر جب ڈورے ڈالے جائیں اور اپنی ٹیم میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دین کی خدمت کسے مقصود ہے؟ اور ٹیم کی کثرت کسے مقصود؟
حضرت ہردوئی کا ایک ملفوظ تو خوب نقل ہوتا ہے کہ *تبلیغی جماعت نافع تو ہے مگر کافی نہیں*...... مگر دوستوں نے اس ملفوظ کے اگلے حصے پر توجہ نہ دی ورنہ شاید نقل کرنے کا انداز کچھ اور ہوتا... کیونکہ حضرت ہردوئی نےتو اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنے پر ہی سوالیہ نشان لگادیا ہے آپ فرماتے ہیں کہ *اس کام کا نام تبلیغ عوام نے رکھ دیا ہے. یہ نام بڑوں کا رکھا ہوا نہیں ہے اور نہ ہی تبلیغ شرعی کا اس کام پر مکمل اطلاق ہوتا ہے سب ہی جانتے ہیں کہ تبلیغ شرعی تو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے مجموعے کا نام ہے چنانچہ خود حضرت مولانا الیاس صاحب نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ یہ نام میں نے نہیں رکھا اگر میں اس جماعت کا نام رکھتا تو نماز کی تحریک رکھتا تبلیغی جماعت نہ رکھتا الخ..... حضرت محی السنۃ ص164*
لیکن اب سوال یہ ہے کہ اس جماعت کا آخر کچھ تو نام ہونا چاہیے تو اس سلسلے میں حضرت ہردوئی فرماتے ہیں کہ *یہ اصلاحی جماعت ہے تبلیغی جماعت نہیں* چنانچہ عرب کے ایک شیخ نے جب اس جماعت پر اعتراض کرتے ہوئے حضرت سے پوچھا تھا کہ ھندوستان سے آنے والے کچھ لوگ اپنے کو تبلیغی جماعت کہتے ہیں حالانکہ وہ صرف چھ باتوں کی تلقین کرتے ہیں اس لیے وہ تبلیغی جماعت کے لوگ کیسے ہوسکتے ہیں ؟ اور کیا یہ اہل حق کی جماعت ہے یا کوئی اور ؟ تو حضرت ہردوئی نے فرمایا کہ *یہ لوگ بھی اہل حق ہیں اور ہمارے اکابر ہی سے ان کا تعلق ہے البتہ یہ تبلیغی نہیں اصلاحی جماعت ہے ان کا منشأ امت مسلمہ کی اصلاح ودرستی ہے اور اس کے لئے سیدھا سادا طریق تجویز ہے اس لیے ان امور پہ زور دیتے ہیں...... یہ جواب سن کر وہ شیخ حد درجہ مطمئن ہوئے اور میری پیشانی کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آج سمجھ میں آئی بات. ورنہ مجھے عرصے سے اس کام پر اشکال تھا....... حضرت محی السنۃ ص 165*
حضرت ہردوئی فرماتے ہیں کہ ایک جگہ اس پر بحث چل رہی تھی کہ تعلیم زیادہ ضروری ہے یا تبلیغ؟ تو میں نے کہا *اللہ کے بندو! کس چیز میں پڑے ہوئے ہو؟یہ تو ایسا ہی ہوا جیسےکوئی پوچھے کہ آنکھ کی زیادہ ضرورت ہے یا کان کی؟ کوئی بھی شخص سن کر ھنسے گا. کیونکہ کان کا الگ کام ہے اور آنکھ کا الگ. دیکھنے کا کام کان نہیں کرسکتا اور سننے کا کام آنکھ نہیں کرسکتی. لہٰذا تعلیم و تبلیغ دونوں ضروری ہیں البتہ ایک تیسری چیز ہے تزکیہ. جوکہ تعلیم وتبلیغ دونوں سے اہم ہے. تبلیغ کی جدوجہد اور مدارس کے ماحول سے اعمال تو وجود میں آجاتے ہیں مگر قبولیت کے لائق تزکیہ کے بعد ہی ہوتے ہیں اور تزکیہ کا حاصل یہی ہے کہ گندے اخلاق ختم ہوجائیں..... حضرت محی السنۃ ص 184*
حضرت ہردوئی کے مذکورہ بالا تمام اقتباسات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کے نزدیک اس مروجہ جماعت کا نام غلط ہے اس کا تبلیغی جماعت کے بجائے اصلاحی جماعت نام ہونا چاھئے
اسی طرح حضرت کے نزدیک خانقاہی تزکیہ کے بغیر عنداللہ کسی بھی تبلیغی کام کی قبولیت کا خیال فضول ہے
اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اہل جماعت کا مقصد ہی تکثیر جماعت ہے اگر دین مقصود ہوتا تو دوسرے دینی کام کرنے والوں کو اپنی صف میں لانے کی تگ و دو نہ کرتے
(جاری)
_________________________
16 اکتوبر 2018ء 6 صفر 1440ھ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔