Monday 5 November 2018

*مروجہ تبلیغی جماعت....اکابر علماء کی نظر میں**قسط 9*


*مروجہ تبلیغی جماعت....اکابر علماء کی نظر میں*====================
*از......... رضوان احمد قاسمی منوروا شریف سمستی پور بہار*
====================
*قسط 9*
_________________________

*مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب جلال آبادی*
ولادت:1330ھ مطابق 1912ء..وفات :1413ھ مطابق 1992ء
_________________________
حضرت مولانا جلال آبادی کا آبائی وطن موضع سرائے برلہ. تحصیل اترولی ضلع علیگڈھ ہے وہیں آپ کی ولادت ہوئی ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی. متوسطات کی تعلیم کے لئے لکھنؤ گئے اور جلالین شریف کی تکمیل تک وہیں رہے. پھر 1347ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور مکمل چار سال تک اکتساب فیض کرتے ہوئے 1351ھ میں فارغ التحصیل ہوگئے
بچپن کے اساتذہ میں سے ایک مشفق استاد حضرت مفتی سعید صاحب لکھنوی بھی تھے جو حضرت تھانوی سے مرید تھے انہیں بعد میں حضرت تھانوی کے ایماء پر مدرسہ تکمیل العلوم کانپور سے جلال آباد مفتاح العلوم بلا لیا گیا تھا یہیں آخری دم تک آپ نے بخاری شریف کا درس دیا ہے. یہ وہ عظیم شیخ الحدیث ہیں کہ حضرت تھانوی سے مجاز صحبت ہونے کے باوجود وصال تھانوی کے بعد اپنے شاگرد رشید حضرت جلال آبادی سے بیعت ہوکر خلافت پائی ہے اور یہی وہ خوش نصیب استاد ہیں جنھوں نے اپنے شاگرد کو مسیح الامت کا لقب دیا ہے
حضرت مسیح الامت نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کے ساتھ ہی حلقہ تھانوی میں بھی داخلہ لے لیا تھا اور جب 1351ھ میں دارالعلوم سے فراغت ہوئی ہے تو فراغت کے ساتھ ہی حضرت تھانوی نے بھی خلافت عطاء کردی ہے
جلال آباد گاؤں میں واقع مدرسہ مفتاح العلوم ایک مکتب کی شکل کا مدرسہ تھا جس کے سرپرست خود حضرت تھانوی تھے. آپ اس مدرسہ کی ترقی کے لئے بہت زیادہ فکرمند رہا کرتے تھے اس لیے آپ نے مولانا مسیح اللہ خاں صاحب سے فرمایا کہ تم یہاں جلال آباد مدرسہ میں آجاؤ. پھر کیا تھا. چشم وابرو پہ مرمٹنے والا یہ خلیفہ صادق 1357ھ میں جلال آباد آگیا اور ایسا آیا کہ یہیں کا ہوکر رہ گیا اسی لئے آپ جلال آبادی سے مشہور ہیں اور اب تو حال یہ ہے کہ کسی کو علیگڈھ کی وطنیت کا خیال تک نہیں آتا
_________________________
حضرت تھانوی کی تربیت گاہ سے جس نے بھی تزکیہ کرلیا یا خانقاہ تھانوی سے اپنا رشتہ جوڑ لیا اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ دعوت وتبلیغ کی مخالفت کرے کیونکہ یہی تو خانقاہ تھانوی کا مشن تھا.............. لیکن یہ بھی ممکن نہیں کہ راہ اعتدال سے ھٹنے والوں کو وہ دیکھتا رہے اور ہونٹوں پہ مہرسکوت لگائے بیٹھا رہے. چنانچہ حضرت مسیح الامت کی پوری سوانح حیات پڑھ جائیے اور ان کے روز وشب کے معمولات کا پورا جائزہ لے لیجیے کہیں بھی آپ کو مخالفت نظر نہیں آئے گی. پوری زندگی اصلاح ودعوت کے لیے آپ کو وقف ملے گی اور مولانا الیاس کی چھیڑی ہوئی تحریک سے لوگوں کو آپ جوڑتے ہوئے پائیں گے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب منکرات پہ تنبیہ کا موقع آیا. اور غلو و افراط کا احساس ہوا تو پھر وہی مسیح الامت ہیں مگر لب و لہجہ بدلا ہوا ہے اورغلو وافراط کی نشاندہی میں قینچی کی طرح زبان چل رہی ہے.
مثلاً ایک کتاب ہے *خطبات مسیح الامت*. اس کی *تیسری جلد* میں آپ کے وہ خطبات بھی شامل ہیں جو بالخصوص تبلیغ اور اس کے شرائط وآداب سے متعلق ہیں چنانچہ آج کل جس طرح اہل جماعت کا یہ عام تصور ہے کہ مدارس اسلامیہ میں پڑھنا پڑھانا تبلیغ نہیں ہے اسی طرح کا احساس غالباً حضرت مسیح الامت کے دور میں بھی تھا اسی لئے آپ نے بڑی تفصیل سے اس کا رد کیا ہے اور دلائل کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں پڑھنا پڑھانا نہ صرف یہ کہ تبلیغ ہے بلکہ تبلیغ کا سب سے اعلی وارفع درجہ یہی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ *اس درس و تدریس سے بھی مقصود تبلیغ ہی ہے سو یہ درس و تدریس تبلیغ کا سب سے بڑا فرد ہے بلکہ تبلیغ کے تمام شعبوں کا اول اور اصل ہے اور تمام محکموں کا مدار ہے........ خطبات مسیح الامت جلد 3 ص 29*
حضرت نے اپنے اسی سلسلہ خطابت کے دوران طلبہ مدارس کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ نصاب تعلیم کی تکمیل سے قبل کسی طرح کی تبلیغ میں جانے کا تصور غلط ہے کیونکہ علم کے بغیر تبلیغ کی کوئی حقیقت نہیں ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ *یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ طلبہ بھی جو ابھی تعلیم سے فارغ نہیں ہوئے ہیں وہ بھی تبلیغ میں مشغول ہونا چاھتے ہیں حالانکہ ان کے لئے تکمیل علم اول ضروری ہے کیونکہ اگر یہ پڑھنا پڑھانا نہ ہو تو تصنیف وتبلیغ وغیرہ بھی سب بیکار ہے کیونکہ ناقص کی تبلیغ وغیرہ کچھ قابل اعتبار نہیں بلکہ اس طرح تو چند روز میں علم بالکل ہی معدوم ہوجائے گا تو تعلیم بھی تبلیغ کی ایک فرد ہے اور فرد بھی فرد اعظم. کہ تمام شعبے اور محکمے اسی پر موقوف ہیں...... خطبات 3 ص 33.34*
گویا حضرت مسیح الامت کے نزدیک طالبعلمی کے دوران تبلیغ کے لیے نکلنا غلط اور بے سود ہے
جماعتی احباب میں یہ مرض بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ ہرایک کو اپنے ہی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں. ہرایک کو اپنے طریقہ کار کا حصہ بنانا چاہتے ہیں اور کسی نہ کسی حیلے بہانے سے ان کا یہ اصرار ہوتا ہے کہ مدارس کے اساتذہ ہوں یا طلبہ. ہرکوئی عملی طور پر الیاسی تحریک کا حصہ بن جائیں.......... ظاہر ہے کہ یہ ذھنیت انتہائی گھناؤنی اور کینسر زدہ جراثیم پر مشتمل ہے اس لیے حضرت مسیح الامت نے اپنے خطاب میں بارہا اس پہ زور دیا ہے کہ
*تقسیم کیا ہرایک کو قسام ازل نے*
*جو شخص کہ جس چیز کےلائق نظر آیا*
چنانچہ تقسیم کار پہ زور دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ *پڑھنے والا بھی مبلغ. احکام سنانے والا بھی مبلغ. مضامین لکھنے والا بھی مبلغ. مناظرہ کرنے والا بھی مبلغ. جہاد کرنے والا بھی مبلغ. مال دینے والا بھی مبلغ. جیسا کہ تبلیغ متعارف کرنے والا مبلغ ہے یہ نہ سمجھو کہ یہ تبلیغ نہیں ہے یہ سب تبلیغ ہی میں داخل ہے......... خطبات 3 ص 33*
اسی طرح ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ *ایک تبلیغ اصول کی ہے جو کفار کو کی جاتی ہے دوسری قسم فروع کی تبلیغ جیسے نماز روزہ یہ مسلمانوں کو کی جاتی ہے تیسری قسم ایک جماعت کو تبلیغ کے قابل بنانا ہے اور یہ بدون درس وتدریس ممکن نہیں......... خطبات 3 ص 32*
الغرض اہل جماعت کے غالیانہ تصور. محض ایک طریقہ کے بارے میں تبلیغ ہونے کے تخیل اور مدارس کے تعلق سے تنگ نظری پہ حضرت مسیح الامت نے خوب خوب قدغن لگائی ہے اور اعتدال کی راہ دکھلاتے ہوئے ان کے روبرو آئینہ رکھ دیا ہے کہ ابھی بھی وقت باقی ہے اپنے چہروں سے غلو وتعصب کے گرد وغبار دھو ڈالو تاکہ تمہیں بھی تبلیغ کا کچھ دینی فائدہ حاصل ہوتا رہے
( جاری)
_________________________
15 اکتوبر 2018ء 5 صفر 1440ھ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔