Monday 10 December 2018

جماعتی اصطلاحات میں لفظوں کی توھین.. رضوان احمد قاسمی قسط 4

جماعتی اصطلاحات میں لفظوں کی توھین
از.... رضوان احمد قاسمی
قسط 4       
  گذشتہ سے پیوستہ
    لگے ہاتھوں ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک عربی جملہ ہے رجعنامن الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر اس تعلق سے یہ بات مشہور ہے کہ ایک غزوہ سے واپسی پر نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ہم لوگ چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ کر آئے ہیں اور ظاہر ہے کہ غزوہ تبوک تو قتال بالسیف تھا اس کے باوجود آپ نے اسے جہاد اصغر کہا ہے جبکہ اس کے بالمقابل جہاد بالنفس کو جہاد اکبر کانام دیا ہےاس لئے یہ کیسے مان لیا جائے کہ قتال بالسیف ہی جہاد کا اعلیٰ درجہ ہے؟ کیونکہ اسے تو زبان رسالت نےجہاد اصغر کہا ہےاس لئے درست بات یہ ہے کہ اصل جہاد جہادبالنفس ہے اور نفس امارہ کے خلاف جفاکشی ہی اصل جہاد ہے کیونکہ زبان رسالت نے اسی کو جہاد اکبر فرمایا ہے      یہی ہے وہ غلط فہمی. جس کی بنیاد پر لفظ جہاد کی شرعی اصطلاح کا غلط استعمال ہوتا چلا آرہا ہے حتی کہ بزرگانِ دین کی مجلسوں میں بھی بارہا یہ سننے کو ملتا ہے کہ نہنگ و ازدہا و شیرنر مارا توکیا  مارابڑےموذی کومارانفس امارہ کو گر مارا      
البتہ بزرگانِ دین کی خانقاہوں میں تزکیہ نفس اور ریاضت ومجاھدہ کو ہرگز ہرگز جہاد بالسیف کا درجہ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی قتال کے سارے فضائل ان پر چسپاں کئے جاتے ہیں بلکہ ہرایک کو اپنے اپنےدرجے میں رکھا جاتا ہے. لیکن بانی جماعت حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ کا نظریہ کچھ الگ سا ہے اور ان کے یہاں جماعتی چلت پھرت کا مقام وہی ہے جو جہاد بالسیف کا ہے بلکہ اس سے بھی اعلیٰ ہے چنانچہ وہ اپنے ایک ملفوظ میں فرماتے ہیں کہ یہ سفر غزوات ہی کے سفر کے خصائص اپنے اندر رکھتا ہے اس لیے امید بھی ویسے ہی اجر کی ہے یہ قتال تو نہیں ہے مگر جہاد ہی کا ایک فرد ضرور ہے جوبعض حیثیات سے اگرچہ قتال سے کمتر ہے لیکن بعض حیثیات سے اس سے بھی اعلیٰ ہے مثلاً قتال میں شفاء غیظ اوراطفائےشعلہ غضب کی صورت بھی ہےاور یہاں اللہ کے لیے صرف کظم غیظ ہے اس کے دین کے لئے لوگوں کے قدموں میں پڑکے اور ان کی منتیں. خوشامدیں کرکے بس ذلیل ہونا ہے.......... ملفوظات مولانا الیاس ص 67.68 ملفوظ نمبر 93      
 مولانا الیاس صاحب نے اپنے اس ملفوظ میں نہ صرف یہ کہ اپنے دعوتی اسفار کو جہاد کے برابر قرار دیا ہے بلکہ جہاد سے بھی اعلیٰ وأفضل بتلایا ہےاس پر مستزاد یہ کہ ایسی علت بیان فرمائی ہے جسکے مطابق صرف مروجہ طریقہ تبلیغ نہیں بلکہ سینکڑوں چیزیں جہاد سے افضل بن جائیں گی....... ظاہر ہے کہ حضرت مولانا کی یہ توجیہ و تعلیل مکمل خود ساختہ اور اس مفروضہ پرقائم ہے کہ جہاد بالنفس ہی جہاد اکبر ہے۔       
اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ رجعنامن الجہاد الأصغر الخ والا جملہ حدیث ہے بھی یا نہیں؟ تو اس جملہ کو ابن رجب نے جامع العلوم والحكم ج 1ص489 پر امام بیہقی نے الزھد میں ص373پر اور خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ج 13 ص 523 پر گوکہ اسے نقل کیا ہے لیکن علامہ ابن تیمیہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ... لایصح.... (المستدرک علی المجموع ج1ص221)..... اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ لااصل لہ..... (مجموع الفتاوى ج11ص197) ..البانی صاحب نے کہا ہے کہ یہ منکر ہے (السلسلۃ الضعیفۃ 2460) جبکہ ملاعلی قاری فرماتے ہیں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کے نزدیک یہ حدیثِ رسول نہیں ہے بلکہ إبراهيم بن عَبْلہ کا قول ہے
(الأسرار المرفوعہ فی 
الأخبار الموضوعۃ ج1ص 206ح نمبر 211)    
 لیجئے مذکورہ بالا جملہ تو حدیث ہی نہیں ہے اس کے باوجود لوگوں نے اس مقولہ پر فلک بوس عمارت تعمیر کرلی ہےالبتہ بعض ایسی روایات ضرور موجود ہیں جن میں نفس کشی کرنے والے کو مجاہد کہا گیا ہے مثلاً حدیث پاک میں آتا ہے کہ المجاھد من جاھد ھواہ..... (تخريج أحاديث الاحیاء للزبیدی ح1942) .... المجاھد من جاھد نفسہ للہ عزوجل (صحیح ابن حبان ح 4624)المجاھدمن جاھدنفسہ فی اللہ(صحیح ابن حبان ح 4706) المجاھد من جاھد نفسہ  (ترمذی ح 1621) اسی طرح کی اور بھی روایات ہیں جنکی بنیاد پر لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری روایات بھی اصلاً قتال بالسیف ہی سے متعلق ہیں نہ کہ نفسانی ریاضت ومجاھدہ سے ان کا تعلق ہے اسی لئے تمام محدثین نے کتاب الجہاد ہی میں ان روایات کی تخریج کی ہے علاوہ ازیں ان روایات کے بعض طرق میں اس کی تصريح بھی موجود ہے مثلاً مسند الفاروق میں جب اس کی تفصیل بیان کی گئی تو آگے یوں بھی کہا گیا ہے کہ حتی تاتیہ دعوۃ اللہ وھو علی متن فرسہ آخذبعنانہ(ج 2ص463)
       یہ آگے کا جملہ صاف بتلا رہا ہے کہ اپنےنفس سے جہاد کامطلب یہ ہے کہ میدان قتال کا ہو.اور وہ مجاھد گھوڑے پر سوار اس کی لگام تھامے ہوئے میدان قتال میں اس طرح کود پڑے کہ نفس پر پورا کنٹرول رہے تب وہ مجاہد ہوگا        الغرض قرآن وحدیث میں جہاں بھی جہاد فی سبیل اللہ کا لفظ آیا ہے اس کا اولین مصداق صرف اور صرف قتال بالسیف ہے. میدان جہاد کی گرم بازاری ہے اور اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پہ لےکر مخالف اسلام سے قتال کے لیے نکلنا ہے مگر افسوس کہ آجکل لفظ جہاد بھی ایک مذاق بن چکا ہے اور قدم قدم پہ اسلام کی ایک اہم ترین اصطلاح کی توھین روز مرہ کا معمول بن گئی ہے      مروجہ دعوت وتبلیغ کے واعظین نے لفظ جہاد کے عموم سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مشن کو جہادی مشن قرار دے رکھا ہے. جماعت میں نکلنے کو خروج فی سبیل اللہ کا نام دے دیا ہے اور اصطلاحی جہاد یعنی قتال بالسیف کے جتنے فضائل ہیں سبھوں کو اپنی جماعت پر چسپاں کر لیا ہے. تاکہ قتال بالسیف کا تصور ہی ختم ہوجائےاور دشمنانِ اسلام اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں حالانکہ نبی کریم کا واضح اعلان ہے کہ الجہاد ماض الی یوم القیامۃ.... (المعجم الأوسط للطبرانی ج 5ص 95ح 4775) اس لئے جہاد کاتصور ختم کرنے والے تو ختم ہوسکتے ہیں مگر جہاد ختم نہیں ہو سکتا           علاوہ ازیں اہل جماعت کو ہمیشہ یہ ذھن میں رکھنا چاہیے کہ اطلاق(استعمال) اور مصداق دونوں الگ الگ چیز ہے. اصل اور اصل کا حکم دونوں علیحدہ علیحدہ ہیں. اور حقیقت ومجاز دونوں جداگانہ ہیں. اگر ان دونوں الگ الگ چیزوں کے درمیان تفریق نہیں کی جائے گی تو زندقہ اور الحاد کا راستہ کھلتا چلا جائے گا. قرآن وحدیث میں جہاں بھی اصطلاحی جہاد کے علاوہ دیگر اشیاء پہ لفظ جہاد بولاگیا ہےوہ إطلاق واستعمال ہے مصداق نہیں. وہ مجاز ہے حقیقت نہیں. وہ شفقۃً اصل کے حکم میں ہے اصل نہیں. جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ من جاءمسجدی ھذا لم یاتہ الالخیر یتعلمہ اویعلمہ فھو فی منزلۃ المجاھد فی سبیل اللہ (سنن ابن ماجہ ح 227 صحيح ابن حبان ح 87. یہ حدیث حسن ہے) یہاں رسول اللہ نے صاف صاف یہ فرمایا ہے کہ جوبھی میری مسجد یعنی مسجد نبوی میں محض سیکھنے سکھانے کی نیت سے آئے وہ مجاھد فی سبیل اللہ کے درجہ میں ہے........ تو کیا مسجد نبوی کا ہر طالب علم اور ہرمدرس اصطلاحی مجاھد ہوگیا؟ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ الساعی علی الارملۃ والمسکین کالمجاھد فی سبیل اللہ (بخاری شریف ح 6006. 5353)یعنی جوشخص ضعیف وناتواں اور بیواؤں کے لیے سعی کرےان کی ضروریات کا انتظام کرے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے........... تو کیا جو بھی ضعیف ومحتاج کے خرچے برداشت کرےگا وہ شرعی 
اور اصطلاحی مجاھد ہوگیا؟..دربار رسالت میں ایک صاحب نے آکر کہا کہ یارسول اللہ انی اشتھی الجہاد ولا اقدرعلیہ فقال ھل بقی من والدیک احد قال امی قال اللہ فی برھا فاذافعلت ذالک کان لک اجر حاج ومعتمر ومجاھد(مجمع الزوائد ح 13399رجالہ رجال الصحیح)یعنی میری خواہش جہاد کرنے کی ہے مگرمیں اس پرقادر نہیں تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے والدین میں سے کوئی ہے تو انھوں نے کہا کہ جی میری ماں ابھی زندہ ہیں تو آپ نے فرمایا کہ جاؤ اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو اگر تم نے ایسا کرلیا تو تمہارے لئے ایک حاجی. ایک عمرہ کرنے والے. اور ایک مجاھد کا اجر ہے........ایک دوسری جگہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ الصابرعلیہ ( الطاعون)کالمجاھد فی سبیل اللہ (مجمع الزوائدح 3868اسنادہ حسن) یعنی طاعون پہ صبر کرنے والا مجاھد فی سبیل اللہ کی طرح ہے..........           الغرض اس طرح کی متعدد احادیث میں مختلف نیکیاں کرنے والوں کو اللہ کے رسول نے کہیں مجاہد فی سبیل اللہ کہا. کہیں مجاھد کے درجے میں رکھا اور کہیں مجاھد کااجر انہیں عطا کیا ہے مگر ان سب کے باوجود کسی محدث. مفسر یافقیہ نے یہ نہیں کہا کہ یہ سارے حضرات اصطلاحی مجاھد ہوگئے بلکہ یہی کہا کہ ان سبھوں کو بھی شفقۃً ورحمةً مجاھدین کا حکم دیا گیا ہے اصل مجاھد نہیں ٹھہرایا گیا ہے اسی لئے حقیقی مجاھدین کے جو فضائل ومناقب ہیں ان میں سے کچھ بھی ان حضرات(حکمی مجاھدین) کے لیے ثابت نہیں        مذکورہ بالا حقائق وتفصیلات کے بعد بھی اگرعام اسفارِخیر کو بھی حقیقۃً خروج فی سبیل اللہ ماناجائے. دعوتی چلت پھرت کرنے والے کو بھی حقیقۃً مجاھد کہا جائے اور غضب بالائے غضب یہ کہ مجاھدین کےفضائل ومناقب کو تبلیغی جماعت پر چسپاں کیا جائےتو یہ سراسر تحریف. شرعی اصطلاح لفظ جہاد کی توھین اور نئی شریعت کی تشہیر وتعریف ہوگی      (جاری) 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔