Friday 28 September 2018

*مروجہ تبلیغی جماعت....اکابر علماء کی نظر میں**قسط 6*


*مروجہ تبلیغی جماعت....اکابر علماء کی نظر میں*
====================
*از......... رضوان احمد قاسمی منوروا شریف سمستی پور بہار*
====================
*قسط 6*
_________________________
*شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رح*

 
ولادت.1879ء وفات 1957ء
_________________________
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث وصدرالمدرسین. حرم نبوی کے استاذ حدیث. حضرت شیخ الھند کے شاگرد رشید اور جنگ آزادی وطن کے بطل جلیل حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی خدمات جلیلہ سے ایک دنیا واقف ہے اور جمیعۃ علماء ھند کے اسٹیج سے آپ نے قوم وملت کے لیے جو قربانیاں دی ہیں. تاریخ انھیں کبھی فراموش نہیں کرسکتی. آپ کی سیاسی بصیرت اور اصابت رائے کے سامنے گاندھی ونہرو کو بھی گھٹنے ٹیکتے دیکھا گیا ہے اور شیخ الھند کے اس تراشیدہ ھیرے کو وقت کے تمام شیوخ واکابر نے نسبت باطنیہ کانیرتاباں کہا ہے.
حضرت مولانا الیاس رح کی برپا کی ہوئی تحریک دعوت وتبلیغ کو اس نیر تاباں نے بھی اپنی تائید وحمایت کا نور بخشا تھا اورتحسین آمیز کلمات سے نوازا تھا جیسا کہ 220 صفحات پر مشتمل مولانا ابوالحسن بارہ بنکوی کی ترتیب دادہ *ملفوظات حضرت مدنی*
میں جا بجا ایسے ملفوظات موجود ہیں مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے کہ *یہ جماعت تبلیغیہ نہ صرف ایک ضروری اور اہم فریضہ کی حسب استطاعت انجام دہی کرتی ہے بلکہ اس کی بھی سخت محتاج ہے کہ ان کی ہمت افزائی کی جائے........... ملفوظات حضرت مدنی ص 131*
اسی طرح ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ *سلسلہ تبلیغ میں جس قدر جدوجہد ہو مستحسن ہے....... ملفوظات ص 181*
ایک دوسرے موقع سے کسی صاحب نے حضرت مولانا الیاس کے پاس جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپ نے فرمایا کہ *تبلیغی خدمات انجام دینے اور اس کے لئے مولانا الیاس صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر ہدایات حاصل کرنے کا قصد مبارک قصد ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور پھر توفیق عطا فرمائے کہ آپ اس عظیم الشان خدمت کو بخیر و خوبی انجام دیں...... ملفوظات ص 182*
یہ ہیں حضرت مدنی کی تائید وتحسين کے چند نمونے...جن کی بنا پر بلا ریب یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ مروجہ تبلیغی جماعت کو حضرت مدنی کی بھی تائید وحمایت حاصل تھی لیکن اسی *ملفوظات حضرت مدنی* میں بعض ارشادات ایسے بھی ہیں جن کے ہوتے ہوئے جماعتی احباب کی ساری خوش فہمیاں کافور ہوجائیں گی اور مذکورہ بالا تائیدی انہیں ہرگز کام نہ آئیں گی. کیونکہ آجکل کے جماعتی ساتھی بلکہ خود مولانا الیاس بھی اپنی تحریک کو فرض عین سے کمتر نہیں کہتے اورتبلیغی جماعت میں جانے کو مدارس دینیہ کی تعلیم سے بھی افضل سمجھتےہیں ... جبکہ حضرت مدنی نے ایسے فاسد خیالات کو یکسر مسترد کردیا ہے اور اس طرح کے باطل اعتقادات کی سر کوبی فرمائی ہے
چنانچہ کسی صاحب نے حضرت مدنی کے سامنے تبلیغ میں جانے کے تعلق سے اپنے والدین کی عدم رضا کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ *تبلیغ اگرچہ ضروری اور مفید ہے مگر وہ فرض کفایہ ہے اور خدمت والدین فرض عین ہے. جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں ففیھما فجاھد (الحدیث) ان کے حکم کو مانئے اور ان کی خدمت کیجئے. نیز اہلیہ محترمہ کے حقوق ہیں ولھن مثل الذی علیھن........ ملفوظات ص 89*
اسی طرح ایک صاحب کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا کہ *بیوی بچوں کے حقوق آپ پر واجب ہیں اسی طرح والدین ماجدین کے حقوق اور ان کی خدمت گذاری آپ پر فرض عین ہے. ادھر دین کا پھیلانا اور لوگوں کی اصلاح کرنا بھی فرض ہے مگر فرض کفایہ ہے اس لیے جب آپ کو والدین ماجدین اور بیوی بچوں کی ضروریات سے فراغت ہو تب تبلیغی کاموں میں لگئے...... ملفوظات ص94*
مندرجہ بالا ملفوظات سے واضح ہوگیا کہ حضرت مدنی نے تبلیغ کو ہرگز فرض عین نہیں ماناہے اور حقوق واجبہ کی ادائیگی کو مقدم رکھا ہے بلکہ مدارس دینیہ کی تعلیم وتعلم کو بھی آپ نے تبلیغی جماعت سے افضل قرار دیا ہے چنانچہ ایک ملفوظ میں آپ فرماتے ہیں کہ *اس دور فتن میں دین کو پکڑنا قبض علی الجمر کے مرادف ہے سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہیے. اگر تعلیمات دینیہ کامشغلہ ہو تو زیادہ مفید اور ضروری معلوم ہوتا ہے ورنہ تبلیغی جماعت کا پروگرام انسب ہے........ ملفوظات ص 132*
یعنی تعلیم و تعلم کا مشغلہ اگر نہیں ہے تو پھر کسی دوسری جماعت مثلاً مودودی جماعت وغیرہ سے منسلک ہونے کے بجائے تبلیغی جماعت سے جڑنا زیادہ بہتر ہے اور ظاہر ہے کہ دینی تعلیم کا مرکز مدارس ومکاتب ہیں اس لیے اگر پڑھنے پڑھانے کا مشغلہ ہے تو پھر تبلیغ میں جانے کا سوال ہی نہیں. اس لئے کہ تعلیم و تعلم بھی تبلیغ ہی کا ایک شعبہ ہے
شیخ الاسلام حضرت مدنی کے ان ملفوظات کو سامنے رکھنے والا کبھی بھی خوش گمانی کا محل تعمیر نہیں کرسکتا اور چند مجمل تائیدی کلمات کو اپنے لئے ڈھال نہیں بناسکتا کہ دارالعلوم دیوبند بھی ہمارے مالہ وماعلیہ کا مؤید ہے کیونکہ آپ نے دیکھ لیا کہ سرخیل علماء دیوبند کا فرمان کیا ہے؟ اور دارالعلوم دیوبند کے عظیم المرتبت شیخ الحدیث وصدرالمدرسین کیا ارشاد فرماگئے ہیں؟ پتہ چلا کہ شروع ہی سے دارالعلوم دیوبند کی اگر مجمل حمایت رہی ہے تو بس اتنی کہ یہ بھی ایک جائز اور مستحسن کام ہے اور اشاعت دین کا ذریعہ ہے. مگر افسوس کہ آج کے جماعتی احباب نے ہرجگہ یہ ڈھنڈھورا پیٹ رکھا ہے کہ شروع ہی سے دارالعلوم دیوبند نے ہماری مکمل حمایت کی ہے اگر ہم غلط ہیں تو ہمارے اصول و ضوابط آج بھی وہی ہیں کل بھی وہی تھے. پھر متقدمین اکابر دارالعلوم نے کیوں ہماری حمایت کی تھی؟
سچ پوچھئے تو مروجہ تبلیغی جماعت کے کل اور آج میں آسمان وزمین کا فرق ہے. کل کی تشریحات کچھ اور تھیں. آج کی تشریحات کچھ اور ہیں. کل کی تحریف پہ اعتقاد کا قبضہ نہ تھا. آج کی تحریف پہ عقیدے نے پنجہ گاڑ رکھا ہے اور کل کے مبلغین میں نسبتاً تواضع تھی. آج کے مبلغین میں انا وآمریت ہے اس لئے کل اور آج کا فرق کرنا ہی فضول ہے.... اور پھر دور الیاسی ویوسفی میں دارالعلوم دیوبند کے سب سے بڑے کا فرمان اوپر آپ نے پڑھ لیا ہے ایسے میں دارالعلوم دیوبند کی مکمل حمایت کا دعویٰ سو فیصد غلط ہے.... اس کے باوجود اگر ہم مان ہی لیں کہ شیخ الاسلام حضرت مدنی نے آپ کی حمایت کی تھی تو کیا وہ حمایت باقی بھی رہی؟ یانہیں رہی؟ اور آپ کے کردار نے قدیم تائید کو سنہرا کیاہے ؟ یااسے دیمک نے چاٹ ڈالا ہے؟ تو آئیے اور اپنے کلیجوں کو تھام لیجئے کہ جس بزرگ کی مجمل تائید کو آپ مکمل تائید کہہ رہے ہیں اسی بزرگ نے آپ کے شیش محل کو کس طرح پاش پاش کردیا ہے اس کا ایک نظارہ کرلیجئے.
ایک کتاب ہے *حیات شیخ الاسلام کے نایاب گوشے*. یہ کتاب تو میرے لیے بھی نایاب ہے البتہ سرورق موجود ہے اس لیےمصنف ومطبع کا حال معلوم ہے. حضرت مولانا وقاری اصغر علی صاحب رح کے خادم خاص جناب مولانا عبد الحق صاحب سہسپوری نے یہ کتاب ترتیب دی ہے اور مدرسہ فیض الاسلام موضع سوجڑو ضلع مظفر نگر یوپی نے اسے شائع کیا ہے اسی کتاب کے حوالے سے الکلام البلیغ میں ایک طویل اقتباس ہے جس میں حضرت قاری اصغر علی صاحب نے حضرت شیخ الاسلام سے یہ عرض کیا ہے کہ حضرت! تبلیغی جماعت والوں کی تشکیل وگشت وغیرہ سے متعلق مختلف اشکالات میرے پاس آرہے ہیں. لیکن صحیح صورتحال معلوم نہیں ہے اس لئے میں ایسے خطوط کے جواب نہیں دے پارہا ہوں. اس پر حضرت مدنی نے فرمایا کہ *ہاں شکایات تو ہمارے پاس بھی آتی ہیں. میں نے حضرت مولانا الیاس صاحب رح کو سمجھایا تھا کہ اس کام کوعوامی سطح پر لانے میں لااعتدالیاں بھی سرزد ہونگی. لیکن مرحوم کو سمجھ میں نہیں آیا. میری تحریریں اوراس جماعت کے متعلق حمایتیں نہ ہوتیں. تومیں اس طرز کی مخالفت کرتا. لیکن اب کیا کیا جائے. عوام خربطہ میں پھنس جائیں گے......... اس تبلیغی پروگرام سے اس زمانہ میں بھی کچھ علماء بالکلیہ متفق نہیں تھے. میں نے ہی نہیں. میرے علاوہ دوسرے علماء مثلاً مولانا عاشق الہی مرحوم وغیرہ نے بھی اس بارے میں مولانا محمد الیاس صاحب سے گفتگو کی تھی. لیکن مولانا نے اس سلسلہ کو جاری کرہی دیا....... نایاب گوشے ص 34 بحوالہ الکلام البلیغ ص371*
لیجیے اب تو کوئی مسئلہ باقی نہ رہا اس لیے کہ مکمل حمایت کے دعویٰ کی ساری بنیادیں تہہ و بالا ہوکر رہ گئیں.
(جاری)
_________________________
28ستمبر2018ء مطابق 17محرم الحرام 1440ھ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔