Saturday 27 June 2020

ت تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ قسط 46 طارق جمیل بمقابلہ جہاد




تبلیغی جماعت کیا ہے ؟
قسط 46

🔪 طارق جمیل بمقابلہ جہاد
مولانا طارق جمیل صاحب کی مخالفت جہاد اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ... موصوف مختلف بیانات میں عجیب و غریب فلسفے بیان فرماتے رہتے ہیں ... بریلویوں میں جاتے ہیں تو بریلویانہ بیان ، شیعوں میں جاتے ہیں تو شیعیانہ بیان ، یہاں تک کہ کینیڈا کے کافروں میں جاتے ہیں تو کافرانہ بیان ، جیسے کینیڈا کے کافروں کے سامنے بیان کیا تو ارشاد فرمایا کہ : جس حکومت سے عوام خوش ہوں اس حکومت سے اللہ بھی خوش ہوتے ہیں ، اور میں نے یہاں پوچھا دیکھا ، لوگ آپ سے خوش ہیں ......
طارق جمیل صاحب کے رنگ برنگے نظریات تو بہت ہیں .. یہاں صرف جہاد کی مخالفت کے بارے میں بات ہوگی ان شاء الله ... طارق جمیل صاحب کے دیگر نظریات کے بارے میں پڑھیں : كلمة الهادي ، مصنف : مفتی عیسی خان صاحب .... اور : مولانا طارق جمیل صاحب کی بے اعتدالیاں از ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب ...
جہاد کے خلاف بھی آپ کے بیانات میں بہت زیادہ مواد بکهرا پڑا ہے یہاں سب کا احاطہ دشوار ہے اس لئے صرف ایک مشہور بیان پر اکتفا کرتے ہیں جو موصوف نے جہاد کے خلاف بڑے پر درد انداز میں کیا ہے ... موصوف فرماتے ہیں ..

" غور سے سننا ... سو کر نہ سننا ... ہماری مثال سیرت نبوی میں موجود نہیں ہے .. بدر ہمارے لئے دلیل نہیں بن سکتا .. اب ہمیں خلفاء راشدین سے مثال نہیں ملے گی .. نبوی دور سے مثال نہیں ملے گی .. بدر احد خندق ہمارے لئے دليل نہیں بنیں گے .. ہمیں اس بھنور سے نکلنے کے لئے جو راستہ ملے گا وہ صحابہ کے دور میں کوئی نہیں ہے .. پیچھے جانا پڑے گا پیچھے ، بنو اسرائیل میں جانا پڑے گا ...
اب ہم ہیں کچے مسلمان .. ہمیں کہاں سے راستہ ملے گا .. ( لوگوں کے اعتراض کو تحقیر آمیز لہجے میں نقل کرتے ہوئے ) بدر میں تین سو تیرہ تھے تم نے ابھی تک تین سو تیرہ بھی نہیں تیار کئے ... یہ نہ سمجھنے کی وجہ سے بات ہو رہی ہے .. ہمیں لوگ کہتے ہیں .. تبلیغ کا کام اتنے سالوں سے ہو رہا ہے ابھی تک تین سو تیرہ بھی نہیں تیار ہوئے ... ( توہین آمیز لہجے میں نقل اتارتے ہوئے ) الجہاد الجہاد ... ابھی تک تین سو تیرہ بھی نہیں تیار ہوئے .. کوئی جہاد کا منکر ہو سکتا ہے ؟ کوئی قرآن کا منکر ہو کر کہاں جائے گا ؟ جہاد کا انکار تو قرآن کا انکار ہے ، قرآن کا انکار عین کفر ، عین کفر ہے ، ہاں وقت میں اختلاف ہے ، یہ وقت ہے یا نہیں ہے ، نماز فرض ہے پر وقت داخل ہوا ہے کہ نہیں ہوا ، کہ پہلے ہی اللہ اکبر .. او ٹائم تو دیکھ لو بھائی ! .. وقت داخل ہو گیا ہے فرض عین ، ابھی عصر کا وقت کوئی نہیں آیا نماز فرض کوئی نہیں .. ابھی نہیں ہے ابھی نہیں ہے ہونے والی ہے ... ہم کچے مسلمان ہیں .. ہمیں اس بھنور سے نکلنے کے لئے جو راستہ ملے گا وہ صحابہ کے دور میں کوئی نہیں ہے .. پیچھے جانا پڑے گا پیچھے ، بنو اسرائیل میں جانا پڑے گا ، وہ کچے مسلمان تھے وہ اس بهنور سے کیسے نکلے تھے ؟ وہ راستہ اختیار کریں گے تو ہم نکلیں گے .. یہ معاشرہ بنی اسرائیل کے دور میں ہے .. ہمیں واہاں جانا پڑے گا ، اونہوں نے کیا کیا ؟ وہ فرعون سے کیسے نکلے ؟ ان کو کیا کروایا گیا ؟ کہتے ہیں نا : ظلم ہو رہا ہے تم خاموش بیٹھے ہو ؟ بھائی کیا کریں ؟ ... ظلم ہو رہا ہے تم خاموش بیٹھے ہو ؟ موسی علیہ السلام کے سامنے بچے ذبح ہو رہے تھے ،، ہم تو بڑے کچے لوگ ہیں موسی علیہ السلام کیوں نہ اٹھ کھڑے ہوئے ؟ دیکھو ! فرعون کے بچے ذبح کرنے کے دو دورانیے ہیں دو ؛ پہلے ذبح کئے جب اسے کہا گیا : ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے تیری حکومت مٹائے گا اس نے ذبح کرنا شروع کر دئے ، پھر دوبارہ اس نے بچے ذبح کرنے شروع کئے جب وہ جادو میں ہار گیا اس کے جادو گر ہار گئے اور موسی علیہ السلام جیت گئے تو وہ خجالت میں .... شرمندگی مٹانے کے لئے : َ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُون ..اب میں ان کے بچے ذبح کروں گا ان کی عورتوں کو لونڈی بناؤں گا اور ان کو ذلیل کر کے رکھ دوں گا .. اس پر موسی علیہ السلام کی قوم بولی ْ أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِينَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا .. موسی تیرے آنے کا کیا فائدہ ہوا ؟ تیرے آنے سے پہلے بھی عذاب میں تھے تیرے آنے کے بعد بھی عذاب میں ... سمجھ رہے ہو ؟ ہمیں وہاں جانا پڑے گا ... بدر ہمارے لئے دلیل نہیں بن سکتا "

یہ تھا موصوف کا بیان .. اب اس پر ہماری مختصر سی گزارشات ملاحظہ فرمائیں .. اگرچہ یہ اتنا بدیہی البطلان بیان ہے کہ ہر سلیم الفطرت مسلمان اس کے بطلان کو بآسانی سمجھ سکتا ہے تاہم کچھ باتیں پیش خدمت ہیں کیونکہ ممكن ہے کچھ لوگوں کو موصوف کی ان باتوں سے نقصان ہو جائے ...
* ہماری مثال سیرت نبوی میں موجود ہے
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ و َالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
سورة الأحزاب الاية رقم 21
اور وہ تمام آیتیں جن میں طاعت رسول ، اتباع رسول اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کے دئے ہوئے کو لینے کے احکام ہیں ...
* بدر ہمارے لئے دلیل ہے
قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ وَاللّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاء إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لَّأُوْلِي الأَبْصَارِ
سورة آل عمران الاية رقم 13
بدر ہمارے لئے دلیل ہے سبق ہے آئینہ ہے مثال ہے
وہ صحابہ کا اللہ کے لئے تلواریں نکالنا .. اپنے ہی رشتہ داروں کے خلاف صف آراء ہونا .. کم تعداد و اسلحے کے باوجود آمادہ پیکار ہو جانا .. حبشہ کے بلال ، فارس کے سلمان ، روم کے صہیب اور مدینے کے انصار رضي الله عنهم کو محض رشتہ ایمان کی وجہ سے اپنی صف میں اپنے ہی قریشی رشتہ داروں کے خلاف لا کھڑا کرنا .. وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی جان نثارانہ تقریریں ، وہ شاہین بچوں کا ابوجہل پر شکار کی طرح جھپٹنا ... اس طرح بیسیوں دیگر ایمان افروز سبق اور مثالیں ... ارے بھائی بدر دلیل ہی نہیں دلیلوں کا جہاں ہے .. مثال ہی نہیں مثالوں کی دنیا ہے ...

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
ہاں ! وہ کنکریوں کا پھینکنا معجزہ ہے .. معجزہ دلیل نہیں ہوتا ... لیکن افسوس تم یہاں تو کہہ دیتے ہو کہ معجزہ دلیل نہیں ہوتا کیونکہ تم اپنے تئیں ایک مضبوط دلیل کے ذریعے جہاد سے روک رہے ہوتے ہو ... لیکن تم اپنی جماعت کو معجزات اور کرامات ہی کے سہارے چلاتے ہو ... تم کہتے ہو : یقین بناؤ تو آگ تمہارے لئے مسخر کر دی جائے گی جیسے ابراہیم علیہ السلام کے لئے مسخر کی گئی تھی .. یقین بناؤ تو موسی علیہ السلام کی طرح دریا تمہارے لئے مسخر کر دیا جائے گا ہوائیں سلیمان علیہ السلام کی طرح مسخر کر دی جائیں گی ... دو رکعتوں سے مردوں کو زندہ کر سکو گے وغیرہ وغیرہ ... اب بدر کی بیسیوں باتوں کو نظر انداز کر کے ایک بات کو پکڑ رہے ہو ؟ افسوس صد افسوس ... یہ ہے جہاد کے خلاف وہ بغض جو تمہارے سینوں میں آگ جلا رہا ہے ...
اور احد و خندق میں تو بدر سے بھی زیادہ دلائل ہیں جن کو قرآن نے تفصیل سے بیان کیا ہے ...

* خلفاء راشدین سے ہمیں مثال ملے گی
قال أبو داود حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ وَحُجْرُ بْنُ حُجْرٍ قَالَا أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ وَهُوَ مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ ( وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ) فَسَلَّمْنَا وَقُلْنَا أَتَيْنَاكَ زَائِرِينَ وَعَائِدِينَ وَمُقْتَبِسِينَ فَقَالَ الْعِرْبَاضُ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
أخرجه أبو داود في كتاب السنة .. باب في لزوم السنة ، والترمذي وابن ماجه وأحمد رحمهم الله ..

* کیا ہمیں پیچھے بنو اسرائیل کے دور میں جانا پڑے گا ؟
جواب : نہیں ... قرآن و سنت کو صحابہ و تابعین و ائمہ اسلاف کی تشریح کے مطابق لینے کے علاوہ کہیں کوئی روشنی و ہدایت نہیں .. اور یہ تاقیامت ہے ... اگر بالفرض حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تب بھی بنو اسرائيل کے دور میں جانے کی اجازت نہیں تھی ... بلکہ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی قرآن و سنت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا ... عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسْأَلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ شَيْءٍ فَإِنَّهُمْ لَنْ يَهْدُوكُمْ وَقَدْ ضَلُّوا فَإِنَّكُمْ إِمَّا أَنْ تُصَدِّقُوا بِبَاطِلٍ أَوْ تُكَذِّبُوا بِحَقٍّ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ مَا حَلَّ لَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي
أخرجه أحمد في مسنده من حديث جابر رضي الله عنه
عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي
أخرجه أحمد في مقدمة مسنده

ہم بنو اسرائيل کے دور میں کیسے جائیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہودیوں اور نصرانیوں کے بارے میں فرما چکے ہیں کہ اگر وہ میرے بارے میں سن لیں گے لیکن مجھ پر ایمان نہ لائیں گے تو جہنمی ہوں گے ...
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
مسلم في الإيمان .. باب وجوب الإيمان برسالة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم إلى جميع الناس ونسخ الملل بملته ..
بنو اسرائيل کے دور میں جانے کا مشورہ وہ دے سکتا ہے جو قرآن و سنت کو نامکمل سمجھے ..
* کیا حضرت موسی علیہ السلام بےغیرت تھے ؟
نہیں ہرگز ہرگز ہرگز نہیں ... ایسی باتیں " کچے لوگ " ہی کر سکتے ہیں ... ایسی جرات مروجہ تبلیغی ہی کر سکتے ہیں ... یہ کبھی نہیں ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے بچے ذبح ہوئے ہوں اور آپ خاموش بیٹھے ہوں ... یہ طارق جمیل کا خالص افتراء ہے ... اور جو آیت پیش کی ہے اس میں یہ ہرگز نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے بچے ذبح ہو رہے تھے ... بلکہ اس میں یہ ہے کہ فرعون نے یہ کہا کہ ہم ایسا کریں گے .. اب اس نے ایسا کیا یا نہیں ؟ اس بارے میں آیت خاموش ہے اور بظاہر وہ ایسا نہ کر سکا اور اس سے پہلے پہلے پانی کی لہروں کی نذر ہو گیا .. قرآن و حدیث سے اس کی کوئی دلیل نہیں کہ " موسی علیہ السلام کے سامنے بچے ذبح ہو رہے تھے " بس ایک دھمکی کا ذکر ہے جس پر عمل نہ ہو سکا .. اور رہا قوم کا یہ کہنا کہ : اوذينا من قبل أن تأتينا ومن بعد ما جئتنا ... تو یہ دھمکی کی وجہ سے طاری خوف کی وجہ سے تها .. بلکہ یہ خوف اور ناشکری کے مکسچر سے نکلا ہوا قول تھا .. اور یہ آپ کی وہ محبوب قوم ہے جس کی طرف آپ دعوت دے رہے ہیں ...

* کیا اب جہاد کا وقت نہیں ؟
جواب : یہی جہاد کا سب سے بہترین وقت ہے ...
السنن الواردة في الفتن لأبي عمرو الداني اور تاريخ دمشق میں زید بن اسلم رضی اللہ عنہ کی حديث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا
: " لا يزالُ الجهادُ حلواً أخضر ، ما قطر القطرُ من السماءِ ، وسيأتي على الناسِ زمانٌ يقولُ فيه قراءٌ منهم : ليس هذا زمانُ جهادٍ ، فمن أدرك ذلك الزمان ، فنعم زمانُ الجهادِ ، قالوا : يا رسول الله ، واحدٌ يقولُ ذلك ؟ فقال : نعم ، من عليه لعنةُ اللهِ والملائكةِ والناسِ أجمعين .
قلت : الحديث ضعيف ولكنه يتعاضد بطريقتين آخرين له ضعيفين فهو بمجموع طرقه يصلح إن شاء الله لباب الترغيب والترهيب
ترجمہ : جب تک آسماں سے بارش برستی رہے گی جہاد میٹها اور تروتازہ رہے گا اور لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کچھ علماء کہیں گے کہ یہ جہاد کا زمانہ نہیں .. پس جو اس زمانے کو پائے تو وہ جہاد کا بہترین وقت ہوگا ... صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کوئی ایسا بھی کہہ سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں وہ ( ایسا کہہ سکتا ہے ) جس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ...
مسند ابی یعلی میں قریب قریب اسی معنی میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی آئی ہے ...
جہاد کا وقت زمانہ بعثت سے تاقرب قیامت ہے ...
* وَلاَ يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىَ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ
سورة البقرة الاية رقم 217

* عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مِنْ أَصْلِ الْإِيمَانِ الْكَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَلَا نُكَفِّرُهُ بِذَنْبٍ وَلَا نُخْرِجُهُ مِنْ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ وَالْإِيمَانُ بِالْأَقْدَارِ
أبو داود فى الجهاد .. باب الغزو مع أئمة الجور

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں
بَاب الْجِهَادُ مَاضٍ مَعَ الْبَرِّ وَالْفَاجِرِ لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ

2697 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ عَنْ عَامِرٍ حَدَّثَنَا عُرْوَةُ الْبَارِقِيُّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ الْأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ ... البخاري في الجهاد والسير ...
یہ تهیں مختصر سی گزارشات مذکورہ بالا بیان پر .. ... امید ہے حقیقت تک آپ پہنچ چکے ہوں گے .. یہ کسی کا ذاتی فعل نہیں تبلیغی جماعت کا فعل ہے کیونکہ اب تک حضرت کا شمار تبلیغی اکابر میں ہوتا ہے اور منبر پر بھی بٹھایا جاتا ہے .. آج تک نہ تو جماعت نے اظہار لا تعلقی کیا نہ ان بیانات کی تردید کی .. لہذا شرعاً اس جماعت کو ذمہ دار ٹهہرانا درست ہے ...
واضح رہے کہ یہ کسی آیت یا حدیث میں حافظے کی غلطی نہیں جس سے صرف نظر کیا جا سکے ، نہ ہی یہ اعراب کی کوئی غلطی ہے جو قابل برداشت ہو .. نہ اس سے تعبیر کی غلطی کہہ کر چشم پوشی کی جا سکتی ہے ... بیان کو خوب غور سے بار بار پڑهیں .. یہ تو غلط عقیدہ ہے جو مسلمانوں میں پهیلایا جا رہا ہے ... اس پر خاموشی ناجائز ہے اور مداہنت ہے ..
ہمیں حضرت کے کسی رجوع کا کوئی علم نہیں ... ویسے بھی کھل عام بیان کا کهل عام رجوع ہوتا ہے کسی معتقد کے دماغ کے کسی خوش فہم اندرونی گوشے میں نہیں ..
اپنے اور اپنے متعلقین کے ایمان کا خیال رکھئے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔