Saturday 27 June 2020

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ قسط 38 تبلیغی گشت سے متعلق .. حصہ سوم


تبلیغی جماعت کیا ہے؟ مفتی عبد المعز - سنگین فتنہ -sangeenfitna


تبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 38

تبلیغی گشت سے متعلق .. حصہ سوم


گشت میں جانے سے پہلے مسجد کے باہر اجتماعی دعا کا التزام ... اس میں کئی

 باتوں کا التزام کیا جاتا ہے

دعا کا اہتمام

مسجد سے باہر ہونے کا التزام

دعا کو اجتماعی طور پر کرنے کا التزام ...

اگر بریلوی طرزِ استدلال سے کام نہ لیا جائے تو قواعد کی رو سے ... مذکورہ اجزاء و التزامات سے مرکب .... یہ عمل بدعت قرار پاتا ہے .... واللہ سبحانه وتعالى أعلم وعلمه أتم وأحكم


⬅ بےطلبوں کے پاس جانا طلب والوں کے پاس جانے سے بہتر ہے ؟

جواب : طلب والے اہم ہیں .. مقدم ہیں ... طلب والوں سے اعراض اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بھی بن سکتا ہے ... سورة عبس کی تعلیم یہی ہے .. ملاحظہ فرمائیں سورة عبس کی ابتدائی آیات

عَبَسَ وَتَوَلَّى * أَن جَاءهُ الْأَعْمَى* وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى * أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَى* أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى* فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّى* وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّى وَأَمَّا مَن جَاءكَ يَسْعَى وَهُوَ يَخْشَى* فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّى* كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَة*ٌ فَمَن شَاء ذَكَرَهُ *

ترجمہ

      " اس نے ترش رُو ہوکر منہ پھیر لیا ، اس بات سے کہ ان کے پاس ایک نابینا شخص آگیا ،اور ( اے پیغمبر !) آپ کو کیا خبر کہ شاید وہ سنور جاتا ،یا نصیحت کی باتیں سنتا اور نصیحت اس کو فائدہ پہنچاتی ،جو شخص بے پروائی برتتا ہے ،اس کی طرف تو آپ متوجہ ہوتے ہیں ؛حالاں کہ اگر وہ (کفر و شرک کی گندگی سے)پاک صاف نہ ہو تو آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے ،اور جو شخص آپ کے پاس دوڑتا ہوا آیا ،اور وہ (خدا کا) خوف بھی رکھتا ہے ،تو آپ اس سے بے توجہی برتتے ہیں ، ہرگز ایسا نہ کریں ، یہ (قرآن ) تو نصیحت کی چیز ہے ، تو جس کا جی چاہے ، اس کو قبول کرے ۔ " 

ان آیات کے شان نزول اور تفسیر کے لئے ملاحظہ فرمائیں تفسير عثمانی کی یہ عبارت


" آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض سرداران قریش کو مذہب اسلام کے متعلق کچھ سمجھا رہے تھے، اتنے میں ایک نابینا مسلمان (جن کو ابن ام مکتوم کہتے ہیں) حاضر خدمت ہوئے اور اپنی طرف متوجہ کرنے لگے کہ فلاں آیت کیونکر ہے یا رسول اللہ ! مجھے اس میں سے کچھ سکھائیے جو اللہ نے آپ کو سکھلایا ہے۔ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کا بے وقت کا پوچھنا گراں گزرا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خیال ہوا ہوگا کہ میں ایک بڑے مہم کام میں مشغول ہوں۔ قریش کے یہ بڑے بڑے سردار اگر ٹھیک سمجھ کر اسلام لے آئیں تو بہت لوگوں کے مسلمان ہونے کی توقع ہے۔ ابن ام مکتوم بہرحال مسلمان ہے اس کو سمجھنے اور تعلیم حاصل کرنے کے ہزار مواقع حاصل ہیں، اس کو دکھائی نہیں دیتا کہ میرے پاس ایسے با اثر اور بارسوخ لوگ بیٹھے ہیں جن کو اگر ہدایت ہوجائے تو ہزاروں اشخاص ہدایت پر آسکتے ہیں، میں ان کو سمجھا رہا ہوں، یہ اپنی کہتا چلا جاتا ہے۔ اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ اگر ان لوگوں کی طرف ہٹ کر گوشہ التفات اس کی طرف کروں گا تو ان لوگوں پر کس قدر شاق ہوگا۔ شاید پھر وہ میری بات سننا بھی پسند نہ کریں۔ غرض آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منقبض ہوئے اور انقباض کے آثار چہرے پر ظاہر ہونے لگے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ روایات میں ہے کہ اس کے بعد جب وہ نابینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آتے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت تعظیم و تکریم سے پیش آتے اور فرماتے مرحبا بمن عاتبنی فیہ ربی ۔"


نیز ملاحظہ فرمائیں تفسير عثمانی کی یہ عبارت


" یعنی متکبر اغنیاء اگر قرآن کو نہ پڑھیں اور اس نصیحت پر کان نہ دھریں تو اپنا ہی برا کریں گے۔ قرآن کو ان کی کچھ پروا نہیں۔ نہ آپ کو اس درجہ ان کے درپے ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک عام نصیحت تھی سو کردی گئی جو اپنا فائدہ چاہے اس کو پرکھے اور سمجھے۔ "

سورہ عبس کی ان آیات سے ثابت ہوا کہ طلب والوں کو ترجیح دینا اہم ہے ... طلب والوں سے اعراض اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے ...

* سوال : مذکورہ آیات سے یہ تو ثابت ہوا کہ طلب والوں کے مقابلے میں بےطلبوں کو ترجیح نہیں دینی چاہئے ... درس یا افتاء کی خدمت چهوڑ کر بےطلبوں کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہئے ... لیکن یہ تو ان لوگوں کے لئے ہے جن کے ہاں لوگ طلب لے کر آتے ہوں ... جن کے پاس کوئی طلب لے کر نہیں آتا ... ان کے لئے بےطلبوں کے پیچھے پڑنے کا کیا حکم ہے ؟

* جواب : دعوت دینے والے لوگ خواہ کیسے ہوں دعوت کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں جس سے خود دعوت اور دین کی تحقیر ہوتی ہو ... دعوت کی شان یہ ہونا چاہئے

كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ *فَمَن شَاء ذَكَرَهُ *

یہی انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ ہے ... اگر انبیاء کرام علیہم السلام کا مقصد یہ ہوتا کہ : بهیڑ کو جمع کر لو چاہے جیسے بھی ہو ... تو یاد رکھیں : کسی نبی کی امت میں کوئی کافر نہ ہوتا .. انبیاء کرام علیہم السلام بلا کی کشش رکھتے تھے ... اعلیٰ اخلاق .. بہترین انداز بیان .... دلائل کی قوت ... وہ کون سی چیز تھی جو ان حضرات کے پاس نہیں تھی ... لیکن یہ حضرات اصولوں کے پابند تھے ...

کوئی شخص منہ موڑ رہا ہو تکبر دکھا رہا ہو اور آپ چاپلوسانہ انداز میں دعوت دے کر اسے جنت میں لے جانے کی کوشش میں ہوں ... یہ انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ نہیں .. اس سے اور کچھ نہیں ہوگا ... دین کو نقصان ہی ہوگا چاہے تم سمجھو یا نہ ...

ان آیات پر غور فرمائیں اور دعوت کے اصول سیکهیں


أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى * فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّى * وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّى .. سورة عبس

ترجمہ ابھی گزر گیا ۔۔۔ 

قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّيَ وَآتَانِي رَحْمَةً مِّنْ عِندِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنتُمْ لَهَا كَارِهُونَ

سورة هود الاية رقم 28

ترجمہ 

نوح نے کہا : ’اے میری قوم ! بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر میں اپنے پروردگار کی جانب سے واضح دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی طرف سے رحمت ( یعنی نبوت ) سے نوازا ہے ، پھر وہ چیز تم کو سُجھائی نہ دے ، تو کیا باوجودیکہ تم اس سے بیزار ہو ؟ ہم تم کو اس ( کے قبول کرنے )پر مجبور کر لیں ؟ 


وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ

سورة الأنعام الاية رقم 66

ترجمہ

تیری قوم نے اسے جھٹلایا حالانکہ وہ حق ہے کہہ دیجئے کہ میں تمھارا نگران نہیں 


يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُواْ آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ وَمِنَ الَّذِينَ هِادُواْ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُواْ وَمَن يُرِدِ اللّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللّهِ شَيْئًا أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

سورة المائدة الاية رقم 41

ترجمہ

اے رسول ! جو لوگ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ؛ حالاں کہ ان کے دل ایمان سے محروم ہیں ، ان کا اور یہودیوں کا کفر کی طرف دوڑنا آپ کو رنجیدہ نہ کرے ، یہ لوگ ( یہودی علماء سے ) جھوٹی باتیں سننے کے عادی ہیں ( اور ) کچھ لوگ ( یعنی یہودی علماء ) جو آپ کے پاس نہیں آئے ، یہ ( آنے والے ) ان کے لئے جاسوسی کرتے ہوئے ( آپ کی بات ) غور سے سنتے ہیں ،  وہ باتوں کو اس کے موقع و محل سے ہٹا دیتے ہیں ،  وہ کہتے رہتے ہیں : اگر تم کو یہ حکم ملے تو اسے قبول کر لینا اور اگر یہ حکم نہ ملے تو قبول نہ کرنا، اور ﷲ ہی کو جس کا ہدایت سے محروم رہنا منظور ہو ، آپ اس کے لئے ﷲ کے مقابلہ کوئی اختیار نہیں رکھتے ، یہ وہ لوگ ہیں کہ ﷲ کو ان کے دلوں کا پاک کرنا منظور نہیں ، ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ 


قَدْ جَاءكُم بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ 

سورة الأنعام الاية رقم 104

ترجمہ

تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے دلیلیں آچکی ہیں ، پس ! جو ( عبرت کی نظر سے ) دیکھے گا ، وہ اپنے ہی نفع کے لئے دیکھے گا ، اور جو اندھا ہوجائے گا ، اس کا گناہ اسی پر ہوگا اور میں تم پر نگراں نہیں ہوں 


قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ

سورة يونس الاية رقم 108

ترجمہ

آپ کہہ دیجئے : ’ اے لوگو ! تمہارے اوپر تمہارے پروردگار کی طرف سے ( دین ) حق پہنچ چکا ، اب جو ہدایت کو اختیار کرے گا تو وہ اپنی ہی بھلائی کے لئے ہدایت کے راستہ پر رہے گا اور جو گمراہ ہوگا تو گمراہی کا وبال اسی پر ہوگا ، اور میں تم لوگوں پر داروغہ نہیں ہوں 


لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ

سورة الغاشية الاية رقم 22

ترجمہ

آپ ان پر داروغہ تو ہیں نہیں ، 


وَلَوْ شَاء اللّهُ مَا أَشْرَكُواْ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ

سورة الأنعام الاية رقم 107

ترجمہ 

اگر ﷲ چاہتے تو یہ شرک میں مبتلا نہ ہوتے اور ہم نے آپ کو ان پر نگراں نہیں بنایا ہے اور نہ آپ ان پر داروغہ ہیں  


وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ

سورة النمل الاية رقم 81

ترجمہ

اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر ہدایت پر لاسکتے ہیں ، آپ تو صرف اُن ہی کو سناسکتے ہیں ، جو ہماری باتوں کا یقین رکھتے ہیں ، تو وہی ہیں فرمانبردار لوگ ! 


وَمَن كَفَرَ فَلَا يَحْزُنكَ كُفْرُهُ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

سورة لقمان الاية رقم 23

ترجمہ


اور جو لوگ کفر کریں ، تو انکا کفر آپ کے لئے رنج و غم کا باعث نہ بنے (کیوں کہ ) ان سب کی واپسی ہماری ہی طرف ہوگی ، تو ہم ان کو ان کے کرتوتوں کے بارے میں بتادیں گے ، یقیناً اللہ تعالیٰ دلوں کے حال سے بھی واقف ہیں 


إِنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ فَمَنِ اهْتَدَى فَلِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ

سورة الزمر الاية رقم 41

ترجمہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے لوگوں کے لئے آپ پر برحق کتاب اُتاری ہے ، تو جو راستہ پر آجائے ، وہ اپنے ہی بھلے کے لئے آئے گا ، اور جو گمراہ ہوگا ، وہ اپنے ہی اوپر گمراہی کا وبال لے گا اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں ،


وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَولِيَاء اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ

سورة الشورى الاية رقم 6

ترجمہ

اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں ، اللہ ان کی نگرانی کررہے ہیں اورآپ ان پر داروغہ تو ہیں نہیں ، 


نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ

سورة ق الاية رقم 45

ترجمہ

وہ جو کچھ کہتے ہیں : ہم اس سے خوب واقف ہیں اور آپ ان پر زبردستی کرنے والے تو ہیں نہیں ؛ لہٰذا جو میری تنبیہ سے ڈرتا ہے ، اس کو قرآن کے ذریعہ نصیحت کرتے رہئے ۔


فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا

سورة الكهف الاية رقم 6

ترجمہ

تو اگر یہ لوگ اس بات (یعنی : توحید ) پر ایمان نہ لائیں تو شاید آپ مارے غم کے ان کے پیچھے اپنی جان دے دیں گے! 


لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ

سورة الشعراء الاية رقم 3

ترجمہ

اس لئے کہ وہ ایمان نہیں لاتے ، شاید آپ اپنی جان دے دیں گے 


اس سے پہلے بهی مختلف قسطوں میں ہم اصول و آداب دعوت سے متعلق آیات و احادیث ذکر کر چکے ہیں .... اہلِ علم گزشتہ اقساط کی مراجعت فرمائیں


بات گشت سے متعلق چل رہی تھی ... گشت میں بعض دفعہ مجبور کرنے اور تھکا دینے کا طریقہ بھی اختیار کیا جاتا ہے .. یہ بھی درست نہیں ... ان ہی آیات کی روشنی میں .. نیز یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں


عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا .. رواه البخاري في العلم ...


      حضرت ابو والا رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کو عزت کیا کرتے تھے ایک دفعہ ایک شخص نے کہا کہ اگر یہ وعظ روز ہوتا تو اچھا ہوتا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نہیں ، میں حالات کی مناسبت سے کبھی کبھی وعظ کرتا ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہماری رعایت کرتے ہوئے کبھی کبھی وعظ فرمایا کر دیتے تاکہ ہم تھک نہ جائیں ۔۔۔ 


✏ گاڑی میں مختلف لوگ سفر کر رہے ہوتے ہیں .. کوئی پرچہ دینے جا رہا ہے وقت کم ہے ... کوئی ہسپتال جا رہا ہے وہاں اس کا کوئی عزیز زیرِ علاج ہے .. کوئی کسی اور پریشانی میں مبتلا ہے .. یہ لوگ ایسے حالات میں کوئی دعوت نہیں سن سکتے .. گاڑی میں اپنے من گھڑت فضائل مسائل اور کارگزاریوں سے پریشان لوگوں کی سمع خراشی دین کی خدمت نہیں دین سے متنفر کرنے والی بات ہے ... الله تعالی سمجهنے کی توفیق عطا فرمائے ... آمین


ہاں مناسب موقع دیکھ کر ، مناسب انداز سے اصول کی رعایت کے ساتھ لوگوں کو دین کی طرف متوجہ کرنا بلا شبہ بہت اچھا عمل ہے ... الله تعالی ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 


      اچھا آخر میں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ کیا کبھی آپ نے ان حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ گشت کرتے ہوں کہ آج مسجد میں درس قرآن ہے آپ لوگ ضرور تشریف لائیں ؟ ۔۔۔ اپنی ترتیب کے علاوہ یہ کسی دینی کام کے لئے گشت کرتے ہیں ؟؟؟  ثابت ہوا کہ ان کا گشت جسے یہ انبیاء کی سنت قرار دیتے ہیں کسی بھی دینی کام کے لئے ممنوع ہے سوائے ان کی اپنی خود ساختہ ترتیب کے ۔۔۔ 


      میں اپنے ذاتی واقعات نقل نہیں کرتا اور اس سے حتی الامکان گریز کی کوشش کرتا ہوں لیکن آج ایک واقعہ نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں  ۔۔۔ 


       آج سے تقریبا ایک دہائی قبل کا واقعہ ہے ضلع ہنگو میں ایک جگہ میرا درس قرآن تھا  ۔۔۔ محلے میں احباب کی اچھی خاصی تعداد تھی اور اچھا خاصا اثر تھا ۔۔۔ میری سادگی دیکھئے کہ میرا خیال تھا کہ یہ لوگ گشت کر کرکے لوگوں کو لائیں گے ۔۔۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا  ۔۔۔ انہوں نے گشت کیا ضرور ، گھر گھر گئے ، لیکن لوگوں کو روکنے کے لئے  ۔۔۔ درس قرآن میں اچھی خاصی تعداد میں لوگ آگئے ۔۔۔ لیکن کئی لوگوں نے واقعہ سنایا کہ احباب نے گشت کیا تھا کہ درس قرآن میں نہ جائیں ۔۔۔ یہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ نہیں ہے اور یہ اور وہ  ۔۔۔ کئی دن تک درس قرآن چلتا رہا ۔۔۔ ان لوگوں میں سے کوئی بھی نظر نہ آیا ۔۔۔ ہاں یہ واقعات مسلسل پہنچتے رہے کہ ان لوگوں نے عوام کو درس قرآن میں آنے سے منع کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ پھر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ بدھ کا دن آ گیا جو ان کے گشت کا دن ہے ۔۔۔ مغرب کی نماز کے بعد ان میں سے ایک صاحب نے کہا کہ آج کا بیان آپ کا ہے  ۔۔۔ یہ ان کا پرانا طریقہ واردات ہے کہ بغیر کسی سے پوچھے کہہ دیتے ہیں کہ مشورے میں آپ کا نام طے ہوا ہے اس طرح وہ اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔  میں اسی موقع کا شدت سے منتظر تھا  ۔۔۔ اللہ تعالی نے مہیا کیا تھا ۔۔ اب اسے ضائع کرنا ناشکری تھی  ۔۔۔ 


       میں نے جب بیان شروع کیا تو اچھا خاصا مجمع تھا پوری مسجد تقریباً بھر چکی تھی ۔۔۔ پہلے میں نے محلے والوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہماری ضیافت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی   ۔۔۔ نہ صرف طلبہ کی دل کھول کر خدمت کی بلکہ درس میں بھی بیٹھے رہے  ۔۔۔ پھر میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہنا شروع کر دیا : میں آپ کا مہمان ہوں اگر اجازت ہو تو ایک شکایت کرنا چاہتا ہوں اگر اجازت نہ ہو تو نہیں کہتا ۔۔۔ پورے مجمعے نے کہا کہ کہیں ہم سن رہے ہیں  ۔۔۔ میں نے عرض کیا کہ یہاں آنے سے پہلے میرا خیال تھا کہ یہاں تبلیغی بھائیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے یہ لوگ نہ صرف خود بیٹھیں گے بلکہ  گشت کر کرکے اوروں کو بھی لائیں گے ۔۔۔ لیکن معاملہ برعکس ہوا پانچ دنوں میں ہمیں ان میں سے کوئی بھی نظر نہیں آیا  ۔۔۔ ہاں یہ شکایتیں پہنچی ہیں کہ ان لوگوں نے لوگوں کو یہاں آنے سے منع کیا ہے  ۔۔۔ اب میں ان حضرات پر تنقید نہیں کرنا چاہتا صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر ہمارا درس قرآن ناجائز ہو  تو خدا را ہمیں سمجھائیں ۔۔۔۔ 


        مجمع جو پہلے سے اس بات کو محسوس کر چکا تھا  میں سے ایک بڑے میاں نے اٹھ کر کہا کہ نہیں ! اصل بات یہ ہے کہ جہاد کے ذکر سے ان لوگوں کے کلیجے پھٹتے ہیں  ۔۔۔ آج کے بعد سے یہ لوگ نہ فضائل اعمال کی تعلیم کریں گے اور نہ ہی ان کو گشت کی اجازت ہے ۔۔۔ پورے مجمعے نے بڑے میاں کا ساتھ دیا ۔۔۔ زمین بول رہی تھی لیکن تبلیغی حضرات نظریں جھکائے ہوئے ، بولنے سے قاصر تھے ۔۔۔ کیونکہ سو سے اوپر کا مجمع تھا جو بپھرا ہوا تھا ۔۔۔ تبلیغی حضرات نے خاموشی میں اپنی عافیت سمجھی ۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔