Sunday 28 June 2020

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ قسط 48 تبلیغی جماعت اور جہاد ... حصہ پنجم


تبلیغی جماعت کیا ہے؟ مفتی عبد المعز- سعید خان - سنگین فتنہ -Sangeen Fitna


تبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 48


تبلیغی جماعت اور جہاد ... حصہ پنجم

🔪 سعید أحمد خان بمقابلہ جہاد


مولانا سعید احمد خان کا شمار تبلیغی جماعت کے عالمی سطح کے امراء میں ہوتا ہے .. ان کے ملفوظات حالات اور مکاتیب کو بہت سے پرانے احباب بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں .. بغض جہاد میں موصوف کے ساتوں لطیفے کهل گئے تھے اور اعلیٰ مقام تک پہنچے تھے ... ذیل میں موصوف کا ایک خط نقل کیا جاتا ہے جس کے جملے جملے سے موصوف کا بغض جہاد ابل ابل کر سامنے آ رہا ہے ... جن حضرات نے ہمارے اس سلسلے کی تمام یا اکثر قسطیں پڑهی ہیں ان کے لئے اس خط کے جواب نشر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تاہم نئے حضرات کے لئے خط کے بعد ان شاء الله خط کا جواب بھی نشر کیا جائے گا جو ہندوستان کے ایک عالم دین مولانا عبدالقدوس صاحب نے لکھا ہے ... ولا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم


خط :

" مکرم و محترم جناب بھائی اسماعیل بهامجی صاحب ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کا خط ملا جبکہ میں بنگلہ دیش سفر میں جا رہا تھا اس لئے جواب میں تاخیر ہوئی اب کچھ وقت نکال کر جواب لکھ رہا ہوں -

آپ نے یہ لکھا کہ یہاں کچھ علماء نے جہاد کی تحریک اٹھائی ہے یہ تحریک دو سو سال سے مختلف زمانوں میں اٹھتی رہی اور کچھ عرصے کے بعد ختم ہو جاتی تھی - قرآن کو سمجھنے میں بہت غلطی ہوتی رہی اور جہاد کا لفظ مختلف معنی میں استعمال ہوا - دعوت کے معنی میں بھی اور قتال کے معنی میں بھی .. جو آیات جہاد کے لفظ سے مکہ مکرمہ میں اتریں وہ سب دعوت کے معنی میں ہیں جیسے : وجاهدهم به جهادا كبيرا ، دوسری آیات والذين جاهدوا فينا ... الخ ، اور جو آیات مدینہ منورہ میں اتریں معنی میں وہ دونوں معنی میں آئی ہیں دعوت میں اور قتال میں ، جیسے : ياأيها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم اس میں تو منافقین کے ساتھ قتال نہیں کیا .. آنحضرت صلی الله عليه وسلم نے ان کے ساتھ سختی نہیں کی بلکہ بلکہ نرمی سے کام لیا .. ایسے ہی نوح علیہ السلام سے لے کر عیسی علیہ السلام تک جن انبیاء علیہم السلام کا اللہ تعالیٰ نے نام لے کر ذکر فرمایا ان میں سے کسی نے بھی قتال نہیں کیا اور جنہوں نے قتال کیا ان کے نام ذکر نہیں یا نبی بننے سے پہلے قتال کیا .. حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ مکرمہ میں قتال نہیں کیا ، تیرہ سال تک صرف دعوت دی .. یہ چیزیں غور کرنے کی ہیں .. انبیاء علیہم السلام کو دعوت کی نسبت سے بھیجتے تھے تاکہ وہ ان کو جہنم سے بچا کر جنت کی طرف لائیں اور ظلمت سے نور کی طرف لائیں .. کسی نبی کو اس لئے نہیں بھیجا کہ جنت کی طرف سے جہنم کی طرف لائے .. کافر جب قتل ہوگا تو جہنم میں جائے گا .. یہ نبی کا مقصد نہیں بلکہ نبی کا مقصد اس کو جہنم سے بچانا تھا جیسے ایک حدیث میں بھی اس کا اشارہ ہے .. قتال جب واجب ہوا جب کافروں نے اسلام کے پھیلنے میں رکاوٹ ڈال دی .. جزیہ اس لئے واجب ہوا کہ اگر تم اسلام نہیں لاتے تو جزیہ دے کر ہماری ماتحتی میں رہو .. لیکن جب جزیہ دینے پر تیار نہ ہوئے نہ اسلام لانے پر تیار ہوئے تب قتال واجب ہوتا ہے جیسے ڈاکٹر فاسد عضوء کو جب کاٹتا ہے جب اس کے اچها ہونے کی امید نہ ہو اس کے دوسرے اعضاء کو حفاظت کی امید ہوتی ہے اس لئے علماء نے قتال کو حسن لغیرہ کہا ہے حسن لذاته نہیں - حسن لذاته دعوت ہی ہے .. اسلام جو پھیلتا ہے دعوت سے پھیلتا ہے .. دوسرے جب تک جہاد مجاہدین میں صفات نہ آئیں تو اس وقت تک وہ محفوظ من اللہ نہیں ہوں گے .. اس لئے جہاں بھی جہاد کی آوازیں لگی ہیں وہاں شکست کھائی .. کامیاب نہیں ہوئے .. قتال إلى يوم القيامة ہے مگر وقت اور ضرورت کے اعتبار سے جب اس کی ضرورت پیش آتی ہے .. یمن بغیر قتال کے صرف دعوت سے اسلام میں آیا .. طائف قتال کے وقت اسلام میں نہیں آیا بلکہ مسلمان فتح کرنے سے عاجز آ گئے تھے اور ان کو بغیر فتح کے مدینہ واپس جانا پڑا دعوت چلتی رہی یہاں تک کہ اہل طائف بھی اسلام میں داخل ہوئے .. اس مسئلہ کو البداية والنهاية والوں نے ، ابن القیم نے کچھ بیان کیا ہے .. دیوبند کے مفتی محمود الحسن صاحب رحمہ اللہ نے فتاویٰ محمودیہ میں اس کو بڑے بسط کے ساتھ لکھا ہے اور تبلیغ والوں پر لوگوں کے جو اعتراضات تھے ان کو نقل کر کے جوابات دئے ہیں ان میں ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ دعوت والے جہاد والی آیات کو اپنے اوپر چسپاں کرتے ہیں اور ان کا بالیقین جواب دیا اور امام بخاری رحمہ اللہ نے جہاد کے لفظ کو بہت ہی عموم دیا کہ ماں باپ کی خدمت بھی جہاد ہے اور مسجد کی طرف چلنا بھی جہاد ہے صرف یہ اپنے دوستوںکے اطمینان کے لئے لکھا گیا اور علماء کرام سے کچھ تعارض نہ کریں اور ان کا اکرام کرتے رہیں اور ان سے دعا مانگتے رہیں ان شاء الله کچھ عرصہ ہی میں ان کی سمجھ میں آجائے گا اور انشراح ہو جائے گا ..

فقط

والسلام

بندہ سعید احمد المدنی 9 ستمبر 1993 .. کاکریل مسجد ڈھاکہ بنگلہ دیش


یہ تھا بغض جہاد سے بھرا سعید احمد تبلیغی کا خط .. اب پڑھیں اس کا جواب


جواب خط

محترم و مکرم مولانا سعید احمد خان صاحب مد ظله ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اتفاقا مجهے آپ کے خط پڑھنے کی نوبت آگئی .. جس سے بہت صدمہ ہوا ..... آپ نے تحریر فرمایا کہ جہاد کی یہ تحریکیں اٹھتی رہیں اور ختم ہو جاتی رہیں لیکن شاید قابل غور بات یہ ہے کہ ولی اللہی خاندان سے لے کر شیخ الہند تک جو بھی جہاد کی تحریکیں اٹھیں انہیں کی محنت اور قربانی تک ہم یہاں تک پہنچے ورنہ انگریزکے تو ہم غلام ہوتے .. خیر یہ تو چھوٹی بات تھی ..

جہاد کا لفظ بیشک مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے لیکن اس سے کا یہ مفہوم مراد لینا کہ اس معنی سے فرضیت جہاد ادا ہو جائے گی سراسر غلط ہے جس طرح کہ صلاة کے لفظ کی عمومیت سے درود شریف کا معنیٰ لینا اور اس کو نماز کی فرضیت کے لئے کافی سمجھنا غلط ہے


یہ بات کہ جو بھی آیات مکہ میں اتریں وہ سب دعوت کے معنی میں ہیں اس میں نظر ہے کہ : وجاهدوا في الله حق جهاده .. کی تفسير میں حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نہ کرنا اور جہاد بالسیف کرنا ہے ..

آپ نے یہ آیت : ياأيها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم ..تحرير فرما کر تشریح میں لکھا ہے کہ منافقین کے ساتھ قتال نہیں کیا ہم نے کب آپ سے کہا ہے کہ منافقین سے قتال کرو بلکہ ہمارا مطالبہ تو یہ ہے کہ کفار سے لڑئے جس پر ياأيها النبي جاهد الكفار دلالت کرتی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ آپ نے کفار کے ساتھ جہاد کے تذکرے کو محذوف کر دیا اور منافقین کی بحث چھیڑ دی .. پھر آپ آگے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے نرمی کی .. سبحان اللہ ! آپ قرآن کی آیت واغلظ عليهم ( ان پر سختی کیجئے ) تحریر فرما کر تشریح فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا .. یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ صلی الله عليه وسلم قرآن کی مخالفت کریں ؟ جاهد المنافقين سے دعوت مراد لینا سراسر غلط ہے چونکہ جاهد المنافقين کی تفسير میں حضرت تهانوی رحمہ اللہ بیان القرآن میں فرماتے ہیں کہ باللسان جہاد کیجئے اور آگے فرماتے ہیں کہ ایسی ہی سختی کے وہ لائق ہیں .. اسی طرح جلالین میں ہے والمنافقين باللسان ، لیکن افسوس ! کہ منافقین کے ساتھ جہاد باللسان کیا کرتے ہم نے تو کافروں کے ساتھ بھی جہاد باللسان چهوڑا ہوا ہے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان پر نرمی کریں لیکن یاد رکھنا کہ صحابہ کی صفت أشداء على الكفار رحماء بينهم تهی ..

آپ نے لکھا ہے کہ نوح علیہ السلام سے لے کر عیسی علیہ السلام تک کسی نبی کے بارے میں الله تعالیٰ نے نام لے کر ذکر نہیں فرمایا کہ قتال کیا ہے یہ کوئی مستدل نہیں کیونکہ الله تعالى فرماتے ہیں کہ : وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ ( کتنے ہی انبیاء ہیں جن کے ساتھ مل کر الله والوں نے قتال کیا ) دوسری بات یہ ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب شریعتوں کے مکلف ہیں حالانکہ ہم تو مسلمان ہیں اور اپنی شریعت کے مکلف ہیں ہم سےپہلے شریعتوں کے نہیں .. آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قتال کرنا میدان جنگ میں کافی اور صحیح دلیل ہے فقاتل في سبيل الله .. إلا یہ کہ آپ اور انبیاء کی اقتداء کے قائل ہوں .. اور آپ صلی الله عليه وسلم نے تیرہ سال تک دعوت دی پھر اس کے بعد تو دس سال تک جہاد کیا اور کروایا اور مکہ میں جو عفو کا حکم تھا وہ تو منسوخ ہو گیا جیسا کہ تکملہ فتح الملہم ج 3 ص 138 اور کنز الدقائق کے حاشیے پر اور بهی کئی کتابوں میں مذکور ہے جس کی وقت اجازت نہیں دیتا .. بہر حال یہ منسوخ ہیں تو کیا آپ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے رہیں گے کہ سابق انبیاء نے بهی پڑهی اور مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بهی پڑهی ؟ یہ تو بےاصل و بےبنیاد بات ہے

بےشک انبیاء کا مقصد ہدایت دینا ہوتا ہے لیکن صرف یہ مقصد تو نہیں ہوتا بلکہ مقاصد میں سے من جملہ ایک مقصد یہ ہے اور اس کے علاوہ مقاصد میں سے مسلمانوں کی حفاظت خلافت کا قیام ظالموں کا مٹانا علم سکهانا إنما بعثت معلما ( ابن ماجه ) عدل قائم کرنا بهی ہے

قرآن میں ہے قاتلوهم يعذبهم الله بأيديكم الله ہم کو ذریعہ بنا رہا ہے جو کہ شرافت ہے اور یہ جملہ کہ جب کافر مرے گا تو جہنم جائے گا بہت سخت اور خطرناک جملہ ہے کہ یہ فعل تو آپ صلی الله عليه وسلم نے بهی کیا جیسا کہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابی بن خلف کو مارا تھا جس سے وہ قتل ہوا اور اس طرح بدر میں صنادید قریش کو مروایا تھا تو کیا نعوذ باللہ ان کو دوزخ میں بھیجا ؟ اور اسی کی تو صراحت ہے مفسرین نے اس کو فوائد قتال میں سے گنوایا ہے تو کیا یہ منجملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مامورات میں سے نہیں ؟ اور شریعت کے سامنے عقل کو استعمال کر کے اپنے موقف کو ثابت کرنا نہایت غلط اور بسا اوقات مفضی الی الکفر ہے

آپ کا یہ کہنا کہ قتال تب واجب ہوا جب کافروں نے دعوت میں رکاوٹ ڈالی حضرت آپ تو اقدامی جہاد کی بات کر رہے ہیں جبکہ اس زمانے میں ہم دفاعی حالت میں ہیں تو کیا مسلمانوں کی حفاظت کے لئے جہاد فرض نہیں ؟ کیا قصاصا جہاد فرض نہیں ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو قرآن سے لے کر واقعات صحابہ اور کتب سابقہ میں غلط لکھا ہوا ہے ملاحظہ ہو کہ اگر دشمن حملہ کر دے تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ دشمن کو ہٹائے احکام القرآن 3/440

ابوبکر جصاص نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے الله نے قرآن میں فرمایا وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَآفَّةً .. وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ .. اس مسئلے کو قرطبی نے 8/151 میں ذکر کیا معارف القرآن میں 1/403 میں مفتی شفیع صاحب نے ذکر کیا .. نووی نے شرح مسلم میں ص 130 اور صاحب فتح القدير نے لکھا ہے اگر ایک قیدی بهی ہو مسلمانوں کا تو اس کا چھڑانا اہل شرق و غرب پر فرض ہے اور یہ اتفاقی مسئلہ لکھا ہے 5/440 .. اور کیا بدر کی لڑائی جہاد نہیں تهی جبکہ دعوت تو ویسے بھی پہنچی تھی تو پھر لڑنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اور اس طرح حضرت عثمان کے قصاص کے لئے بیعت على الجہاد غلط تهی نعوذ باللہ یہ تو قرآن سے ثابت ہے اور بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حضرت سعد سے إنك حكمت بحكم الله جبکہ انہوں نے قتل کا فیصلہ کیا .. اور قرآن کی اس آیت کا مطلب کیا ہے مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ في الأرض ؟ اور پھر ولكن الله قتلهم تو کیا الله ان کو جہنم میں پہنچا رہا ہے ؟

حسن لغیرہ ثابت کرنے سے فرضیت میں کمی نہیں آتی پہلی بات تو یہ ہے کہ اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے کہ حسن لذاته یا حسن لغیرہ ہے كذا في حاشية نور الأنوار .. اور کیا آپ قربانی کو بھی چھوڑ دیں گے کہ یہ بهی تو حسن لغیرہ ہے اور اس طرح نکاح بهی اگر دعوت مقصود ہے اور قتال کے بغیر بھی حاصل ہے تو پھر وضوء کرنے کی بهی ضرورت نہیں سیدھے مقصود تک پہنچ جائیں نماز پڑھ لیں نماز کا مقصد ذکر ہے ذکر کر لیں ؟ .. نہیں

نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے دعوت کے لئے جہاد اختیار کیا ہم بهی کریں گے اور ظلم کو روکنے کے لئے بھی جہاد اختیار کیا اور قصاصا بھی اختار کیا لہٰذا ہم بھی کریں گے اور قادیانی کے علاوہ کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا حتی کہ مودودی اور سرسید احمد خان جیسے بهی دفاعی جہاد کے قائل ہیں

آپ کا یہ تحریر فرمانا کہ جب تک مجاہدین میں صفات نہ آئیں سراسر غلط ہے اس لئے کہ وہی بات تو نماز و دیگر عبادات کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ جب تک نماز صحيح نہ ہو برائی سے نہیں روکتی تو کیا ان صفات کے پیدا ہونے تک نماز معاف ہے؟ ہرگز نہیں .. پھر ترمذی ص 168 کی حدیث جس میں مجاہدین کے چار درجات ہیں تو پھر اس ترتیب کا کیا مطلب اگر سب کا صفات میں کامل ہونا شرط ہے ؟ نیز حضرت تهانوی نے بیان القرآن میں التائبون العابدون کے تحت لکھا ہے کہ یہ شرائط کے درجے میں نہیں بلکہ صرف مزید فضیلت کے لئے ہے ..

رہی محفوظ من اللہ کی بات ، تو وہ نہ آپ ہیں اور نہ میں ، وہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے اگر مجاہدین محفوظ من الله نہیں ہیں تو تبلیغی جماعت بهی تو نہیں ہے کہ اس میں تو بہت زیادہ خرافات ہیں لیکن اللہ کے فضل و کرم سے کام چلتا ہے جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں اشارہ فرمایا کہ اگر اچھی طرح حساب لیا گیا تو میں بھی نہ بچوں ( بخاری )

آپ نے جہاد کے بغیر فتوحات کی دو مثالیں پیش کیں ، یمن کی مثال ، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن اسلام کے غلبے کے وقت اسلام میں داخل ہوا نہ کہ مکی زندگی میں .. اور یہ بھی تو جہاد ہے کہ پورا نظام یوں ہے کہ دعوت جزیہ یا قتال اور اس کو نظام جہاد کہتے ہیں لیکن غلبے کے وقت ورنہ کیا کافر ایسے ہی حکومت کو چھوڑ دیں گے؟ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ اب تک آپ کے قدموں میں کتنے ملک اسلام میں آئے ؟ دوسری مثال آپ نے طائف کی دی تو اہلِ علم و عقل پر یہ بات مخفی نہیں کہ صحابہ نے مشورہ کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کہ اب تو ارد گرد کے تمام علاقے فتح ہو چکے تو ان کو بھی مجبوراً آنا پڑے گا لہٰذا ہم چھوڑ دیتے ہیں تو پھر یہی ہوا ورنہ اگر دعوت کافی تهی تو جب آپ صلی الله عليه وسلم نے بغیر جہاد کے طائف میں دعوت دی تو کیوں قبول نہیں کی گئی ؟ اور اس کے علاوہ آدهی دنیا تو جہاد سے مشرف باسلام ہوئی

آپ نے فرمایا کہ جہاد کی فضیلت عام ہے اور ماں باپ کی خدمت بهی جہاد کی ایک قسم ہے یعنی ثواب کے اعتبار سے لیکن وہ اس ثواب کو نہیں پہنچتا جو مجاہدین فی سبیل اللہ کا ہے جس طرح کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ عمرة في رمضان كحجة تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اتنا ہی ثواب ملے گا .. في سبيل الله میں بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ عام ہے لیکن قتال اور جہاد فی سبیل اللہ صرف اور صرف جہاد بالسیف کے لئے قرآن و حدیث میں وارد ہوئے .. عوام کے عدم علم سے فائدہ نہ اٹهائیے یہ ساری بحث تو جہاد اور دعوت اسلام پر ہے تبلیغی جماعت تو اصلاح کا کام کر رہی ہے [ یعنی جہاد اور دعوت اسلام کا کام نہیں کر رہی ] لہذا یہ قیاس مع الفارق ہے

امید ہے کہ آپ دل کھول کر پڑهیں گے اور رجوع کریں گے اور جواب تحریر فرمائیں ورنہ فتنہ کا اندیشہ ہے

والسلام

عبدالقدوس جمہوریہ ہند


ماخوذ از : احقاق الحق ص 47 .. تأليف : مولانا امان اللہ صاحب دامت برکاتہم

جواب مکمل ہو گیا الحمدللہ .. مجموعی طور پر جواب بہت عمدہ ہے .. تاہم مجیب سے معمولی سا اختلاف بهی ہے لیکن چونکہ جواب کو پورا نقل کرنا تھا اس لئے وہ باتیں بهی اس میں آ گئیں ..

زندگی رہی تو اگلی قسط میں اس خط پر ہم کچھ عرض کریں گے ان شاء الله

اپنے اور اپنے متعلقین کے ایمان کا خیال رکھئے


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔