Friday, 11 September 2015

کفر کا فتویٰ لگانا مشکل ہے البتہ یہ اجتہادی اختلاف نہیں حق و باطل کا اختلاف ہے ۔

( مفتی تقی عثمانی صاحب (دامت برکاتہم
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی فرد یا جماعت جہاد کی ابتدائی فرضیت سے انکار کردے جبکہ وہ نصوص قعطیہ سے ثابت ہے اور وہ جماعت صرف دفاعی جہاد کی قائل ہو تو شریعت میں ایسی جماعت کی کیا حیثیت ہے ؟ ایسی جماعت کے طرف کفر یا ضلالت کی نسبت کرنا درست ہے ؟ یہ تو میں نے عرض کردیا کہ یہ نقطہ نظر بالکل غلط ہے کہ جہاد صرف دفاع کے لئے مشروع ہوا ہے ۔ لیکن جو شخص یا جماعت اس نقط نظر کی قائل ہو اس پر کفر کا فتویٰ لگانا بھی مشکل ہے اس لئے کہ تکفیر ایک ایسی چیز ہے جس میں بہت احتیاط لازم ہے اس لیے جو شخص یا جماعت مطلق جہاد کی منکر ہو اس پر بے شک کفر کا فتویٰ لگایا جائے گا کیونکہ جہاد کی مشروعیت دین میں سے ہے لیکن جو شخص یا جماعت دفاعی جہاد کی قائل ہے اور ابتدائی جہاد کی مشروعیت سے انکار کرتی ہے تو وہ جماعت ماؤل (تاویل کرنے والی ہے ) اور ماؤل کو کفر نہیں کہا جائے گا۔ اس لئے اس جماعت کو کافر نہیں کہیں گئے ۔ 
البتہ یہ نقط نظر بالکل غلط اور باطل ہے اور یہ صرف اجتہادی اختلاف نہیں ہے بلکہ حق و باطل کا اختلاف ہے اور ابتدائی جہاد سے انکار کرنے والے کو یہ کہا جائے کہ یہ باطل پر ہے حق پر نہیں ہے لیکن کفر کا فتویٰ نہیں لگائیں گے .......صفحہ نمبر ۲۰۷ جلد نمبر ۲ تقریر ترمذی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔