Saturday 27 June 2020

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ قسط 37 کچھ تبلیغی گشت سے متعلق ... حصہ دوم


تبلیغی جماعت کیا ہے ؟ - مفتی عبد المعز- سنگین فتنہ - Sangeen Fitna

تبلیغی جماعت کیا ہے ؟

قسط 37

کچھ تبلیغی گشت سے متعلق ... حصہ دوم


⬅ گشت کے اعلان سے تو آپ واقف ہیں ہی .. اور وہ یہ ہے کہ ہماری آپ کی بلکہ پوری انسانیت کی پوری کی پوری کامیابی پورے کے پورے دین میں ہے  .. یہ دین میرے اندر آپ کے اندر پوری دنیا میں کیسے آئے گا اس کے لئے ایک زبردست محنت کی ضرورت ہے ..

        ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ : ساری انسانیت جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والی بن جائے ، ہدایت ہواؤں کی طرح عام ہو جائے وغیرہ وغیرہ ..


     کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ پوری انسانیت جنت میں جانے والی بن جائے ؟ جواب ہے کہ نہیں .. اس کے بارے میں تفصیلی بات گزر چکی ہے .. لہٰذا یہاں پھر نہیں دہرائیں گے .. آگے چلتے ہیں


⬅ پورا کا پورا دین .. یہ ایک جھوٹ ہے اس لئے کہ آج تک تبلیغی جماعت عملاً چند ہی باتوں میں محصور ہے .. بلکہ دین کے بعض احکام کی مخالف ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ ، بغض في الله ، انکار طاغوت ، نهی عن المنکر ، تکفیر اور تفسیق ( واضح رہے کہ کافر کو کافر کہنا اور اس کے ساتھ حسب موقع کافر والا معاملہ کرنا اسی طرح فاسق کو فاسق کہنا اور اس کے مناسب حال معاملہ ، شرعی احکام ہیں جس کے ساتھ بیسیوں مسائل متعلق ہیں بشرطیکہ یہ اصول کے مطابق ہو )

چند باتوں میں محصور ہوکر اور نظام اسلام سے منہ موڑ کر اور کچھ کی مخالفت کرکے پورے پورے دین کی بات کرنا انتہائی حیران کن ہے .. لیکن یہ زمانہ کچھ ایسا ہے کہ بھیڑ جمع کر لو پھر جو چاہو کہو .. کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا .. خلاصہ یہ ہے کہ ان کے اعلان اور عمل میں بلا کا تضاد ہے

⬅ ہیئات کا التزام : شرعا ایسی کوئی پابندی نہیں کہ فلاں وقت کے بیان کو کھڑے ہو کر کیا جائے اور فلاں بیان کو بیٹھ کر کیا جائے .. شریعت کسی کو اجازت نہیں دیتی کہ اپنی طرف سے ایسی کوئی پابندی عائد کرے .. شریعت نے معاملے کو آزاد چھوڑا ہے کہ جیسے آسانی اور مناسب ہو کر لو سوائے خطبہ جمعہ و عیدین کے .. سو معاملے کو اسی طرح آزاد رکھنا ضروری ہے .. کسی ہیئت کا التزام بدعت ہے .. التزام کا مطلب ہے اسے ضروری سمجهنا یا ضروری جیسا معاملہ کرنا .. اب موجودہ ہیئات کو ضروری سمجھا جاتا ہے .. ضروری نہ بهی سمجها جاتا ہو تو کم از کم .. یہ تو ہے ہی کہ ضروری جیسا معاملہ کیا جاتا ہے .. آپ دارالافتاووں سے اس صورت حال سے متعلق معلوم کر لیں .. ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی ..

⬅ کافروں کو دعوت نہ دینا .. یہ حضرات جو نبیوں والا کام ، کلمے کی محنت ، دین کو ساری دنیا میں عام کرنے کی فکر لے کر پوری دنیا میں گھومنے کے چکر میں ہوتے ہیں .. گشت میں نکلتے ہیں تو کافروں کو دعوت نہیں دیتے .. صرف یہی نہیں کہ دعوت نہیں دیتے بلکہ " غلطی " سے دعوت دینے پر معذرت کر لیتے ہیں .. وہ کیسے ؟ .. وہ ایسے کہ یہ حضرات گشت میں نکل کر کسی کو دعوت دینا شروع کر دیتے ہیں تو وہ آگے سے کہتا ہے کہ بھائی صاحب میں ہندو ہوں یا کرسچن ہوں تو معذرت کر لیتے ہیں کہ ناراض نہ ہونا ہم نے پہچانا نہیں ..

جس کو کلمے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اسے کلمے کی دعوت نہیں دیتے بلکہ نہ دینے کا اصول ہے اور ہے پھر بھی یہ کلمے کی محنت اور نبیوں والا کام ہے اور پورے عالم میں پورے کے پورے دین کو عام کرنے کی محنت ہو رہی ہے سبحان اللہ 

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

اب آپ ذرا ان حضرات کی ان باتوں کو یاد کریں

* ساری انسانیت جنت میں جانے والی بن جائے

* ایک کافر بھی بغیر کلمے کے مرے گا تو ہم سے پوچھا جائے گا

* کلمے والی محنت

* نبیوں والا کام

* قصور ہمارا ہے ہم نے ان تک کلمہ نہیں پہنچایا .. سوچتے رہئے

ناطقہ سربگریبان ہے کہ اسے کیا کہئے ..

⬅ بہت زیادہ اصرار کرنا : کافروں کے ساتھ تو یہ معاملہ کرتے ہیں جو ابھی بیان ہوا لیکن مسلمین کے ساتھ ان کا معاملہ عجیب ہوتا ہے .. لوگوں کو کھیتوں سے دکانوں سے اور دیگر کاموں سے زبردستی لاتے ہیں اور ان کا کوئی واقعی عذر بهی نہیں سنتے .. ایسے میں گفتنی ناگفتنی ہر قسم کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں .. ایسی زبردستی شرعا جائز نہیں .. ہم " مسجد نبوی والے اعمال " والی پوسٹ میں عرض کر چکے ہیں کہ .. مسجد نبوی میں آزادی تھی .. کسی خاص حلقے میں بیٹھنے کی پابندی نہیں تھی .. سو ! جب مسجد میں موجود لوگوں کو آپ اصرار کرکے اپنے حلقے میں بٹھا نہیں سکتے تو باہر کے لوگوں کے ساتھ ایسا کرنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے ؟؟؟ .. بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں تو ایسی مثالیں بهی ملتی ہیں کہ مجلس نبوی میں بیٹھے ہیں کوئی ضرورت پیش آئی اٹھ کر چلے گئے اور کسی نے اس پر نکیر نہیں کی ..

لیجئے حدیث

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَقَلْتُ نَاقَتِي بِالْبَابِ فَأَتَاهُ نَاسٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ فَقَالَ اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا بَنِي تَمِيمٍ قَالُوا قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا مَرَّتَيْنِ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا أَهْلَ الْيَمَنِ إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ قَالُوا قَدْ قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالُوا جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ قَالَ كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُهُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَكَتَبَ فِي الذِّكْرِ كُلَّ شَيْءٍ وَخَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَنَادَى مُنَادٍ ذَهَبَتْ نَاقَتُكَ يَا ابْنَ الْحُصَيْنِ فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا هِيَ يَقْطَعُ دُونَهَا السَّرَابُ

البخاري في بدء الخلق .. باب : وهو الذي يبدأ الخلق ثم يعيده

اس حدیث میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے ہیں رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کی بات سن رہے ہیں کہ اتنے میں کوئی شخص آپ سے کہتا ہے کہ آپ کی اونٹنی چلی گئی چنانچہ آپ بات کے درمیان میں اٹھ جاتے ہیں اور اس پر نکیر نہیں ہوتی ..


آج اتنا کافی ہے گشت سے متعلق باقی باتیں اگلی قسط میں ان شاء اللہ


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔